پھر یہ ہنگامہ اے خدا کیا ہے؟

رئیس فاطمہ  اتوار 7 اکتوبر 2012

گستاخانہ فلم کے خلاف جب بے قابو ہجوم کراچی اور پشاور میں سنیما گھروں کو باقاعدہ منظم طریقے سے آگ لگار ہے تھے۔

کرکٹ بیٹ سے ان کے شیشے توڑ رہے تھے تو میری طرح اور بھی بے شمار سنجیدہ لوگ سوچ رہے تھے کہ ناموس رسولؐ اور عشقِ رسولؐ کے نام جو لوگ بینک لوٹ رہے ہیں، وہ تو باقاعدہ پلاننگ سے آئے ہیں۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو سنیمائوں کو آگ لگانے کے لیے پٹرول کہاں سے آیا؟ بینکوں کو لوٹنے کے لیے اور اے ٹی ایم مشینیں توڑنے کے لیے آلات کہاں سے آئے؟ فائرنگ کرنے کے لیے اسلحہ کہاں سے آیا؟ اور یہ سوال بھی اپنی جگہ آج بھی موجود ہے کہ کیا وہ گستاخانہ فلم کراچی یا پشاور کے ان سنیماؤں میں ریلیز ہوئی تھی جن کو جلا کر خاکستر کر دیا گیا۔

کیا اس فلم کا کسی بھی طرح کوئی تعلق ان سنیما کے مالکان سے تھا؟ اگر نہیں تو پھر اسلامی حلیے بنائے یہ دہشت گرد کون تھے؟ انھیں کس نے مزدوری دینے کا وعدہ کیا تھا؟ یہ کس کے ایجنڈے کی تکمیل کر رہے تھے؟ سرگوشیوں میں یہ بات بھی کہی جا رہی ہے اور سنی جا رہی ہے کہ یہ کام دراصل لینڈ مافیا کا ہے۔ کراچی میں زمین سونے کے بھائو بکتی ہے، خصوصاً تجارتی علاقوں میں۔ صدر کا علاقہ کراچی کا قدیم ترین علاقہ ہے۔ انگریزوں نے کراچی پر قبضے کے بعد سب سے پہلے صدر کے علاقے میں دکانیں کھلوائی تھیں، جس کا پورا آنکھوں دیکھا حال کراچی شہر کے بانی سیٹھ بھوجو مل کے پڑپوتے نائو مل ہوت چند نے اپنی یادداشتوں میں تفصیل سے بیان کیا ہے۔ اب یہاں کوئی زمین خالی نہیں ہے۔

جب پاکستانی فلم انڈسٹری کا کِریا کرم ہو گیا تو سنیما مالکان نے انھیں تڑوا کر شاپنگ سینٹرز میں تبدیل کر دیا یا مہنگے داموں فروخت کر دیا۔ فلم انڈسٹری بیٹھ گئی اور ہزاروں لوگ بیکار ہو گئے۔ کیسے کیسے سنیما مارکیٹوں میں بدل گئے، جو باقی رہ گئے تھے ان میں سے نشاط سنیما ایک تاریخی حیثیت رکھتا تھا۔ تعجب کی بات یہ ہے کہ چھانٹ چھانٹ کر صدر اور بندر روڈ کے سنیمائوں کو جلایا گیا۔ کیا اس لیے کہ لینڈ مافیا کے لیے یہ ایک بہترین اور آزمودہ طریقہ تھا، جو جو کاروباری جگہیں ان کی نظر میں تھیں، انھیں ٹارگٹ کر لیا گیا تھا۔

غربت، بے روزگاری، مہنگائی اور جہالت نے مل کر تشدد کا راستہ ہموار کیا، اور منصوبہ سازوں کا منصوبہ ان کی توقع سے زیادہ بڑھ کر کامیاب ہو گیا۔ من چاہی جگہیں توہینِ رسالت کے خلاف نکالی جانے والے ہجوم نے فراہم کر دیں۔ اب وہاں فلیٹ اور مارکیٹ بنے گی، سنیما دوبارہ تعمیر نہیں ہوں گے۔ اس المناک، دہشت ناک اور وحشت و بربریت سے پُر دن نے ہمیں کیسا رسوا کیا ساری دنیا میں۔ اس کا اندازہ کرنا زیادہ مشکل نہیں۔

لیکن کیا ہم ہمیشہ سے ہی ایسے تھے؟ متشدد، دوسروں کی املاک تباہ کرنے والے؟ اپنے ہی ملک میں تباہی پھیلانے والے؟ دکانیں لوٹنے والے؟ دوسروں پر اپنی مرضی اور مسلک تھوپنے والے؟ قابلِ نفرت؟ جس درخت پر بسیرا کریں اس کی شاخیں کاٹنے والے؟ نہیں ہم ہمیشہ سے تو ایسے نہیں تھے۔ اس ملک میں بھی بہاریں آتی تھیں، محبتوں کے پھول کھلتے تھے، فنونِ لطیفہ کے تمام شعبے فعال تھے۔ رقص و موسیقی بھی زندہ تھے، فلمیں بنتی بھی تھیں اور دوسرے ملکوں سے آتی بھی تھیں۔ بھارتی فلموں کی نمایش سے نہ صرف تفریح اور روزگار وابستہ تھے بلکہ لوگ تشدد کی طرف مائل ہی نہیں ہوتے تھے۔

کیونکہ فائن آرٹس انسان میں تشدد پیدا نہیں ہونے دیتا۔ پھر ہمارے وطن کو کالی آندھی نے اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ یہ کالی آندھی تھی، مذہبی منافرت اور مسلکوں کی۔ افغان جہاد کے نام پر جو اربوں ڈالر یہاں آئے، وہ کس کے پیٹ میں گئے۔ ضیاء الحق نامی ڈکٹیٹر نے اسلام کے نام پر تشدد کو ہوا دی۔ موصوف اپنے خطاب سے پہلے ان آیتوں کی تلاوت کا حکم دیتے تھے جو ان کے ہر اقدام کو شرعی اور قانونی اعتبار سے جائز قرار دیں۔ انھوں نے حق گوئی کی سزا کوڑے تجویز کی۔ ان کے اندر ایک تشدد پسند شخص جلوہ گر تھا، جسے انھوں نے اپنی مونا لیزا فیم مسکراہٹ اور نمائشی انکسار سے چھپانے کی ناکام کوشش کی تھی۔

دراصل یہ ان ہی موصوف کا ورثہ ہے جس کے مظاہرے آج ملک بھر میں عشقِ رسولؓ کے نام پر ہو رہے ہیں۔ ہر شخص ہم پر ہنس رہا ہے۔ افسوس کہ موصوف اسلام کے نام پر ان دہشت گردوں کو طاقت عطا کر گئے، جن کا دین اسلام سے کوئی بھی واسطہ نہیں۔ ذرا سوچیے جو عشقِ رسول میں ڈوبا ہو، اسوۂ حسنہ پر عمل کرتا ہو، احادیث کی اہمیت سمجھتا ہو، وہ بھلا کیونکر کسی کی املاک جلا سکتا ہے۔ لیکن ضیا الحق حکومت ہوشیار تھی ۔ وہ جانتی تھی کہ اس ملک میں جہاں ایسے مدرسوں کا جال بچھا ہو، جو غیر ملکی امداد پر پل رہے ہوں، ان مدارس کے مالک پجیرو اور لینڈ کروزر میں گھومتے ہوں، وہاں اپنے اقتدار کو قائم رکھنے کے لیے مذہب کے ہتھیار کا استعمال بہت سود مند رہے گا۔

اور ان کا یہ خیال سو فیصد صحیح تھا جو مذہبی گروہ اسلام کا نام لے کر پروان چڑھے ان کی تربیت ان مدرسوں میں ہوئی، جہاں غربت و افلاس کے مارے بچّے مجبوراً داخل کیے جاتے ہیں، کیونکہ ان کے والدین انھیں دنیا میں تو لے آتے ہیں لیکن نہ تن ڈھانپنے کو کپڑا مہیا کر سکتے ہیں نہ بھوک مٹا سکتے ہیں۔ سو ایسے بچوں کو دو طرح کے لوگ ہاتھوں ہاتھ لیتے ہیں، ایک دینی مدرسے جو ان کے چھوٹے چھوٹے دماغوں کو اپنے کنٹرول میں کر کے ’’جہاد‘‘ کا درس دیتے ہیں اور ان کے دماغوں میں یہ بات پختہ ہو جاتی ہے کہ جس کا حکم ان کا آقا یعنی مدرسے کا والی وارث اور استاد دیتا ہے، وہی سب کچھ ہے۔ اس دوران انھیں ماں باپ سے ملنے کی بھی اجازت نہیں ہوتی۔ قرآن پاک کا مطلب اور ترجمہ سمجھے بغیر وہ صرف سر ہلا ہلا کر اسے رٹ لیتے ہیں کیونکہ انھیں وہی ترجمہ اور تفسیر درست لگتا ہے جو ان کے استاد نے ان کے دماغ میں بٹھا دیا۔

پھر تربیت مکمل ہونے پر انھیں جو حکم دیا جاتا ہے وہ بلا چون و چرا اسے بجا لاتے ہیں۔ خواہ کسی مزار کو بم سے اڑانا ہو، کسی مسجد یا شاپنگ سینٹر میں دھماکا کرنا ہو، اور اگر مارے جائیں تو کسی دوسرے طالب علم کو خبر نہیں ہوتی کہ ان کا کون سا ساتھی غائب ہو گیا۔ ماں باپ کا منہ وہ رقم بند رکھتی ہے جو کچھ عرصے تک یہ کہہ کر دی جاتی ہے کہ آپ کا بیٹا جہاد پر گیا ہے اور پھر کچھ دنوں بعد انھیں خوش خبری سنائی جاتی ہے کہ ان کا بیٹا شہید ہو گیا اور آپ کے لیے جنّت کے دروازے کھول گیا۔ دوسرے خریدار ان جنونیوں کے وہ سیاست دان ہوتے ہیں جو اپنے مخالفین کو راستے سے ہٹانا چاہتے ہیں۔ حسن بن صباح نے بھی ایک ایسی ہی جنّت بنائی تھی، جس میں جنّت کا سارا سامان تھا۔ وہ جنّت جو کسی نے نہیں دیکھی، لیکن حوروں کے وجود کا علم ہے۔

اس جنّت میں حسن بن صباح ان نوجوانوں کو بے ہوشی کا مشروب پلا کر اٹھوا لیتا تھا جو مالی تنگی یا غربت کا شکار ہوتے تھے۔ کچھ دن تک اس نوجوان کو ہر قسم کی سہولت، عیش و عشرت سے بھرا ماحول عطا کیا جاتا تھا اور یہ باور کرایا جاتا تھا کہ وہ اﷲ کی بنائی ہوئی اصلی جنّت میں ہے۔ جب وہ اس پر فریب ماحول کا عادی ہو جاتا تھا تو اسے دوبارہ بے ہوش کر کے وہیں پہنچا دیا جاتا جہاں سے اسے اغوا کیا گیا تھا۔ جب وہ ہوش میں آتا ہے تو پریشان ہو جاتا ہے کہ یہ کیا ہو گیا؟ کہاں گئیں جنّت کی وہ حوریں جو زانو پر اس کا سر رکھے بیٹھی رہتی تھیں۔ دودھ اور شہد کی نہریں بہتی تھیں، اور… اور؟ جب وہ یہ سب سوچ سوچ کر پاگل ہو جاتا تھا تو حسن بن صباح اپنے فرقے کے ایک کارندے کو بھیجتا تھا جو اس نوجوان کو ایک پیغام دیتا تھا کہ فلاں شخص کو اگر قتل کر سکو گے تو واپس جنّت میں آ سکتے ہو ورنہ نہیں۔

چنانچہ وہ نوجوان دوبارہ جنّت کی لالچ میں آ کر اپنے شفیق استاد اور بہت بڑے عالم شیخ نجم الدین نیشا پوری کو قتل کر دیتا ہے۔ حسن بن صباح ان تمام علمائے کرام کو مروا دینا چاہتا ہے جو اس کے فرقے کی اصلیت سے واقف تھے اور لوگوں کو اس مذہبی فتنے سے آگاہ کر رہے تھے۔ مولانا عبدالحلیم شرر نے اپنے شہرۂ آفاق ناول ’’فردوس بریں‘‘ میں بڑی تفصیل سے یہ واقعہ بیان کیا ہے۔

افسوس کہ بھٹو صاحب نے بھی اپنے اقتدار کو قائم رکھنے کے لیے انھی انتہا پسند قوتوں کو گلے سے لگا لیا جن کے خلاف وہ ڈٹ کر کھڑے ہوئے تھے۔ انھی قوتوں کو خوش کرنے کے لیے انھوں نے جمعے کی چھٹی کا اعلان کیا۔ افسوس کہ انھی قوتوں کے ساتھ کھڑا ہونے پر بھٹو صاحب اپنی کشش کھو بیٹھے۔ اور نتیجہ؟ ایک انتہا پسند محسن کش فوجی ڈکٹیٹر نے انھیں پھانسی پر لٹکوا دیا۔ ملک جس نازک اور بدترین صورتِ حال سے گزر رہا ہے اس میں حکومت کی سب سے بڑی ذمے داری یہ ہے کہ وہ انتہا پسندوں کے آگے گھٹنے نہ ٹیکے، مگر حکومت ہے کہاں؟

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔