اقلیتوں کی حالت زار کا پروپیگنڈا…

محمد فیصل شہزاد  جمعرات 5 مارچ 2015
ان کے بظاہر روشن چہرے پر وہ کالک ہے، جو کسی سے چھپی ہوئی نہیں ہے فوٹو:فائل

ان کے بظاہر روشن چہرے پر وہ کالک ہے، جو کسی سے چھپی ہوئی نہیں ہے فوٹو:فائل

پاکستان میں اقلیتوں کے ساتھ امتیازی بلکہ ظالمانہ سلوک کا بہتان لگا کر وطن عزیز کو دباؤ میں رکھنا اور اپنے مذموم مقاصد پورے کرنا دنیائے مغرب کا آج کا نہیں بہت پرانا ہتھکنڈا ہے، لیکن پچھلے چار پانچ برس سے یہ بے بنیاد پروپیگنڈا کچھ زیادہ ہی تواتر اور شدت کے ساتھ کیا جا رہا ہے اور اس میں جان ڈالنے کے لیے بہت سے خفیہ ہاتھ مصروف ہیں۔

حقیقت اس کے بالکل برعکس ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ اقلیتوں کے بارے میں پاکستان بھر میں سرے سے منافرت یا تعصب کی فضا نہ صرف موجود ہی نہیں، بلکہ ارباب حکومت سے لے کر عام آدمی تک اقلیتی برادری کی تالیف قلب کو بطور خاص ملحوظ خاطر رکھتے ہیں۔ پاکستان میں اقلیتوں کا تناسب تقریباً 5 فیصد ہے اور آئین کے آرٹیکل 27 کی رو سے وہ کسی بھی قسم کی ملازمت کے حقدار ہیں، کسی بھی تعلیمی ادارے میں تعلیم حاصل کر سکتے ہیں۔

اس موقعے پر پروپیگنڈا کرنے والے حضرات اور انسانی حقوق کی تنظیمیں ان انفرادی اور مخصوص واقعات کا ذکر کرتی ہیں جو اقلیت کے حوالے سے پچھلے کچھ عرصے میں اخبارات میں شایع ہوئے تو عرض ہے کہ جن واقعات پر عموماً شور مچایا جاتا ہے وہ اکثر ذاتی اور خاندانی دشمنیوں کا شاخسانہ ثابت ہوئے ہیں۔

بے شک ہمیں تسلیم ہے کہ کئی دہشت گردی کے واقعات میں غیر مسلم شہریوں کو بھی نشانہ بنایا گیا ہے مگر ان واقعات کو بنیاد بنا کر اقلیتوں کے خلاف ظلم کا مخصوص رنگ دینا بدنیتی نہیں تو اور کیا ہے۔ کیونکہ سب جانتے ہیں کہ پورا ملک دہشت گردی سے متاثر ہے، اس میں مسلم، غیر مسلم کی کوئی تخصیص نہیں۔

دراصل پاکستان مخالف بین الاقوامی پروپیگنڈہ مشینری کو بھی یہ بات معلوم ہے کہ پاکستان میں اس طرح کی سرگرمیوں کی پشت پناہی دراصل خود ان کے ایجنٹس کرتے ہیں اور انھوں نے ہی پاکستان کو دہشت گردوں کی آماج گاہ بنا رکھا ہوا ہے۔

اگر مجموعی اعتبار سے پاکستان میں اقلیتی برادری سے اکثریتی مسلمان برادری کے برتاؤ اور انھیں ملنے والی مراعات کو پیش نظر رکھا جائے تو پاکستان کو کسی بھی مہذب ملک کے سامنے شرمندہ ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ اس کے مقابلے میں فرانس، جرمنی، ناروے، برطانیہ، سربیا اور امریکا میں مسلم اور سیاہ فام اقلیتوں کے ساتھ جو برتاؤ کیا جا رہا ہے، وہ نہایت شرم ناک ہے۔

غور کا مقام ہے کہ پاکستان کو مذہبی انتہا پسندی پر لتاڑنے والے، یہاں اقلیتوں کے ساتھ ظلم کے جھوٹے افسانوں پر آنسو بہانے والے خود ان ممالک میں اقلیتوں بالخصوص مسلمان اقلیت کے ساتھ جتنا تعصب کا رویہ روا رکھا جاتا ہے، وہ ان کے بظاہر روشن چہرے پر وہ کالک ہے، جو کسی سے چھپی ہوئی نہیں ہے۔

امریکا جیسے ملک میں جہاں سیکولر ازم عروج پر ہے، وہاں بار بار اپنے آپ کو عیسائی کہنے والے بارک حسین اوباما کا نام ہی باعث اعتراض ہے۔ وہاں قرآن پاک کی جو بے حرمتی کی گئی، سب جانتے ہیں۔ یورپ کا حال اس سے بھی برا ہے۔ وہاں حجاب پر پابندی لگائی گئی، اسے قابل سزا کہا گیا، یہیں وہ کائنات کا بدترین اور مکروہ ترین جرم یعنی حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے نعوذ باللہ خاکے بنا کر ساری دنیا کے مسلمانوں کا دل چھید دیا گیا اور رواداری کا جنازہ نکالا گیا۔

حقیقت یہ ہے کہ مسلمان چاہے جتنے بدعمل ہوں، اقلیت کے ساتھ رواداری کے معاملے میں دنیا میں ان سے کوئی مقابلہ نہیں کر سکتا۔ ہماری تاریخ بھی اس حوالے سے مثالی ہے اور حال بھی دوسروں کی نسبت بہت ہی اچھا ہے۔ ایک نظر دیکھیے تو سہی کہ باوجود اس کے کہ ہمارے ہاں نہ جمہوریت اپنے صحیح معنوں میں قائم ہے اور نہ ہی اسلامی نظام ہی موجود ہے مگر اس کے باوجود پاکستان میں اقلیت مطمئن ہے تو جب اسلام کا پورا اجتماعی نظام قائم ہو جائے گا تو پھر اقلیت پر اس ملک میں کوئی انگلی بھی نہیں اٹھا سکے گا۔

تاریخ پڑھیں تو معلوم ہوتا ہے کہ جب حقیقی اسلامی حکومت قائم تھی تو غیر مسلموں نے اپنی خوشی اور رضا و رغبت سے مسلم علاقوں میں رہنا پسند کیا اور ان کا کہا ریکارڈ پر ہے کہ جتنا ہم مسلمانوں کے زیرنگیں خوش اور آزاد ہیں، اپنے ہم مذہبوں کے ساتھ نہیں رہ سکتے۔ اگر اسی تناظر میں وطن عزیز پاکستان کا جائزہ لیں تو پروفیسر کریم بخش نظامانی کے الفاظ میں یہ بات نہایت فخر سے کہی جا سکتی ہے کہ پاکستان میں اقلیتوں کو جو حقوق حاصل ہیں وہ شاید ہی دنیا کی کسی اور اقلیت کا نصیب ہوں۔

پروفیسر نظامانی اس ضمن میں مزید لکھتے ہیں کہ ’’ہمارے پڑوس میں سیکڑوں نہیں، ہزاروں مرتبہ مسلم کش فسادات ہوئے۔ بھارت میں 1947ء سے1960ء تک 7500 مذہبی فسادات ہوئے، جن میں مسلمانوں کا خون پانی کی طرح بہایا گیا، جب کہ ہمیں اس بات پر خوشی اور فخر ہے کہ یہاں غیر مسلم اقلیت کی کبھی کوئی نکسیر بھی نہیں پھوٹی۔ اس وقت کشمیر میں کیا ہو رہا ہے؟ کہاں ہیں ہمارے انسانی حقوق کے وہ نام نہاد علمبردار جو آج دہائی دے رہے ہیں کہ پاکستان میں اقلیتیں غیر محفوظ ہیں۔‘‘

امریکی دفتر خارجہ ہر سال بھارت اور پاکستان میں انسانی حقوق کی صورت حال کا موازنہ کرتے ہوئے بھارتی سیکولرازم کی تعریف میں رطب اللسان رہا ہے اور پاکستان میں اقلیتوں کے حقوق کی پامالی کا رونا روتا رہا مگر 1992ء جب بھارتی سیکولرازم کا اصل چہرہ سامنے آیا اور بابری مسجد کو شہید کیا گیا۔

اس کے بعد گجرات سانحے میں بھی مسلمانوں کا نہایت منظم اور اجتماعی قتل عام کیا گیا، پھر مسلمان ہی نہیں بھارت کے مختلف شہروں میں ہندو انتہا پسندوں نے عیسائیوں کو بے دریغ قتل کرنا اور زندہ جلانا شروع کیا تو انھیں یقین کرنا پڑا کہ پاکستان میں اقلیتیں نہایت آسودہ ہیں۔ کیوں؟… کیونکہ پاکستان کی پوری تاریخ میں کبھی بھی کسی اقلیتی برادری کے ساتھ بابری مسجد کی طرز کا کوئی واقعہ نہیں ملے گا۔ کبھی کوئی مندر، کوئی گرجا گھر نہ جلایا گیا نہ ڈھایا گیا۔ اسی طرح بھارت کی گجرات، کشمیر اور درجنوں ریاستوں میں ہونے والے اقلیتی ظلم و ستم کی طرز پر ہمارے ہاں کبھی ہندو یا عیسائی شہریوں کو اجتماعی قتل کرنے کا ایک بھی واقعہ پیش نہیں آیا۔

بلکہ اس کے برعکس علاوہ پاکستان میں اقلیتی برادری کو مختلف شعبہ ہائے زندگی میں جو ترقی کے مواقعے ملے ہیں، اس کا تصور بھی دوسروں ملکوں میں محال ہے۔ صرف دو مثالیں لے لیجیے۔ جسٹس اے۔ آر کارنیلیئس پاکستان کے چیف جسٹس بنے، ان کے بعد رانا بھگوان داس پہلے ہندو اور دوسرے غیر مسلم جج تھے جو سپریم کورٹ کے جج کے عہدے پر فائز رہے اور جن کا حال ہی میں انتقال ہوا ہے۔

ساری باتیں چھوڑیے صاحب! کوئی بھی شخص یا ادارہ ملک کے کسی بھی ایک علاقے میں اس حوالے سے ایک محدود عوامی سروے ہی کر لے تو بخوبی یہ بات ثابت ہو جائے گی کہ یہاں مسلمانوں کے مختلف مسالک کے درمیان تو عدم برداشت بلکہ نفرت تک کے جذبات تو ملیں گے مگر پاکستانی اکثریتی مسلم برادری میں غیر مسلموں کے ساتھ رواداری، برداشت اور وسعت کے بے انتہا گہرے جذبات نظر آئیں گے، اور کیوں نہ ہوں، غیر مسلموں کی جان و مال اور ان کی عزت کی حفاظت خود ہمارے دین کی ہدایت اور پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا اسوہ ہے۔ اس چشم کشا حقیقت کے باوجود پاکستانی مسلم اکثریت کو خوامخواہ مطعون ٹھہرایا جائے تو اسے پروپیگنڈہ کرنے والوں کی مریضانہ ذہنیت او ران کی بدنیتی ہی کہا جائے گا اور کیا کہا جائے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔