تصویر کا دوسرا رُخ

سالار سلیمان  جمعـء 6 مارچ 2015
 بھارت کی اصل تصویر انتہائی خوفناک ،شرمناک، مکروہ اور ڈراونی ہے۔ فوٹو اے ایف پی

بھارت کی اصل تصویر انتہائی خوفناک ،شرمناک، مکروہ اور ڈراونی ہے۔ فوٹو اے ایف پی

نجانے ہم کب تک دوسروں سے مرغوب ہوتے رہیں گے؟ کب تک ہم تصویر کا ایک رُخ دیکھ کر اُس کی تعریفوں کے پل باندھتے رہیں گے؟ کب تک سکے کا ایک رُخ ہمیں خوشی سے سرشار کرتا رہے گا؟ کب تک ہم دوسروں کا منہ لال دیکھ کر اپنا منہ تھپڑ مار کر لال کرتے رہیںگے؟ آسان الفاظ میں کہوں تو آخر کب ہم اپنی عقل کو بروقت استعمال کریں گے؟ ہم میں سے بہت سے لوگ ایسے ہیں جو ہمسائیہ ملک بھارت سے بے حد مرعوب ہیں اور جو سمجھتے ہیں کہ قیام پاکستان ایک غلطی تھی، جو سمجھتے ہیں کہ بھارت ویسا ہی ہے جیسا کہ فلموں اور ڈراموں میں دکھایا جاتا ہے ۔

پرانی کہاوت ہے کہ ہر چمکنے والی چیز سونا نہیں ہوتی ہے۔ بھارت کے بارے میں یہی رائے سب سے بہترین ہوگی۔ فلموں میں دکھایا جانے والا بھارت اصل بھار ت سے یکسر مختلف ہے۔ میرے ایک عزیز شہباز گھرکی بھارت کی یاترا کرچکے ہیں۔ پاک بھارت میچ کے دوران بھارتی میدان سب سے بڑا پاکستانی پرچم شہباز کے ہاتھوں میں تھا اور میری ذاتی رائے میں یہ اُس کا اعزازہے۔ اسٹیڈیم میں داخلے کے وقت اُن کے پیروں تلے جب بھارتی جھنڈ ا آنے لگا تھا تو انہوں نے اُس جھنڈے کو اُٹھا کر سائڈ پر رکھا تھا جس پر بھارتیوں نے بھی اس قدم کی تعریف کی تھی ۔

خیر سردست ہم بات کرتے ہیں کہ کیا چمکتا ہوا بھارت حقیقتاً ایسا ہی ہے؟ تو اس کا سیدھا سا جواب ہے کہ نہیں، ایسا بالکل نہیں ہے۔ ہم پاکستانی اس بھارت سے لاکھ نہیں تو ہزار درجے بہترہیں۔ ثبوت کے طور پر میں دو باتیں ذیل میں لکھ رہا ہو۔

2012ء کے اواخر میں ’دہلی ریپ کیس‘ کی گونج سوشل میڈیا سے پوری دنیا میں سنی گئی، تو بھارت کے میڈیا نے بھی اپنی آنکھیں کھولیں۔اس کیس کی داستان اذیت ناک ہے۔ 16 دسمبر 2012ء کو 23 سالہ میڈیکل کی طالبہ اپنے دوست کے ساتھ فلم دیکھنے کے بعد گھر کی طرف جارہی تھی۔ ان کی منزل جنوبی دہلی کا علاقہ تھا جہاں تک جانے کیلئے انہوں نے بس پکڑی۔ بس میں اُن کے علاوہ پانچ اور مرد سواریاں بھی تھیں جب کہ یہ لڑکی اکیلی ہی تھی، شاید یہی وجہ تھی کہ انہوں نے بس کے آگے یعنی ڈرائیور کے عقب میں بیٹھنے کو ترجیح دی۔

بس میں بیٹھے پانچ مرد اس لڑکی کو دیکھ کر آوازیں کسنے لگے، اُن میں سے ایک نے زیادہ ہی ہمت کی اور لڑکی کا ہاتھ تھامنے کی کوشش کی۔ اِس بات پر لڑکی کے منگیتر اور اُن لڑکوں کے بیچ میں لڑائی ہوئی جس میں لڑکی کے منگیتر کو اُن غنڈوں نے بڑی طرح تشدد کا نشانہ بنایا۔ جس کے بعد بس کو ایک ویرانے میں روک دیا گیا۔ جہاں پہلے لڑکی کو شدید تشدد کا نشانہ بنایا اور پھر چھ مردوں نے اس کے ساتھ ایک گھنٹہ تک اجتماعی زیادتی کی۔ غنڈوں نے صرف عصمت دری پر ہی بس نہیں کیا بلکہ رہی سہی کسر اِن مجرموں نے لڑکی اور اُس کے منگیتر کو چلتی ہوئی بس سے سڑک پر دھکا دے کر پوری کی۔

سوشل میڈیا پر اِس واقعے کی گونج نے بھارتی میڈیا اور اُس کی حکومت کو ہوش دلایا اور اُنہوں نے کارروائی کرتے ہوئے بس ڈرائیور اور دیگر لڑکوں کو حراست میں لے لیا۔ متاثرہ لڑکی 13 دن سنگاپور کے ایک اسپتال میں موت و حیات کی کشمکش میں رہنے کے بعد زندگی کی بازی ہار گئی۔ واقعہ کے حوالے سے ڈرائیور نے الزامات قبول کرنے سے انکار کردیا، لیکن ڈی این اے کی رپورٹ نے اُس کے دعووں کو جھٹلا دیا جس کے بعد اُس کے پاس قبول کرنے کے سوا کوئی چارہ نہ رہا۔

اس واقعے نے عالمی سطح پربھارت کو بُری طرح سے بدنام کردیا۔ 2013ء میں مزید ریپ کیس رپورٹ ہوئے، جس میں بیرون بھارت کی خواتین سیاحوں کے ساتھ ریپ کے کیس بھی شامل تھے۔ ان واقعات نے رہی سہی کسر بھی پوری کردی اور بھارت کو عالمی میڈیا نے نہ صرف ’ریپ کیپٹل‘ یعنی جنسی زیادتی کا دارلحکومت قرار دیا بلکہ دیگر ممالک کی خواتین کو بھارت کا سفر نہ کرنے کامشورہ بھی دیا گیا۔

حال ہی میں ایک بین الاقوامی جریدے میں اُس بھارتی بس ڈرائیور کا انٹرویو شائع ہوا ہے جس نے میڈیکل کی طالبہ سے دہلی میں زیادتی کی تھی۔ ڈرائیور کو موت کی سزا سنادی گئی ہے جس کے خلاف اُس نے عدالت میں اپیل داخل کر رکھی ہے۔ اُس ڈرائیور نے بھارت جیسے لبرل اور سیکولر ملک میں کمال ڈھٹائی کا مظاہرہ کرتے ہوئے نہ صرف انٹرویو میں عدالتوں کو دبی زبان میں دھمکی لگائی ہے بلکہ عورتوں کی آزادی کے حوالے سے بھی سوال کھڑے کرتے ہوئے اُن کو ریپ کا ذمہ دار قرار دیا ہے ۔

عجیب وغریب اور بودے دلائل دینے والے بس ڈرائیور سے کسی نے شاید یہ پوچھنے کی ہمت نہیں کی کہ اگر اُس کی ماں، بہن یا بیٹی کے ساتھ کوئی غنڈہ وہی سب کچھ کرے جو اُس نے 23 سالہ میڈیکل کی طالبہ سے کیا ہے تو وہ کیا کرے گا؟ کیا وہ تب بھی یہی دلائل دے گا کہ شریف لڑکیاں 9 بجے کے بعد گھر سے باہر نہیں جاتی ہیں، کیا وہ تب بھی یہی کہے گا کہ تالی ایک ہاتھ سے نہیں بجتی ہے؟

دوسری جانب بھارت میں ’آزادی اظہار رائے‘ کی یہ حالت ہے کہ عدالت نے نیشنل لیول کے میڈیا ہاؤس کو وہ ڈاکومینٹری آن ائیر کرنے سے روک دیا ہے جس میں دہلی گینگ ریپ کےایک ملزم کا انٹرویو شامل ہے۔ عدالت نے ’قابل اعتراض مواد‘ کی وجہ سے ملک بھر کے میڈیا کو یہ ڈاکومینٹری چلانے سے منع کردیا ہے۔ یہ ڈاکومینٹری فلم ایوارڈ یافتہ برطانوی فلم میکر نے بنائی ہے۔ فلم میکر نے غیر ملکی خبر رساں ادارے سے بات کرتے ہوئے کہاکہ اُن کا دل اس پابندی کے بعد ٹوٹ گیا ہے۔ اُن کا کہنا تھا کہ جتنا اس فلم کو روکا جائے گا، اتنا ہی اِس فلم کے حوالے سے تجسس پھیلے گا اور لوگ اس کو دیکھنا چاہیں گے۔ بھارت کی بیٹی نامی اس ڈاکومینٹری میں فلم ساز نے بھارت میں ریپ کے بڑھتے ہوئے جرائم کے حوالے سے بات کی ہے۔ اس فلم کو عالمی یومِ خواتین کے موقع پر دنیا کے سات ممالک میں دکھایا جانا تھا۔ جن میں برطانیہ اور بھارت بھی شامل ہیں۔

میں مانتا ہوں کہ ہر ملک کے اپنے مسائل ہیں لیکن کم از کم پاکستان کو ریپ کیپٹل نہیں کہا جاتا ہے۔ پاکستان میں کوئی سیاسی پارٹی ہندووں کو یہ نہیں کہتی ہے کہ اگر انہوں نے جینا ہے یا حق مانگنا ہے تو وہ بھارت چلے جائیں، جب کہ بھارت میں یہ بات آئے دن سننے کو ملتی ہے کہ اُن کی دہشت گرد سیاسی جماعتیں کبھی یہ بیان کرتی ہیں کہ 2025ء تک بھارت سے اسلام اور عیسائیت کا صفایا کردیا جائے گا، کبھی یہ کہا جاتا ہے کہ جس مسلمان نے حق کا دعویٰ کرنا ہے وہ پاکستان چلا جائے اور تو اور ہزاروں مسلمانوں کے قاتل اورخود پسند مودی کو بھارت کا وزیر اعظم چن لیا گیا ہے۔

اِن سب باتوں کا مقصد یہ ہے کہ بھارت سے قطعی متاثر ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ بھارت وہ نہیں جو فلموں میں نظر آتا ہے، بھارت کی اصل تصویر انتہائی خوفناک، شرمناک، مکروہ اور ڈراونی ہے۔ بھارتی ہمیں سمجھانے کی بجائے پہلے اپنا دیش سدھاریں، ورنہ ابھی تو صرف بھارت ریپ کیپٹل کے نام سے جانا جاتا ہے، کل کو دنیا ’’شائینگ انڈیا‘‘ کو مزید بدنام بھی کرسکتی ہے ۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز  اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر،   مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف  کے ساتھ  [email protected]  پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جاسکتے ہیں

سالار سلیمان

سالار سلیمان

بلاگر ایک صحافی اور کالم نگار ہیں۔ آپ سے ٹویٹر آئی ڈی پر @salaarsuleyman پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔