جاڑے کے موسم کی آنکھ مچولی

انتظار حسین  اتوار 1 مارچ 2015
rmvsyndlcate@gmail.com

[email protected]

یہ جو جاڑے کا موسم ہمارے ساتھ آنکھ مچولی کھیل رہا ہے یا وہ نوزائیدہ کھیل جسے ڈبل گیم کہتے ہیں اس سے وہ کیا مقصد حاصل کرنا چاہتا ہے۔ ویسے یہ جو دو مہینے ہیں فروری اور مارچ یہ سدا سے دو رنگے مہینے چلے آتے ہیں۔ آج کچھ کل کچھ۔ مگر خیر۔ یہ دو رنگا کھیل زیادہ دیر چلنے والی چیز نہیں ہے۔ ابھی پچھلے دو ڈھائی دن ہم نے کراچی میں گزارے ہیں۔ تقریب صرف اتنی تھی کہ وہ جو اس شہر میں ایک نئی یونیورسٹی قائم ہوئی ہے یعنی حبیب یونیورسٹی اس کا چہرہ نکھرنے لگا ہے۔ تقریب اس حساب سے تھی کہ یہاں شعبہ اردو کچھ نئے ڈھنگ سے نمودار ہوا ہے۔

ایک ادارہ آرزو سینٹر کے نام سے قائم ہوا ہے۔ میرؔ کے زمانے میں اردو فارسی کے ایک عالم گزرے ہیں۔ خان آرزو ان کے نام پر نام رکھا گیا ہے۔ آرزو سینٹر کا پورا نام ہے آرزو سینٹر برائے علاقائی زبان و ادبیات۔ اس کے سربراہ مقرر ہوئے ہیں آصف فرخی۔ جانے مانے اردو کے استاد ہی نہیں ہیں، ادب میں بہت متحرک نظر آتے ہیں۔ اب جو اردو کے شعبہ کو یہاں آ کر سنبھالا ہے تو اس ادارے کے قیام سے ان کے تیور کا‘ ان کے عزائم کا پتہ چلتا ہے۔ مطلب یہ ہوا کہ یہ ادارہ زبان کی رسمی درسیات سے ذرا مختلف رنگ کی غمازی کر رہا ہے۔

شاید اس عزیز نے سوچا ہے کہ کسی بھی زبان کو اپنے ارد گرد کے لسانی نقشہ سے الگ کرکے دیکھنا اور اس کا مطالعہ کرنا بہت بے بصیرتی کی بات ہے۔ کلچرز کی طرح زبان کا بھی خاصہ یہ چلا آتا ہے کہ وہ اکیلے میں پھلتی پھولتی نہیں ہے۔ ارد گرد زبانوں کا جو سلسلہ پھیلا ہوا ہے اس سلسلہ سے اس کا ربط و ضبط ہونا چاہیے۔ یہ دو طرفہ عمل ہوتا ہے۔ وہ زبان جو ارتقائی مراحل طے کرتی ہوئی کسی اگلے مرحلے میں ہے وہ ان ارد گرد پھیلتی پھولتی زبانوں سے رس اور جس حاصل بھی کرتی ہے اور اپنی طرف سے انھیں تقویت بھی پہنچاتی ہے۔ بڑی اچھی بات ہے۔ زبان و ادب کے مطالعہ کو کسی نئے ڈھنگ سے استوار کرنے کے لیے کوئی قدم تو اٹھایا گیا۔

یہاں اس مطالعہ میں نقوی صاحب بہت دلچسپی لیتے نظر آئے۔ ویسے وہ فنون لطیفہ کے شعبہ کے نگراں ہیں۔ اگر زبان و ادب کے مطالعاتی پروگرام میں دلچسپی لے رہے ہیں تو یہ اس شعبہ کے لیے نیک فال ہے۔

اور ہاں اردو کے نصاب میں پریم چند کے دو افسانے بھی شامل ہیں۔ ’کفن‘ اور ’شطرنج کے کھلاڑی‘ ثانی الذکر اول الذکر کے مقابلہ میں خاصا ہلکا افسانہ ہے لیکن چونکہ ایک بڑے فلمی ڈائریکٹر نے اسے موضوع بنا کر ایک فلم بھی بنا ڈالی تو وہ پریم چند کی نمایاں کہانیوں میں شمار ہونے لگی۔ یہاں نوجوانوں کے ایک گروپ نے اس کہانی پر اپنا Recitation کا فن آزمایا۔ چلو یہ بھی اچھا ہے۔ اس گروپ نے اپنا نام ’زنبیل‘ رکھا ہے۔ اپنی زنبیل میں رنگ رنگ کی کہانی لیے پھرتے ہیں۔ جہاں موقعہ ملتا ہے اس فن میں اپنی مہارت دکھاتے ہیں۔

ہم نے سوچا کہ یہ دوسری کہانی تو شاید اس لیے نصاب میں شامل ہونے کی مستحق ٹھہری ہے کہ اب اس سے فلم کا گلیمر وابستہ ہو گیا ہے۔ بہر حال چونکہ یہ کہانی برصغیر کی جدوجہد آزادی کے ایک باب سے وابستہ ہے تو اس کے بارے میں سوالات تو کھڑے ہوں گے۔ سو یہ کہانی ایک پوری بحث کی طالب ہے۔

بہر حال اتنا تو طے ہے کہ اس یونیورسٹی کے تیور ان نوزائیدہ یونیورسٹیوں سے مختلف ہیں جو ایسے تجارتی ادارے بن کر رہ گئی ہیں جو تعلیم نام کا سودا سلف بیچتی ہیں۔ اور ان پرانی یونیورسٹیوں سے بھی ہٹ کر متحرک ہونا چاہتی ہے جو درسیات کی پرانی ڈگر سے ہٹ کر ادھر ادھر دیکھنے کی قائل نہیں۔ یہ نئے زمانے کے سیاق و سباق میں ایک فعال یونیورسٹی کے طور پر متحرک ہونے پر آمادہ نظر آتی ہے۔ اس سے پہلے بھی اس کے ایک سیمینار میں ہم حصہ لے چکے ہیں۔ پوت کے پاؤں پالنے میں کچھ اس رنگ سے نظر آ رہے ہیں۔

کہیں چلتے چلتے ہم نیرنگ گیلری میں جا نکلے جہاں شہر کے جانے مانے دانشور اکٹھے تھے۔ ڈاکٹر مبشر حسن‘ آئی اے رحمن‘ قاسم جعفری‘ حسین نقی وغیرہ وغیرہ۔ اور میزبان نیّر علی دادا۔ کتنے برسوں سے ایک طور چلا آ رہا ہے کہ مہینے کے مہینے اکٹھے ہوتے ہیں۔ پہلے نئی پرانی‘ پکی کچی موسیقی سنتے ہیں۔ پھر بغیر کسی منصوبے کے رواں ہو جاتے ہیں۔ کسی نے لاہور فیسٹیول کا حوالہ دیا۔ بس اسی طرف چل پڑے۔ ویسے بھی اس وقت یہ فیسٹیول جسے انگریزی میں کہتے ہیں ٹاک آف دی ٹاؤن بنا ہوا ہے۔ سراہا بھی جا رہا ہے۔ تنقید بھی ہو رہی ہے۔

بجا سراہا جا رہا ہے اور بجا تنقید ہو رہی ہے۔ سراہا جا رہا ہے کہ چلو نئے رنگ سے ہلچل تو پیدا ہوئی اور نئی گہما گہمی۔ نیلے پیلے پیرہن۔ رنگا رنگ آنچل۔ اور ہاں جینز بھی۔ جسے دیکھو کیمرے سے مسلح۔ یہ تو نئے طرز کے اجتماعات ہیں۔ پچھلے سیمیناروں سے ان کا موازنہ غلط ہو گا۔ ہمارے پچھلے سیمیناروں کو جو اردو کی حد تک تھے پروفیسرں کے طول طویل مقالات لے ڈوبے اب ان نقادوں میں سے تو کوئی شریک نہیں ہوتا تھا جن کی تنقید نے ہمعصر ادب میں ہلچل پیدا کی تھی۔ پاکستان میں تو ایسے نقادوں کو جوانمرگی کھا گئی۔ ادھر شمس الرحمن فاروقی‘ ڈاکٹر گوپی چند نارنگ‘ وارث علوی‘ شمیم حنفی ایسے نقاد دور ہندوستان میں بیٹھے تھے۔

انگریزی میں کم از کم فکشن کے میدان میں کچھ نوجوانوں نے پَر پُرزے نکالے تھے۔ نئے ان کے عزائم تھے۔ ان کے ساتھی کچھ دانشوروں نے پھریری لی۔ لٹریچر فیسٹیول کی روایت کراچی میں قائم ہو ہی چکی تھی۔ یہ بھی چل پڑے۔ بہر حال ان کا اپنا معاملہ تو ابھی مختصر ہی تھا مگر انھوں نے اس کی تلافی اس طرح کی کہ ہندوستان سے جانی مانی شخصیتوں کو بلانا شروع کر دیا۔ یہ عمل یوپی کے فیسٹیول سے شروع ہوا اور لاہور تک پہنچا۔ اس کا ایک خوشگوار اثر یہ ہوا کہ ہمارے سیمیناروں اور ادبی کانفرنسوں کو بیورو کریٹس سے اور وزیروں سفیروں سے نجات مل گئی۔ ہمارے سیمیناروں کو خراب کرنے میں ان کا بھی بڑا ہاتھ تھا۔

چلو یہ تو ہوا مگر دیسی رنگ کچھ تو شامل کرنا ہی تھا۔ تو انھوں نے اکا دکا اردو کے ادیب‘ اکا دکا پنجابی کے دانے کو نواز ڈالا۔ اس پر شروع شروع میں کسی دبی دبی آواز میں نکتہ چینی کی گئی اب کے مسعود اشعر نے کمال کیا۔ لکھا کہ اردو پنجابی کے اکا دکا لکھنے والے ایسے بلائے جاتے ہیں جیسے امیر خاندان کی شادی ایسی تقریب میں غریب رشتہ داروں کو بلایا جاتا ہے۔

اس پر یاروں کو غصہ آنا ہی تھا۔ کیا کہا غریب رشتہ دار۔ ہمارے پیچھے علامہ اقبال کھڑے ہیں۔ نئے ادب کے حساب سے فیض راشد منٹو وغیرہ وغیرہ یہ کچھ کم ہیں۔ ادھر ہمارے انگریزی کے لکھنے والوں کا حال یہ ہے کہ ابھی تو ان کے دانت بھی نہیں ٹوٹے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔