جمہوری نظام کی جبری مشقت

اوریا مقبول جان  اتوار 1 مارچ 2015
theharferaz@yahoo.com

[email protected]

گزشتہ دو سو سال سے پوری دنیا میں جس طرز معاشرت کا غلبہ ہے اس کا جنم علم کی ایک مخصوص قسم کی کوکھ سے ہوا ہے جسے سوشل سائنسز کہتے ہیں۔ اپنے آغاز میں علم انسانی تہذیب اور معاشرت کی تاریخ مرتب کرنے تک محدود تھا۔ یہ تاریخ عموماً واقعاتی ہوتی لیکن جب اس کے ساتھ ایک دوسرے علم کا تڑکا لگا تو اس میں سے اتنی شاخیں پھوٹیں کہ گننا مشکل ہو گیا۔ یہ دوسرا علم تھا فلسفہ۔ فلسفہ جس کے پانچ بنیادی سوال، میں کون سے شروع ہو کر یہ کائنات کیا، کیسے، کیوں کب اور کدھر جا رہی ہے نے تاریخ کے واقعات کی توجیہات کرنا شروع کیں تو فلسفہ تاریخ نے انسانی تجربات کے عوامل، نتائج اور ان کے خدوخال سے پولیٹکل سائنس، سوشیالوجی، سائیکولوجی انتھرو پالوجی اور ایسی کئی سوشل سائنسوں نے جنم دیا۔

ان سب کا بنیادی تصور یہ تھا کہ جس طرح انسان مادی طور پر ارتقاء کی منازل سے گزر رہا ہے، پہاڑوں کی غاروں سے بلند و بالا عمارتوں تک آ پہنچا ہے اسی طرح اس کی اخلاقیات، طرز حکومت اور تصور عبادت بھی ارتقاء کر رہا ہے اور یہ سب کچھ انسان نے حالات سے سیکھ سیکھ کر بہتر بنایا ہے۔ انسان سے بالاتر کوئی ہستی ایسی نہیں جس نے اسے مذہب، اخلاق، خاندانی و معاشرتی زندگی کے اصول بتائے ہوں۔ اللہ، بھگوان، یزدان اور دیگر تصورات سب انسانی ذہن کی تخلیق ہیں۔ ہر معاشرے نے اپنی ضروریات کے مطابق اپنا خدا تخلیق کیا اور اپنے ہی مرتب کیے ہوئے اصولوں کو مذہب کا نام دے کر الہامی بناتے ہوئے معاشرے پر نافذ کر دیا ہے۔

ہزاروں سالہ انسانی تاریخ کی ان توجیہات کی بنیاد پر ان علوم کی کوکھ سے سیکولرزم نے جنم لیا اور پھر اس کے بیج سے جس تناور معاشرتی درخت نے اپنی شاخیں پھیلائیں اسے جدید مغربی تہذیب (Modern Westeran Civilization) کہتے ہیں۔ اس تہذیب کی بنیادی علامتوں میں جدید سیکولر قومی جمہوری ریاستوں کا قیام، سیکولر اخلاقیات کا پھیلاؤ، حقوق نسواں کی تحریکیں اور ’’انسان عظیم ہے خدایا،، کا فلک شگاف نعرہ شامل ہے۔ اس تہذیب نے جس سرمائے سے ترقی کی وہ بینکاری نظام کا سود اور کاغذ کے نوٹ کا مصنوعی تصور زر ہے۔ اس مصنوعی دولت کے انباروں نے دنیا بھر کے وسائل اس جدید مغربی تہذیب کے قبضے میں دے دیے۔

1694ء میں بینک آف انگلینڈ نے پہلا کاغذ کا نوٹ چھاپا اور پھر سو سال تک انگلینڈ نے صرف اپنی بحری عسکری طاقت میں اضافہ کیا اور اس کے بعد دنیا پر چڑھ دوڑی۔ انھوں نے شروع میں کسی سائنسی ترقی کی طرف توجہ نہ دی بلکہ صرف اور صرف فوجی قوت کو مضبوط بنایا۔ اس کے بعد کے اگلے سو سال اسی مصنوعی کاغذی دولت اور اس سے پیدا کی گئی عسکری طاقت نے دنیا بھر کے وسائل پر قبضہ کر لیا۔ چند لاکھ ڈالروں کی لاگت سے بہترین سیاہی اور کاغذ پر اربوں ڈالر چھاپے جاتے ہیں اور ان سے بزور مسلمان ملکوں کا تیل خرید لیا جاتا ہے۔

آج اگر تیل پاکستانی روپے میں فروخت ہونا شروع ہو جائے تو ایک روپے میں سو ڈالر بکنے لگیں۔ اسی مصنوعی کاغذی دولت سے دنیا کی پنتالیس ہزار کارپوریشنیں چلتی ہیں جن کو پانچ سو بنیادی (CORE) کارپوریشنیں کنٹرول کرتی ہیں اور ان کو صرف بیس بینک سرمایہ فراہم کرتے ہیں۔ ریاستوں سے بھی طاقتور اس سودی نظام نے اپنے تحفظ کے لیے ایک سیاسی نظام بھی وضع کیا۔ جسے سیکولر جمہوریت کہتے ہیں۔ اس نظام کو ترتیب دینے، اس کی نوک پلک سنوارنے کے لیے ان سوشل سائنسز کے علم نے بہت بڑا کردار ادا کیا۔

جمہوری نظام کی اساس اس بنیادی نکتے پر رکھی گئی کہ طاقت اور قوت کا سرچشمہ عوام ہیں۔ وہی اس زمین کے مالک اور بادشاہ ہیں، انھیں کا کام ہے کہ قانون مرتب کریں اور اپنی سماجی زندگی کی اخلاقیات طے کریں۔ یوں اس بنیادی تصور نے سب سے پہلے جس تصور کا خاتمہ کیا وہ انسان سے بالاتر کسی ہستی کی بادشاہت کا تھا۔ ’’الملک‘‘ یعنی حقیقی حکمران جو اللہ کی صفت تھی اب عوام کی عطا کر دی گئی۔ لوگوں کو اس فریب میں مبتلا کرنے کے بعد اگلا سوال یہ پیدا ہوتا تھا کہ ان لوگوں کو کنٹرول کیسے کریں، یہ تو ہر ملک میں کروڑوں کی تعداد میں ہیں۔ یہاں سے منتخب نمایندوں کا تصور پیدا ہوا، پارلیمنٹ، کانگریس، اسمبلی جیسے ادارے وجود میں آئے۔

لوگوں کو یہ خوبصورت خواب دکھایا گیا کہ تم جو ووٹ دیتے ہو اس کے ذریعے یہ لوگ ان اداروں میں جاتے ہیں اور وہاں اپنے لیے صدر یا وزیراعظم منتخب کرتے ہیں، ان سب کو اصل میں تم منتخب کرتے ہو، یہ سب کچھ تمہارے ووٹوں کی وجہ سے ہوتا ہے۔ اصل میں تم حاکم ہو، کوئی رکن اسمبلی، صدر یا وزیراعظم حاکم نہیں۔ عوام کو اس خواب کی لذت میں گم کرنے کے بعد کس قدر آسان تھا کہ ان دو سو یا تین سو اراکین پارلیمنٹ یا کانگریس کو کنٹرول کر لیا جائے تو پھر نظام سیاست و حکومت مٹھی میں آ جائے گا۔

اس نظام سیاست و حکومت کو کنٹرول کرنے کے لیے ایک بہترین طریقہ نکالا گیا۔ سیاسی پارٹیاں، پارٹی پالیٹکس۔ دنیا میں کوئی جمہوری نظام ایسا نہیں جو سیاسی پارٹیوں کے بغیر چلتا ہو۔ یہ تمام سیاسی پارٹیاں جو دنیا کے ہر ملک میں پائی جاتی ہیں اپنے آپ کو نظریاتی پارٹیاں کہتی ہیں۔ لیکن امریکا، برطانیہ اور بھارت سے لے کر پاکستان جیسے کسی بھی ملک کی سیاسی پارٹیوں کے منشور اٹھا لیں، سوائے چند ایک شقوں کے ان میں کوئی زیادہ اختلاف نظر نہیں آئے گا۔ یہ نظریاتی گروہ نہیں ہیں بلکہ سیاسی لیڈروں کے جتھے میں جنہیں ایک جگہ اس لیے جمع کیا جاتا ہے کہ انھیں براہ راست یک مشت سرمایہ فراہم کیا جاسکے۔ یہی سرمایہ ہے سیاسی پارٹیوں کے الیکشن، کنونشن، ہڑتالوں، دھرنوں اور جلسوں پر خرچ ہوتا ہے۔

پارٹی لیڈروں کی آمد و رفت سے لے کر پارٹی دفاتر کے اخراجات سب اسی سے ادا ہوتے ہیں۔ دنیا کی تاریخ کا سب سے زیادہ سرمایہ امریکی سینیٹ کے گزشتہ مڈٹرم الیکشن پر صرف کیا گیا۔ اس کا تخمینہ تقریباً 5 ارب ڈالر تھا۔ گزشتہ امریکی صدارتی الیکشن میں Duke انرجی، AT&T اور بینک آف امریکا نے ریپبلکن اور ڈیمو کریٹ دونوں پارٹیوں کے کنونشنوں کے لیے 6 کروڑ ڈالر فی پارٹی فراہم کیے۔ دنیا کی ہر سیکولر جمہوریت میں سیاسی پارٹیاں اسی طرح سرمایہ حاصل کرتی ہیں اور حکومت میں آ کر سرمایہ فراہم کرنے والے گروہوں کے مفادات کا تحفظ کرتی ہیں۔ یوں سرمایے سے پوری کی پوری پارٹی مکمل طور پر خرید لی جاتی ہے۔ اسی لیے اگر آپ آج نان پارٹی الیکشن کی بات کریں تو ہر کوئی سانپ کی طرح پھنکارتا ہے کہ یہ آمریت کی طرف ایک قدم ہے۔ لیکن پارٹی آمریت کو دنیا بھر میں پارٹی وفاداری سے تعبیر کیا جاتا ہے۔

اس جمہوری نظام میں سب سے برا شخص وہ سمجھا جاتا ہے جو پارٹیاں بدلتا رہتا ہے۔ کہا جاتا ہے اس کا کوئی دین ایمان نہیں۔ اس لیے کہ اس نظام میں پارٹی اراکین کے ’’دین ایمان‘‘ کو ایک ساتھ فنڈز فراہم کرنے والوں کے ہاتھ فروخت کیا جاتا ہے۔ ان سب کی حیثیت بھٹے پر کام کرنے والے ان مزدوروں کی طرح ہے جن سے جبری مشقت لی جاتی ہے۔ بھٹے کا مالک ایک کاغذ پر لکھی تحریر کے بدلے ان کے خاندان کے تمام افراد کو خرید لیتا ہے۔ ان کی ذاتی، سیاسی اور معاشرتی زندگی سب اس کے قابو میں ہوتی ہے۔ اسی طرح ایک سیاسی پارٹی کا سربراہ اپنے تمام اراکین کا بلاشرکت غیرے مالک بن جاتا ہے۔

کوئی رکن اس کی سوچ کے خلاف کوئی بات تو کہہ کر دیکھے، اس کے مخالف کی شادی بیاہ میں شریک ہو کر دکھائے، اس کی اولاد اور گھرانے کی تعریف نہ کرے، پھر دیکھو۔ یہ سب کے سب اراکین چابی سے چلنے والے ان کھلونوں کی طرح بنا دیے جاتے ہیں کہ جس میں جتنی چابی بھرو گے وہ اتنا ہی بولے گا ورنہ لاکھ سوال کرو چپ سادھ لے گا۔ اسی لیے دنیا بھر میں پارٹی چھوڑنے کی سزا سب سے المناک ہے۔ جمہوری نظام کی اس منڈی میں سودے اجتماعی ہوتے ہیں۔ پورے ریوڑ کی بولی لگتی ہے۔ گستاخ بھیڑوں کی کیا مجال کہ اپنی بولی خود لگائیں۔ جنہیں گلی محلوں، علاقوں اور قصبوں میں الیکشن کے دوران ووٹ خریدتے ہوئے شرم دامن گیر نہیں ہوتی، انھیں ایسا ووٹ سینیٹ کے الیکشن میں بیچتے کیوں شرم آئے گی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔