کتاب اور حقائق

غلام محی الدین  بدھ 4 مارچ 2015
gmohyddin@express.com.pk

[email protected]

اٹھارویں صدی کے عظیم اسکاٹش مفکر، محقق، مصنف، تاریخ دان اور On Heroes, Hero worship, and Heroic in History جیسی معرکتہ الآرا کتاب کے لکھاری تھامس کار لائل نے اپنے کام کے نچوڑ کو ان الفاظ میں بیان کیا تھا ’’عظیم شخصیات کے اقدامات تاریخ کے سنگ میل ہوتے ہیں‘‘ اور یہ کہ ’’عظیم لوگوں کی سوانح کے سوا تاریخ کچھ بھی نہیں‘‘۔

عموماً ہوتا یہی ہے کہ کوئی خود نوشت اسی وقت تحریری شکل اختیار کرتی ہے جب اس کا مصنف اپنی زندگی کے آخری حصے میں داخل ہوچکا ہوتا ہے۔ اپنی خود نوشت سامنے لانے کے پیچھے میرے خیال میں سب سے اہم بات اپنی ذات پر پڑا بوجھ ہٹانا ہوتا ہے۔ اگر کسی کی زندگی کا تعلق عوام الناس کے ساتھ رہا اور اس کا اعمال و افعال لوگوں پر اثر انداز ہوئے تو پھر یہ اس شخصیت کے لیے نفسیاتی سطح پر لازم ہوجاتا ہے کہ ماضی میں گزرے سفر کا احوال اپنے زاویہء نظر سے بیان کردے۔

ریاستی سطح پر فیصلہ سازی کے عمل سے متعلق رہنے والوں کے لیے لازم ہے کہ وہ سچ کی گواہی میں ڈنڈی نہ ماریں۔ جیسا کہ توقع کی جا رہی تھی سیدہ عابدہ حسین کی خود نوشت کے منظر عام پر آتے ہی اس پر بحث مباحثے کا آغاز ہو گیاجس کا فوکس اصلاح پر کم اور اپنے اپنے ممدوح کے دفاع پر زیادہ رہا۔ کوئی خود نوشت تو رضا کارانہ طور پر اپنی زندگی کے سیاہ و سفید کو عوام الناس کے سامنے پیش کردینے کا نام ہے جب کہ ذمے دار ریاستوں نے قانونی طور پر خود کوخفیہ سرکاری دستاویزات کو ایک خاص مدت کے بعد عوام کے لیے ظاہر کردینے کا پابند بنا رکھا ہے۔ اس کا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ ماضی کے فیصلوں اور ان کے نتائج پر نقد و نظر کے ذریعے آیندہ کے لیے بہتری کے امکانات روشن ہوتے ہیں۔

سیدہ عابدہ حسین کی یہ کتاب ایسے بہت سے واقعات سے بھری پڑی ہے جو مستقبل میں ماضی سے مختلف رویئے اختیار کرنے کا تقاضہ کرتے ہیں۔ اس کتاب میں ہمارے سیاسی رہنماؤں کی کمزوریوں اور خامیوں کا بھی تذکرہ ہے جو اعلیٰ سطح کی فیصلہ سازی اور عملدرآمد میں مطلوبہ نتائج کے راستے میں خود رکاوٹ بن جاتی ہیں۔

مالیاتی بے قاعدگیوں کا ذکر بھی ہے اور ذاتی مفادات کے لیے زور آزمائی کا تذکرہ بھی۔ چند روز پہلے ایک نجی ٹی وی چینل پر اس کتاب میں مذکور ایف۔16 طیاروں کی خریداری میں مالی کرپشن کے الزامات پر بات ہورہی تھی تو مذاکرے میں موجود ایک تجزیہ کار نے اس قضیے پر بحث میں کہا کہ یہ الزام اس لیے قابل غور نہیں کہ اگر ایسا کچھ ہورہا تھا تو سیدہ عابدہ حسین کو اپنا عہدہ چھوڑ دینا چاہیے تھا۔ یہ بات اپنی جگہ لیکن اگر کوئی ذمے دار شخص ایسی بات کرتا ہے تو اس کے ذاتی ردعمل سے قطعہ نظر قومی خزانے کو پہنچنے والے نقصان کی تحقیقات تو ہونی چاہئیں۔

کسی خود نوشت کا ایک انتہائی دلچسپ اور مفید پہلو یہ بھی ہوتا ہے کہ شخصیات اور واقعات پر تقابلی مواد میسر آجاتا ہے۔ کسی ایک شخصیت کے بارے میں معاصر لکھنے والوں کا نقطہ نظر بھی بیان کی سچائی کو سہارا دیتا ہے یا پھر کمزور کردیتا ہے۔

مثال کے طور پر پاکستان پیپلزپارٹی کے بانی ذوالفقار علی بھٹو کے بارے میں زیادہ تر لوگوں کا مشاہدہ یہ ہے کہ مرحوم منتقم مزاج تھے۔ ایسی صورتحال ان کے لیے ناقابلِ برداشت ہوتی جس میں کوئی اور کسی بھی حوالے سے ان سے برتر حیثیت میں نمایاں ہو رہا ہوتا۔ بھٹو صاحب کی غیر معمولی خوبیاں اور ذہانت اپنی جگہ لیکن ان کمزوریوں کے بارے میں مختلف شخصیات کے تجربات میں بلا کی مماثلت ہے۔

سیدہ عابدہ حسین نے اپنی کتاب میں ذکر کیا ہے کہ وہ ’’کسان ہال‘‘ میں میر غوث بخش بزنجو اور نواب خیر بخش مری کی تقریر سننے گئیں تو اطلاع ملنے پر بھٹو صاحب نے انھیں طلب کرلیا اور معقول وجہ بیان کرنے کے باوجود بھی ان کی تشفی نہ ہوئی۔

عابدہ حسین کہتی ہیں کہ انھیں اس بات کی سمجھ نہیں آئی کہ آخر بلوچ قوم پرست رہنماؤں کی تقاریر سننے پر بھٹو صاحب کو کیوں اعتراض تھا، لیکن یہ بات اس وقت واضح ہوئی جب اس واقعے سے چند ماہ بعد بلوچستان حکومت کو برخاست کردیا گیا۔ اس طرح ایک اور واقعہ میں بھٹو صاحب نے اپنی میزبان عابدہ حسین کے آبائی گھر کی تعریف کی اور پوچھا کہ ’’کیا یہ سارے کا سارا گھر آپ کی ملکیت ہے۔

جواب اثبات میں تھا۔ تو بھٹو نے فوراً کہا ’’ہمارا لاڑکانہ والا گھر آپ کے گھر سے بڑا ہے۔‘‘ اس حوالے سے ایک اور انتہائی دلچسپ خود نوشت کا ذکر کرنا چاہوں گا جو بزرگ سیاست دان سردار شیر باز خان مزاری نے لکھی۔ کتاب کا نام ”A Journey to Disillusionment” یہ خود نوشت یوں یاد آئی کہ دونوں لکھنے والوںنے اپنی زندگی کی کہانی پاکستان کی بحیثیت ریاست اپنوں ہی کے ہاتھوں ہونے والی بربادی کے زوایۂ نظر سے بیان کی ہے۔

شیر باز مزاری لکھتے ہیں۔ جب ذوالفقار علی بھٹو برکلے اور آکسفورڈ سے اپنی تعلیم مکمل کرکے وطن پہنچے تو ان کے والد سرشاہنواز اپنے بیٹے کو فارن سروس میں کوئی عہدہ دلانے کے خواہش مند تھے۔ تب ایوب کھوڑو سندھ کے وزیراعلیٰ تھے۔

سرشاہنواز بیٹے کو لے کر وزیراعلیٰ سے ملنے پہنچے تو پہلے تو ایوب کھوڑو نے دونوں کو آدھ گھنٹے تک دالان میں انتظار کروایا۔ پھر جب ملاقات کے لیے بلایا تو خود چائے پیتے رہے اور انھیں چائے کی دعوت نہیں دی اور حکم دیا کہ اپنی عرضداشت تحریری شکل میں پیش کریں اور بادشاہوں یک طرح ہاتھ ہلا کر جانے کا اشارہ کردیا۔

بعد میں 1972 میں بھٹو نے برسراقتدار آتے ہی لاڑکانہ میں ایوب کھوڑو کی رہائش گاہ کی بیرونی دیواریں مسمار کرادیں اور بالآخر کھوڑو خاندان کو بھی پیپلزپارٹی میں پناہ لینا پڑی۔ بقول شہرباز مزاری ’’بعد میں بھٹو اکثر کہا کرتے تھے کہ میں نے سندھ کے نام نہاد ’’آئرن مین‘‘ (فولادی شخص) کو بھوسے کا آدمی بنا دیا ہے۔ ہماری سیاسی تاریخ کا یہ کس قدر قابل نفرت پہلو ہے۔ فوجی اقتدار کے دور میں سیاستدانوں کے ساتھ معاملات کس طرح چلائے جاتے ہیں۔

اس کی ایک جھلک دیکھیے۔ عابدہ حسین کے مطابق ’’بیگم نسیم ولی خان، اور سردار شیرباز مزاری لاہور میں تھے جب جی ایچ کیو نے انھیں الیکشن سیل میں مدعو کیا۔ ان دونوں رہنماؤں نے مجھے بھی ساتھ لے لیا۔ اور ہم بذریعہ کار پنڈی روانہ ہوگئے۔ پہلے تو جی ایچ کیو کے بڑے آہنی گیٹ کے پار جانے کی اجازت ملنے کے لیے طویل انتظار کرنا پڑا۔ جب اندر پہنچے تو ایک چھوٹے سے دفتر میں ایک جونیئر افسر نے ’’استقبال‘‘ کیا اور ہم سے شناختی دستاویزات طلب کیں۔

اس موقع پر شیرباز مزاری قریب قریب بھڑک اٹھے۔ اور کہنے لگے کہ ہمیں پیغام بھیج کر بلایا گیا ہے اور اگر ہم سے عزت کا برتاؤ نہیں کیا جاسکتا تو ہم واپس چلے جاتے ہیں۔‘‘بعد میں ایک سینئر افسر کی مداخلت سے معاملہ سنبھالا گیا اور مہمانوں کو اس وقت کے کور کمانڈر پنڈی جنرل فیض علی چشتی کے کمرے میں پہنچایا گیا جنہوں نے پہلے ہونے والے سلوک پر معذرت کرلی۔ بہرحال تمام مہمان اس بات پر متفق پائے گئے کہ یہ سیاستدانوں کو ان کی اوقات میں رکھنے کی پالیسی کا ایک حصہ تھا۔

ایک واقعہ میاں نواز شریف کے بارے میں بھی ۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ ایک دلچسپ کتاب ہے اور پڑھنے سے تعلق رکھتی ہے۔ اس میں بیک وقت دو کہانیاں چل رہی ہیں۔ ایک مصنفہ کی ذاتی زندگی کی کہانی اور ایک پاکستان کے سیاسی سفر کی کہانی۔ جو بات سب سے زیادہ اہم اور قابل توجہ ہے وہ یہ ہے کہ قومی تاریخ میں اہمیت رکھنے والے واقعات اور فیصلوں کو دو یا دو سے زیادہ شخصیات یا پھر چند گروہوں کی ذاتی چشمک قرار نہیں دیے جاسکتے۔ لکھنے یا کہنے والا شک سے مبرا نہیں لیکن اگر کوئی الزام یا انکشاف سامنے آجائے تو اس کی حقیقت تک رسائی پاکستانی قوم کا حق ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔