شاید کہ اتر جائے ترے دل میں۔۔۔؟

رئیس فاطمہ  جمعرات 5 مارچ 2015
fatimaqazi7@gmail.com

[email protected]

عام طور پر الیکٹرانک میڈیا تنقیدکا نشانہ بنتا رہتا ہے جب کہ حقیقت یہ ہے کہ میڈیا نے بعض ایسے کام کیے ہیں جو نہایت قابل تعریف ہیں اور جن کی وجہ سے ایک عام آدمی کا شعور اجاگر ہوا، اور اس میں اپنے حق کے لیے آواز اٹھانے کی ہمت پیدا ہوئی۔

خواہ یہ مثبت پروگرام ریٹنگ کے چکر کی وجہ سے ہوئی ہو۔ لیکن ہے اچھی۔ مگر کچھ ایسا بھی ہے جس کی طرف اب تک کسی بھی ٹی وی چینل نے توجہ نہیں دی۔ سب کے سب لٹھ لے کے بے مقصد ٹاک شوز کے چنگل میں پھنس گئے ہیں۔ کیونکہ ان میں محنت، جستجو اور مطالعے جیسی اعلیٰ باتوں کی قطعی ضرورت نہیں پڑتی۔ لوگ بھی اب عاجزآچکے ہیں۔

تہذیب سے عاری حرکات، غیر مہذب مکالمہ اور اخلاق سے گری ہوئی بیشتر سیاست دانوں کی گفتگو بچوں کے اخلاق بگاڑ رہی ہے۔ بے چارہ اینکر پرسن یا بے چاری میزبان لاکھ کوشش کر لے کہ مہمانوں کو احساس دلائے کہ کیمرہ انھیں پوری دنیا میں دکھا رہا ہے۔ جہاں جہاں پاکستانی ہیں وہ کتنا شرمندہ ہوتے ہوں گے۔

اس کا ہمارے زیادہ تر سیاست دانوں اور نوازے گئے وزرا کو بالکل احساس نہیں ہے۔ آج کے کالم میں ہم ان پروگراموں کا بھی ذکر کریں گے جن کی بدولت چھپا سچ باہرآیا اور بہت سی برائیوں اور غلط کاموں پہ سے پردہ اٹھا۔ لیکن ساتھ ہی ہم چند اور مسائل کی طرف بھی توجہ دلائیں گے جو نہ صرف ریٹنگ بڑھانے میں معاون ثابت ہوں گے بلکہ سماجی خدمت کے دائرے میں بھی آئیں گے۔

سب سے پہلے ہمیں ان تمام نجی ٹی وی چینلزکا شکرگزار ہونا چاہیے جنھوں نے عورتوں پر تیزاب پھینکنے اور لاہور میں گھریلو ملازماؤں پہ تشدد کا نہ صرف نوٹس لیا، بلکہ تمام حقائق سے عوام کو آگاہ کیا اور اس کے لیے انھوں نے صرف پولیس رپورٹنگ یا کسی ایک پارٹی کا موقف سامنے لانے کے بجائے  فریقین کا موقف دکھایا۔

یہ بھی قابل تعریف بات ہے کہ کوئی چینل کسی دباؤ میں نہیں آیا۔ ان کے رپورٹرز نے بڑی ذمے داری سے اپنے فرائض نبھائے۔ خواہ مختاراں مائی کا کیس اور NGOکا کردار ہو، مہران بیس اور کراچی ایئرپورٹ پہ حملہ ہو۔لاہور، اسلام آباد، پشاور اور دیگر جگہوں پہ دہشت گردی کی وارداتوں کو بالکل سیاہ و سفید کی طرح سامنے رکھ دیا۔

ملک بھر میں ڈکیتی، لوٹ مار، اغوا اور بھتہ خوری کے پیچھے مجرموں کی پشت پناہی کرنے والے بڑے بڑے اعلیٰ افسران کے نام اور عہدے تک بتا دیے گئے۔ پولیس  کی وردی چڑھائے جرائم کرنے والوں کو Beat کا کام کون سونپتا ہے۔ پورے پورے تھانے کس طرح بکتے ہیں۔ اور کون سے تھانوں میں تعیناتی ’’بڑے لوگوں‘‘ کی خاص سفارش سے ہوتی ہے اور سفارش کرنے والوں کی ’’فیس‘‘ کیا ہوتی ہے۔ یہ سب ہمیں ہمارے نیوز چینل ہی بتاتے ہیں۔ اس کے علاوہ جعلی عامل کس طرح گھریلو زندگیاں برباد کر رہے ہیں۔

ایک ہی جعلی عامل مختلف ناموں سے لوگوں کو بے وقوف بنا کر لوٹ رہا ہے۔ یہ ساری تفصیل بھی ہمیں ہمارے ٹی وی چینلز ہی دے رہے ہیں۔گٹکا، مین پوری، پان مصالحوں سمیت ان تمام نشئی چیزوں کی باقاعدہ نشان دہی چینلز نے کی۔ نہ صرف دھوکے باز جعلی عاملوں کے ہتھکنڈوں پہ سے پردے اٹھائے، بلکہ ٹیٹرا پیک دودھ کی تیاری کا پورا عمل بھی دکھا دیا اور اس میں شامل کیے جانے والے وہ تمام مضر صحت کیمیکل کے نام بھی بتا دیے جوکئی ماہ تک دودھ جیسی نازک غذا کو خراب ہونے سے روکتا ہے۔

اس کے علاوہ بہت ساری اہم باتوں سے صرف نظر کرتے ہوئے پچھلے دنوں ہمارے نجی چینلز نے آبروباختہ عورتوں کے گھناؤنے کاروبار پہ سے بھی پردہ اٹھایا، کہ اب ان فحش کاموں کے کاروبار کے لیے نہ گھروں کی ضرورت ہے نہ دکان  کی۔ نہایت آسانی سے ساری ڈیل موبائل فون پہ طے ہوجاتی ہے۔ چوراہے اور سگنلز بھی ان کاموں کے لیے خاصے سودمند اور معروف ہیں۔ وردی پہنے پولیس والوں کی چھتر چھایہ اور بعض اوقات پولیس کی موبائل وین بھی جرائم کے لیے چند ہزار میں دستیاب ہوتی ہے۔

کہاں تک گنواؤں۔ چوری، اغوا اور دیگر جرائم سے بڑے سلیقے سے ہمارے چینلز نے پردہ اٹھایا ہے۔ خدا کرے یہ سلسلہ آیندہ بھی چلتا رہے۔اب آتے ہیں ان مسائل کی طرف جن کے بارے میں کسی بھی چینل نے سوچا بھی نہیں۔ ان میں سے سب سے پہلے تو یہ کہ جہاں اتنے زرخرید لوگوں کو بلا کر آپ اپنا تماشا لگاتے ہیں۔

وہیں کبھی اس پر بھی غور کیا کہ بن بیاہی لڑکیوں کی شادی ایک بڑا مسئلہ ہے۔ کبھی کسی چینل نے کوئی ٹاک شو اس حوالے سے کرنے کی کوشش نہیں کی کہ رشتوں کے نہ ہونے کی وجوہات کیا ہیں۔ آپ سماجی کارکنوں، کالم نگاروں، ادیبوں، دانش وروں اور تجربہ کار خواتین کو بلائیں، بات کریں، لڑکے اور لڑکیوں کا بھی موقف سنیں کسی عالم دین کو بھی بلائیں اور اس مسئلے کے حل کے لیے تجاویز لیں کہ ایسا کیوں ہو رہا ہے۔

یقین کیجیے میں نے گزشتہ چودہ سال میں کافی کالمز اس تشویش ناک صورت حال پہ لکھے ہیں اور ہمیشہ مجھے بہت اچھا رسپانس ملا۔ خاص طور سے پشاور، نوشہرہ،لاہور، فیصل آباد اورکوئٹہ سے بڑی بڑی کہانیاں سامنے آئیں اور پتہ چلا کہ لڑکیاں والدین کے معیارکی بھینٹ چڑھ گئیں۔ لڑکوں میں سے اکثر اس بات کے شاکی کہ ملازمت کی وجہ سے اعلیٰ تعلیم حاصل نہ کرسکے یوں رشتہ ٹھکرا دیا گیا اور جنھوں نے اعلیٰ تعلیم حاصل کی وہ نوکری کے لیے جوتیاں چٹخاتے پھر رہے ہیں۔ اس جانب بھی میڈیا کو توجہ دینی چاہیے۔ادبی پروگرام اب کسی چینل سے شاید ہی نشر ہوتے ہوں۔

یہ ایک بہت بڑی کمی اور خامی ہے۔ جہاں سے ہوتے تھے وہاں بھی سفارشی اور من پسند ادیب قبضہ جمائے بیٹھے تھے۔کاش کوئی چینل خالص میرٹ کی بنیاد پر کتابوں اور صاحب کتاب سے گفتگو کرائے۔ ادیبوں کے مسائل اورکتابوں کے چھپنے سے لے کر فروخت ہونے تک کے عذاب اور بک سیلرز کے کمیشن پہ بھی بات کی جائے۔ لیکن زیادہ تر چینلزپہ غیر سنجیدہ افراد بیٹھ گئے ہیں اور وہ افلاطون کا کردار ادا کر رہے ہیں۔ افسوس ایسا نہ کریں۔

ایسا لگتا ہے چینلز والے سمجھتے ہیں کہ اخلاقی بگاڑ اور مطالعے کے نہ ہونے سے لوگوں کی ذہنی سطح بہت گر گئی ہے۔ اب غالب، فیض، اشفاق احمد اور مشفق خواجہ کو سمجھنے والے ناپید ہوگئے ہیں۔ اسی لیے سارا اسٹیج غیر سنجیدہ افراد کے حوالے کردیا گیا ہے۔ جو پھکڑ پن کو پسند نہیں کرتے۔ لیکن کیا کریں۔

اینکر پرسن سے لے کر حصہ لینے والے تمام آرٹسٹ اور سامعین سب کے سب اخلاقیات اور بلند ذہنی سطح سے نابلد۔ صرف اور صرف منہ پھاڑ کر اور چیخ کر بولنا بے تحاشا اور بلاوجہ ہنسنا۔ یہ ہے سارا موجودہ منظر نامہ۔ خدارا! اس سے باہر نکلیے اور کچھ ایسا بھی کیجیے جو معاشرے کے کام آئے۔ اور لوگ اس پروگرام کا انتظار کریں۔ یقین کیجیے آہستہ آہستہ پروگرام جگہ بناتے ہیں اور ریٹنگ بھی بڑھ جاتی ہے۔ غیر سنجیدہ افراد کو نکال باہر کیجیے۔ ادیبوں اور کتابوں کو سامنے لایے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔