سینیٹ کے الیکشن اور ہمارے مسائل

ڈاکٹر نوید اقبال انصاری  پير 2 مارچ 2015
apro_ku@yahoo.com

[email protected]

ہمارے ذرایع ابلاغ پر یوں تو حقیقی مسائل (کور ایشوز) پر بہت ہی کم بات ہوتی ہے مگر آج کل ایک انتہائی اہم مسئلہ ذرایع ابلاغ پر زیر بحث ہے اور وہ سینیٹ کے الیکشن میں ووٹ کی خرید و فروخت کا ہے۔ بظاہر یہ مسئلہ ایک طرح سے سینیٹ کے الیکشن سے متعلق لگتا ہے اور یہ برائی محض رشوت تک محدود نظر آتی ہے، مگر راقم کے خیال میں یہ وہ مسئلہ ہے جس سے ہمارے تمام تر مسائل جڑے ہوئے ہیں اور اسی منبع سے دہشت گردی کے واقعات صد فی صد جڑے نظر آتے ہیں۔

اس ساری خرید و فروخت میں دو اہم سوالات پنہاں ہیں جن کا جائزہ لینا عوام خاص کر ذرایع ابلاغ کے لیے لازمی ہے۔ پہلا سوال یہ کہ جو شخص ایک سیٹ کے لیے اتنی بڑی رقم خرچ کر رہا ہے تو وہ اس رقم کا نقصان یعنی جو وہ سرمایہ کاری رشوت کی شکل میں کر رہا ہے اس کا نفع کس طرح حاصل کرے گا؟ کیا تنخواہ و مراعات سے؟ اس کا جواب نفی میں ہے، یہ سب جانتے ہیں کہ تنخواہ اور مراعات کیبل بوتے پر کوئی بھی اتنی بڑی رقم رشوت کے طور پر خرچ نہیں کرے گا، تو پھر یقیناً وہ اس سینیٹ کا حصے دار بن کر ناجائز طرح سے پیسہ نہ صرف واپس حاصل کرے گا بلکہ دگنا سے بھی زائد وصول کرے گا۔

یہ کوئی راز کی بات نہیں ہے کہ غلط طریقے سے پیسہ، غلط کاموں سے ہی حاصل ہوتا ہے۔ یہ بھی کوئی راز کی بات نہیں ہے کہ کوئی بھی شخص پیسہ دے کر اس ملک میں شناختی کارڈ/ پاسپورٹ، اور دیگر دستاویزات کے علاوہ عدالت، تھانہ کچہری کے مشکل سے مشکل بلکہ ناممکن کام کرا سکتا ہے، قانون کی دھجیاں اڑا سکتا ہے، ریمنڈ ڈیوس جیسا کارنامہ انجام دے کر ملک سے فرار ہوسکتا ہے، پیسے کے بل بوتے پر چپڑاسی تو کیا اعلیٰ اداروں میں کلیدی عہدے حاصل کرسکتا ہے، سب جانتے ہیں کہ رشوت کے بغیر آج کل نوکری بھی نہیں ملتی۔ اب تو قومی راز تک افشا ہوتے نظر آتے ہیں اگر ایسا نہ ہوتا تو بھلا دہشت گرد ہمارے کسی اہم ادارے کے اندر کیسے داخل ہوتے اور کیسے جنگی جہازوں کو نشانہ بنا لیتے؟

راقم نے جن خرابیوں کی نشاندہی کی ہے اس سے متعلق اس بات کی کیا ضمانت ہے کہ ایک رشوت کے بل بوتے پر سینیٹ کی نشست پر آ بیٹھنے والا اپنا رشوت کا پیسہ لینے کے لیے ان تمام برائیوں میں ملوث نہیں ہوگا؟ اگر نہیں ہوگا تو پھر اپنا پیسہ واپس کیسے وصول کرے گا؟

آپ کا کیا خیال ہے کہ اس ملک کے ادارے سارے کے سارے اسی تباہ حالی کو پہنچ گئے؟ ریلوے اور پاکستان اسٹیل ملز ایسے ہی تباہی کے دہانے پر پہنچ گئے کہ ملازمین کو پانچ پانچ ماہ تنخواہ نہ ملے اور سربراہوں کی VIP مراعات بھی ختم نہ ہوں؟

جب ملک میں اس قدر اعلیٰ سطح پر بے حسی اور رشوت ستانی کا بازار گرم ہوجائے تو پھر کسی طالبان یا غیر ملکی ایجنٹوں کو دہشت گردی کی کارروائیاں کرنے میں بھی کوئی مسئلہ نہیں رہتا کیونکہ رشوت کا پیسہ ہر ایک مسئلے کو منٹوں میں حل کردیتا ہے اور عوام بے وقوف بن کر ایسی باتوں پر یقین کرلیتے ہیں کہ فلاں فلاں الیکشن کے بعد ملک میں امن قائم ہوجائے گا یا فلاں فلاں نصاب سے فلاں فلاں موضوع نکال کر دہشت گردی کو جڑ سے اکھاڑ پھینکا جائے گا۔ عوام تو اتنے بھولے ہیں کہ وہ یہ بھی سوال نہیں کرتے کہ جناب جس نے تمام تعلیم برطانیہ کے تعلیمی اداروں سے حاصل کی اس پر داعش کے ساتھ مل کر لوگوں کے گلے کاٹنے کا الزام کیوں ہے، وہ تو کسی مدرسے سے نہیں پڑھا؟

اب آئیے دوسرے سوال کی طرف کہ جب کروڑوں روپے کی رشوت دے کر آنے والا شخص اربوں روپے غلط طریقے سے سمیٹے گا تو پھر وہ اس کو کہاں رکھے گا اور کیا کرے گا؟ اور کیا ملکی قانون اور حکمران بشمول عوام اور ذرایع ابلاغ کو اس کی اجازت دینی چاہیے؟

اگر ہمارا جواب نہیں میں ہے اور ہم سمجھتے ہیں کہ یہ سب سلسلہ ختم ہونا چاہیے تو پھر عملی قدم اٹھانا چاہیے مثلاً سب سے پہلے سوئٹزر لینڈ جیسے ملکوں کے بینکوں میں جتنے بھی پاکستانیوں خصوصاً سیاستدانوں کے اکاؤنٹس ہیں ان کے خلاف سوئس حکومت سے مل کر فوری اور حقیقی کارروائی ہونی چاہیے، جیساکہ سب سے پہلے امریکا نے اپنے ٹیکس چوروں کی رقم ان بینکوں سے وصول کی۔ گوکہ پاکستان کی جانب سے بھی کچھ اس طرح کی پیش رفت ہوئی ہے مگر اس کی پوری تفصیلات منظر عام پر آنی چاہیے اور اس کی رفتار اور حدود کو مزید بڑھانا چاہیے۔ اسی طرح عرب ممالک میں بھی جہاں جہاں کرپشن کی دولت پاکستانیوں نے جمع کر رکھی ہے اس کا بھی احتساب شفاف طریقے سے ہونا چاہیے۔

ہمارے سیاستدان اتنے خستہ حال اور معصوم ہیں کہ جب الیکشن کمیشن کی جانب سے ان کے اثاثوں کی تفصیلات ذرایع ابلاغ پہ آتی ہے تو معلوم ہوتا ہے کہ وہ تو ایک مڈل کلاس تاجر سے بھی غریب ہیں۔ کراچی کے مڈل کلاس علاقوں میں 120 گز کے ڈبل منزلہ مکان کی جو قیمت (ویلیو) ہے ہمارے ان سیاستدانوں کے اثاثے اس سے بھی کم ہوتے ہیں۔ ان سب کے بیرون ملک اکاؤنٹس کی تحقیقات ہونا چاہیے اور یہ بھی کہ یہ تمام کتنا کتنا ٹیکس ادا کرتے ہیں۔

ہمارے ذرایع ابلاغ کے نمایندوں پر یہ بھاری ذمے داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اس قسم کے ایشو کو حقیقی ایشو کے طور پر اپنے ٹاک شوز اور کالم وغیرہ میں جگہ دیں کیونکہ یہی وہ اہم ترین مسئلہ ہے جس کے باعث نہ صرف تمام کے تمام ادارے تباہ ہوچکے ہیں بلکہ پورا معاشرہ اس کی لپیٹ میں آچکا ہے اور دہشت گردی کے لیے یہ ملک سب سے آئیڈیل اور آسان ترین بن چکا ہے، یہاں اب کسی ایسے کام کا تصور ہی محال ہوگیا ہے جوکہ پیسہ دے کر بیٹھے بیٹھے نہ کروا لیا جائے۔ کسی شاعر کا یہ مصرعہ کہ ’’رشوت لے کے پھنس گیا ہے، رشوت دے کر چھوٹ جا‘‘ اب ہمارے معاشرے کی مکمل تصویر بن چکا ہے۔ آئیے اپنے اپنے طور پر اس تصویر کو بدلنے کی کوشش کریں ورنہ دہشت گردی سمیت تمام مسائل حل نہیں ہوں گے بلکہ گمبھیر سے گمبھیر تر ہوں گے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔