جب دوست ساتھ چھوڑ جائیں

اکرام سہگل  جمعرات 5 مارچ 2015

ایک تعمیراتی ٹائیکون اگر خیبرپختونخوا اسمبلی میں پی پی پی کے امیدواروں کے لیے ٹیکس فری دولت سے ووٹ خرید رہا ہو تو آنے والے سینیٹ انتخابات کے لیے ہارس ٹریڈنگ میں بہت زیادہ اضافہ ہو جائے گا جب کہ کے پی کے میں حکمران اتحاد پی ٹی آئی اور جے آئی میں بہت تشویش نظر آنے لگے گی۔ بلوچستان میں پی ایم ایل۔ این کے پانچ اراکین اسمبلی پارٹی کے اجلاس میں شرکت کرنے سے ناکام رہے جس کی صدارت میاں نواز شریف نے اپنے گزشتہ دورہ کوئٹہ کے موقع پر کی حالانکہ یہ تحریف کا ایک کھلا اظہار تھا۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ پنجاب میں مسلم لیگ ن اور سندھ میں پیپلز پارٹی مکمل طور پر محفوظ ہیں۔

وزیراعظم نے احساس کر لیا کہ ان کی پارٹی بعض نشستیں کھو سکتی ہے باالخصوص جب سینیٹ کے چیئرمین کے لیے (خود ہی بوجھیے کہ پیپلز پارٹی کا ڈارک ہارس کون ہو گا؟) آئینی استہزا یہ ہے کہ سیاستدان آبادی پر ٹیکس لگاتے ہیں حالانکہ خود وہ اور ان کے چہیتے ٹیکس ادا نہیں کرتے۔ ان کے پاس غیر قانونی دولت کی اس قدر بہتات ہوتی ہے کہ وہ بآسانی سینیٹ کے ووٹ خرید سکتے ہیں۔ کیا نیب سن رہا ہے؟ کیا عدالت آئین کی اس صریح خلاف ورزی پر کوئی نوٹس لے گی؟ کیا اسی کو جمہوریت کہتے ہیں۔

امکانی خجالت سے بچنے کے لیے مسلم لیگ ن نے 22 ویں ترمیم کی تجویز دی ہے جس کا مقصد ہے کہ 5 مارچ کو ہونے والے سینیٹ کے انتخابات کو خفیہ ووٹنگ کے بجائے ہاتھ کھڑے کر کے اپنی رائے کا اظہار کیا جائے لیکن بعض عناصر اس ترمیم کے خلاف بھی ہیں جنہوں نے باہمی رابطہ قائم کر لیا ہے۔ اخباری سرخی میں یہ کہا گیا ہے اس پر کسی کو حیرت نہیں ہونی چاہیے کہ ٹیکس فری سیاسی جماعتیں (اب بس گزشتہ پانچ سال میں ان کی طرف سے دیے گئے ٹیکسوں کا مجموعہ نکال لیں) جن میں پیپلز پارٹی جے یو آئی (ف) اور اے این پی شامل ہیں۔

وہ اپنی زبان اپنے کَلّے میں دبا کر دعویٰ کر رہے ہیں کہ وہ ہارس ٹریڈنگ کے خلاف تھے اور پیپلز پارٹی نے کہا ہے کہ وہ ہارس ٹریڈنگ روکنے کے اقدامات کا خیر مقدم کرے گی لیکن پیپلز پارٹی کے ایک ہینڈ آؤٹ نے خود ہی اس منافقت کو عیاں کر دیا ہے۔ ’’حکومت کا یہ فیصلہ کہ سینیٹ کے انتخاب میں خفیہ ووٹنگ کے بجائے ہاتھ کھڑا کرکے رائے دی جائے بے مقصد ہے۔ جس کا مقصد محض سیاسی پوائنٹ اسکور کرنا عاصمہ جہانگیر کے مطابق خفیہ ووٹنگ سے انحراف بیلٹ کے تقدس کے منافی ہے۔

پارلیمنٹ کے اراکین آئین کے آرٹیکل 62,63 کے مطابق صادق اور امین ہونے چاہئیں لیکن اگر ان کی صداقت اور امانت پر ان کے لیڈروں کو ہی اعتماد نہ ہو گا تو پھر کیا کہا جائے گا۔ اس کا یہ مطلب ہو گا کہ جمہوریت کو آئین کے لبادے میں عوام کے وسائل لوٹنے کی خاطر استعمال کیا جا رہا ہے اور دن دیہاڑے اتنے بڑے فراڈ کی اور کوئی مثال نہیں۔ ہر کوئی جانتا ہے بلکہ اس کے انکل اور آنٹی بھی جانتی ہیں کہ سینیٹ کی نشستیں حاصل کرنے کی خاطر دولت خرچ کرنے والے 90 فیصد افراد کبھی بھی انتخابی عمل کے ذریعے ایوان بالا تک نہیں پہنچ سکتے لیکن اس کے باوجود آئینی طور پر وہ اپنے صوبوں کی نمایندگی کریں گے اور یوں وفاق میں بھی ان کو صوبے کا نمایندہ تصور کیا جائے گا۔ہمارے سیاسی کلچر میں ہارس ٹریڈنگ کوئی نئی چیز نہیں ہے ۔

مسلم لیگ ن کے رہنما بڑی آسانی سے یہ بات فراموش کر گئے ہیں کہ انھوں نے 1990ء کی دہائی میں پیپلز پارٹی اور اے این پی کے اراکین کی وفاداریاں خریدنے کے لیے انھیں چھانگا مانگا جنگل کے ریسٹ ہاؤس میں بھجوا دیا تھا تا کہ بینظیر بھٹو کی حکومت کو گرایا جا سکے لیکن وہ اس میں کامیاب نہیں ہوئے۔5 مئی 1995ء کو میں نے اپنے مقالے میں لکھا تھا ’’جمہوریت کا بنیادی فلسفہ یہ ہے کہ ہر فرد کو اپنے ووٹ کا حق آزادانہ طور پر استعمال کرنے کا موقع ملنا چاہیے تا کہ وہ کسی مخصوص نشست یا منصب کے لیے اپنے پسند کے شخص کو منتخب کر سکے۔

یہ ووٹ قابل انتقال نہیں ہوتا اور نہ ہی ان کی پراکسی لگائی جا سکتی ہے۔ بالواسطہ ووٹ جو کہ بالغ رائے دہی میں استعمال ہوتا ہے وہ متنازع ہو گا کیونکہ اس سے فرد کا آزادانہ انتخاب کا حق قائم نہیں رہتا۔ تھوڑی تعداد میں افراد طاقت اور اقتدار وغیرہ کے رعب میں آ جاتے ہیں لہٰذا جہاں براہ راست ووٹ طلب کیا جا رہا ہو وہ بالعموم افراد کی اپنی آزادانہ مرضی کے منافی ہی ہوتا ہے جب کہ مکمل انتخابی مہم کے دوران از خود امیدواروں کا احتساب بھی عمل میں آ جاتا ہے کیونکہ ان کو منتخب نہیں کیا جاتا۔ جنہوں نے غیر قانونی طور پر ٹیکس بچا کر دولت جمع کی ہے وہ چند ووٹ خرید کر ایوان بالا کے لیے منتخب ہو سکتے ہیں جو کہ قومی اسمبلی سے بھی برتر درجے کا ادارہ ہے۔‘‘

حقیقی شو پیش کرنے والے ایک ٹیلی ویژن نے اگست 2014ء میں قومی اسمبلی اور سینیٹ کے مشترکہ اجلاس کی ایک جھلک دکھائی تھی جس میں عمران خان اور طاہر القادری کے اسلام آباد میں دیے جانے والے دھرنوں کے خلاف متفقہ طور پر موقف اختیار کیا گیا تھا اس موقع پر سیاستدانوں نے خاصی شعلہ بار تقاریر کیں جن میں آرمی کو بھی زہریلے الفاظ کا ہدف بنایا گیا لیکن خاکی وردی والوں نے مشتعل ہونے سے انکار کر دیا کیونکہ انسداد دہشتگردی کے لیے 21 ویں ترمیم درکار تھی۔

لہٰذا اب فوج آئینی طور پر قومی سلامتی کے ادارے میں براجمان ہے جب کہ وزیراعظم نواز شریف اس بات پر مطمئن ہیں کہ انھوں نے مارچ کرنے کے احکامات جاری نہیں کیے۔ کیا نام نہاد جمہوری نمایندوں کے ہاتھوں قومی سلامتی محفوظ رہ سکتی ہے۔ بظاہر تو صوبہ سندھ بھی زرداری کے تخلیق کار ہاتھوں سے پھسلتا نظر آ رہا ہے۔

جہاں کراچی کی زمینوں پر قبضے کرنا بھی خطرے کا شکار ہو گیا ہے۔ ایپکس میٹنگ کے دوران زرداری نے اپنی ذات پر سوالیہ نشان کو بڑی آسانی سے برداشت کر لیا۔ ان میں اتنی دانش تو بہر حال موجود ہے کہ وہ موقع کی مناسبت سے اپنے سر کو خم کر سکیں اور چونکہ بدعنوانی سے قومی سلامتی کو ضعف پہنچتا ہے جس میں کہ سندھ حکومت کو سرتاپا ملوث گردانا جاتا ہے اس کو درست راہ پر قائم رکھنا ناگزیر ہے۔ سید خورشید علی شاہ نے اپنے باس کے اشارے پر ایپکس کمیٹی کی مخالفت کی۔

ذوالفقار مرزا کی دھواں دھار تقریر پر زرداری نے جواباً انھیں ’’فاروق لغاری‘‘ کے نام سے موسوم کر دیا۔ جس سے ان کی سیاسی زندگی میں تھوڑا چسکا پیدا ہو گیا تاہم زرداری نے براہ راست کوئی جواب دینے کے بجائے اپنے ماتحتوں کو ذوالفقار مرزا کے الزامات کا جواب دینے کی ہدایت کر دی۔ یہاں یہ بات مدنظر رہنی چاہیے کہ جب چوروں کی باہمی لڑائی شروع ہو جائے تو پھر سب پکڑے جاتے ہیں الزامات اور جوابی الزامات کی باریک بینی سے تحقیقات کی جانی چاہئیں۔ زرداری اور مرزا ایک بار پھر ایک دوسرے کے بارے میں سچ کو آشکار کر رہے ہیں جس کے لیے دونوں کا شکر گزار ہونا چاہیے۔

نیب کو خود ملزموں کے چناؤ کا حق نہیں دیا جا سکتا کیونکہ اس میں پھر کچھ مقدس گائے بھی شامل ہونے کا احتمال ہوتا ہے۔ آخر مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی جن میں کہ دوستی کے بڑے چرچے تھے وہ صرف چھ ماہ کے بعد ایک دوسرے سے دور کیوں ہو گئے حالانکہ پارلیمنٹ میں انھوں نے ہمیشہ اکٹھا رہنے کا اعلان کیا تھا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔