اتھارٹی کی جنگ

ثناء غوری  جمعرات 5 مارچ 2015
sana_ghori@outlook.com

[email protected]

اس وقت ہماری ساری توجہ گلوبل ٹیررازم پر ہے، آرمی چیف اس حوالے سے بہت فعال کردار ادا کر رہے ہیں۔ ان کے افغانستان، ترکی اور متحدہ عرب امارات کے دورے اسی سلسلے کی کڑی ہیں۔ آپریشن ضرب عضب اور دہشتگردوں کے خلاف فوج کی کارروائیاں پاکستانیوں ہی کے لیے نہیں امریکا سمیت انتہاپسندی سے خائف دیگر ممالک کے لیے بھی اطمینان بخش ثابت ہوئی ہیں لیکن جہاں تک لوکل ٹیررازم، فرقہ وارانہ تشدد ودہشتگردی کا تعلق ہے صورتحال میں کوئی خاص تبدیلی نظر نہیں آتی جس کی اہم وجہ یہ ہے کہ ہم شہری اداروں کو مضبوط نہیں کر سکے۔

پولیس اس کی سب سے بڑی مثال ہے۔عالمی دہشتگردی اور فرقہ وارانہ تشدد ملک، خاص طور پر کراچی میں ہونے والی جرائم کی دیگر نوعیت کی وارداتوں سے گہرا تعلق رکھتی ہیں۔ بھتہ، ڈکیتیاں اور اغواء برائے تاوان کی وارداتیں دہشتگردوں کو مالی معاونت فراہم کرنے کا اہم ذریعہ ہیں اور ان وارداتوں کو روکنا پولیس کا کام ہے لیکن پولیس نفری نہ ہونے، ٹیکنالوجی سے محرومی، غیر فعالیت اور ایسی ہی دیگر وجوہات کی وجہ سے ایک ناکام ادارہ بن چکی ہے۔ پولیس کی ناقص کارکردگی کی سب سے اہم وجہ اس ادارے کا ناجائز استعمال ہے۔

منتخب نمایندوں اور بااثرشخصیات کی جانب سے اپنے علاقوں میں پسندیدہ پولیس افسران کی تعیناتی، پولیس افسران کی تقرریوں اور تبادلوں میں مداخلت ایک عام سی بات ہے۔یہ حقیقت سب جانتے ہیں کہ کرا چی کے حالات اس وقت تک بہتر نہیں کیے جا سکتے جب تک سندھ پولیس کو سیاست سے پاک نہ کر دیا جائے۔2011ء میں سپریم کورٹ نے سندھ گورنمنٹ کو پولیس کو سیاست سے پاک کرنے اور دیگر اقدامات کی ہدایت کی تھی لیکن صوبائی حکومت نے اس حکم پر عمل نہیں کیا۔ کراچی کے حالات خراب ہوتے گئے اور بالآخر رینجرز کو کراچی سونپ دیا گیا۔ دو سال سے تو رینجرز کراچی میں بہت فعال ہیں، اس کے مقابلے میں پولیس غیر فعال نظر آتی ہے۔

ایسے میں جب کراچی میں صورت حال سیکیورٹی ہائی الرٹ پر ہے پولیس کے معاملات پر توجہ نہ دینا حیرت انگیز اور افسوس ناک ہے۔ سندھ گورنمنٹ نے دہشت گردی کی کارروائیوں کے لیے جو نمایاں اقدام کیا ہے وہ ہے برٹش راج سے آج تک قائم ادارے سی آئی ڈی یعنی Crime Investigation Department  کے نام کی تبدیلی جسے Counter Terrorism Department  سی ٹی ڈی کا نیا نام دیا گیا ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا کسی ادارے کی صرف نام کی تبدیلی کافی ہے؟ دوسرا سوال یہ ہے کہ صوبے کے امن و امان سے براہ راست تعلق رکھنے والی پولیس کا انٹیلی جنس کا شعبہ مضبوط اور فعال کرنے کے لیے کیا اقدامات کیے گئے ہیں؟ سندھ پولیس میں پچیس ہزار بھرتیوں کا معاملہ ایک عرصے سے رکا ہوا ہے۔

وزیراعلیٰ سید قائم علی شاہ نے گزشتہ دنوں پولیس افسران کے تبادلوں اور تقرریوں پر تین ماہ کے لیے پابندی عاید کر کے گویا سندھ پولیس کے بارے میں آرمی چیف کی اس ہدایت کا ’’جواب‘‘ دیا ہے کہ سندھ میں پولیس کی تقرری اور تبادلے صرف ایپیکس کمیٹی کے ذریعے کیے جائیں۔ وزیراعلیٰ نے اس اقدام سے اپنے بہ اختیار ہونے کا اعلان تو کر دیا مگر کیا پولیس کی صوبے خاص طور پرکراچی کی آبادی کی مناسبت سے نفری بڑھائے بغیر اس محکمے سے نتائج حاصل کیے جا سکتے ہیں؟

جہاں تک سندھ پولیس کا تعلق ہے اس کے اہل کار عام جرائم اور جرائم پیشہ افراد سے ڈیل کرتے ہیں لیکن دہشتگردوں سے نمٹنے کے لیے نہ انھیں تربیت دی گئی ہے نہ نفسیاتی طور پر وہ اس کے لیے تیار ہیں چنانچہ کاؤنٹرٹیررازم کے ضمن میں پولیس وہ کردار ادا نہیں کر پا رہی جو اسے کرنا چاہیے۔ پولیس کی بہتری کے لیے پولیس پالیسنگ پلان بنانے کی بات ہر سال ہوتی ہے لیکن ایسے کسی پلان پر عمل ہوتا نظر نہیں آتا۔ ایک طرف پولیس اہلکاروں کا کردار دوسری طرف نفری، تربیت اور ٹیکنالوجی کے فقدان کی وجہ سے پولیس کے پاس دہشتگردی کا سامنا کرنے کی صلاحیت نہیں ہے۔

دہشتگردی کو جڑ سے اکھاڑنا اور امن و امان قائم کرنا ہے تو ہمیں پولیس کی تعمیر نو کرنا ہو گی اور اس میں صلاحیت پیدا کرنی ہو گی کہ وہ دہشتگردی اور اس سے جُڑے جرائم کو جڑ سے اکھاڑ سکے۔ ایک موثر پولیس پالیسنگ پلان نہ صرف بنانا ہو گا بلکہ اس پر پوری طرح عملدرآمد بھی کرنا ہو گا۔ اس مقصد کے لیے صوبائی اور وفاقی حکومت اور تمام متعلقہ اداروں کو ایک دوسرے کے ساتھ مکمل کوآرڈی نیشن کرنا ہو گی۔ ہمیں ضد، انا اور اتھارٹی کی بحث سے نکلنا ہو گا، یہی حالات کا تقاضا ہے۔اس مسئلے کی سنگینی کو سمجھتے ہوئے وزیراعظم نواز شریف اور آرمی چیف راحیل شریف نے اپنے حالیہ دورۂ کراچی کے موقعے پر حکومت سندھ کو ہدایت کی تھی کہ پولیس کو سیاست سے پاک کیا جائے۔

آرمی چیف نے پولیس کو سیاست سے پاک کرنے پر زور دیتے ہوئے کہا تھا کہ جرائم پیشہ افراد کے خلاف بلاامتیاز کارروائی کی جائے پولیس میں تقرریاں اور تبادلے صرف ایپیکس کمیٹی کے ذریعے کیے جائیں۔یہ تو بعد کی بات ہے کہ وزیراعظم اور فوج کے سربراہ کی اس ہدایت پر عملدرآمد شروع ہو سکا ہے یا نہیں، یہاں تو یہ معاملہ بھی متنازع ہو چکا ہے یا کر دیا گیا ہے۔ ایپیکس کمیٹی کے ذریعے تبادلوں اور تقرریوں کی ہدایت پیپلزپارٹی کو پسند نہیں آئی چنانچہ خورشید شاہ نے کہا کہ ایپیکس کمیٹیوں کا کام حکومت کرنا نہیں نگرانی کرنا ہے اور اگر ایپیکس کمیٹیوں کے ذریعے صوبوں کے معاملات چلانے کی کوشش کی گئی تو یہ خطرناک ہو گا۔

گویا یہ پیپلزپارٹی اور سندھ میں قائم پارٹی کی حکومت کا موقف ہے جو خورشید شاہ کے ذریعے سامنے آیا ہے۔ دوسری طرف وزیراعلیٰ کی جانب سے تقرریوں اور تبادلوں پر پابندی عاید کرنا اسی سلسلے کی کڑی ہے۔ سوال یہ ہے کہ صوبائی معاملات میں مداخلت کا شکوہ کرنے والی پارٹی جو پانچ سال صوبے پر حکومت کرنے کے بعد دوبارہ لگ بھگ دو سال سے صوبے کا اقتدار سنبھالے ہوئے ہے، سندھ میں امن و امان کی بہتری اور پولیس کی اصلاح کے لیے کیا کر سکی ہے؟ کراچی میں لاقانونیت کا سلسلہ عرصۂ دراز سے جاری ہے لیکن صوبائی حکومت نے دعوؤں سے زیادہ کچھ نہیں کیا ہے۔

ایسے میں جب ہم دہشتگردی کے خلاف اتنی بڑی جنگ لڑ رہے ہیں، ہمارے شہر، ہماری بستیاں دہشتگردی کا شکار ہیں، بدقسمتی سے ہمارے اداروں اور صوبائی اور وفاقی حکومتوں کے درمیان رابطہ کا فقدان نہیں تو اس حوالے سے کھنچاؤ ضرور نظر آتا ہے۔ جہاں تک نیشنل ایکشن پلان کا تعلق ہے تو لگتا ہے کہ اسے تشکیل دیتے ہوئے ترجیحات طے نہیں کی گئی ہیں لہٰذا نیشنل ایکشن پلان پر ازسرنو غور کرنے اور ترجیحات طے کرنے کی ضرورت ہے۔ ری پلاننگ کرتے ہوئے ایپیکس کمیٹیوں اور ان کے اختیارات کا معاملہ بھی طے کرنا ہو گا۔

صوبوں میں امن و امان کی صورتحال اور اس حوالے سے صوبائی حکومت اور اداروں پر نظر رکھنے کے لیے بنائی گئی ان کمیٹیوں کے اختیارات کا معاملہ حل نہ کیا گیا تو صوبائی خودمختاری کا سوال لے کر تنازعات پیدا ہوں گے اور اس وقت جب ہم حالت جنگ میں ہیں ہم کسی ایسے تنازعے کے متحمل نہیں ہو سکتے جو اس جنگ میں ہمیں کم زور کرے اور وقت ضائع کرنے کا سبب بنے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔