وفاقی دارالحکومت اور بلدیاتی الیکشن

اسلم خان  ہفتہ 7 مارچ 2015
budha.goraya@yahoo.com

[email protected]

پاکستان کی تاریخ میں عدلیہ اور انتظامیہ کے یدھ میں اکثر فتح انتظامیہ کی ہوئی ہے۔ اکثر عدلیہ کے فیصلوں پر عملدرآمد نہیں ہوتا۔ اسلام آباد محض ایک شہر نہیں بلکہ اقتدار کا مرکز ہے اور اس شہر پر بیورو کریسی کی گرفت خاصی مضبوط ہے۔

جنرل پرویز مشرف نے اپنے دور اقتدار میں اسلام آباد پر بیورو کریسی کے کنٹرول میں کمی کرنے اور یہاں بلدیاتی الیکشن کرانے کی کوشش کی لیکن وہ بھی کامیاب نہیں ہو سکے۔ اس کے بعد پاکستان کی عدالتی تاریخ میں نئے باب رقم کرنے والے چیف جسٹس افتخار چوہدری نے 15 ستمبر 2013ء تک اسلام آباد سمیت سارے ملک میں بلدیاتی انتخابات کرانے کا واضح حکم دیا تھا لیکن ان کی ریٹائرمنٹ تک ان احکامات پر عملدرآمد نہ ہو سکا۔اس سے انتظامیہ کی طاقت و قوت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔

بیوروکریسی کے اختیارات کا تو یہ عالم ہے کہ جب جنرل مشرف نے بڑے بلند عزائم کے ساتھ انتظامی ڈھانچے کی اصلاح کے لیے تعمیر نو بیورو کے ذریعے اصلاحات متعارف کرائیں تو اپنے تمام تر آمرانہ اختیارات کے باوجود اصلاحاتی قانون کو وفاقی دارالحکومت اسلام آباد پر لاگو نہیں کرا سکے تھے۔

آج بھی وفاقی دارالحکومت کو بیورو کریسی ہی چلا رہی ہے۔ وہی ڈپٹی کمشنر اور پولیس کا ایس پی اختیارات کا سرچشمہ ہیں۔ عوامی نمایندگی کا کوئی ادارہ نہیں ہے۔

اسلام آباد، شہر نگاراں جو کبھی افسروں اور کلرکوں کا شہر ہو تا ہو گا، اب پھلتا پھولتا کثیرالجہتی شناخت رکھنے والا ایسا دیار محبوب ہے جس کی تیسری نسل جو ان ہو چکی ہے۔

پندرہ برس پہلے جنرل مشر ف کا نیم مارشل لاء تازہ دم اور جوان تھا، تعمیر نو بیورو نے انتظامی اصلاحات سمیت نئے بلدیاتی نظام کی نقش گری کا کام مکمل کر لیا تھا۔ اسلام آباد میں بلدیاتی اداروں کے قیام کا آرڈیننس نافذ ہو چکا تھا لیکن اس شہر میں بلدیاتی انتخابات نہیں ہوئے۔کیسی عجیب بات ہے۔

اس زمانے کے ممتاز تحقیقاتی رپورٹر کے لیے یہ بہت بڑا  ’سکُوپ‘ تھا، بظاہر ناممکن دکھائی دیتا تھا کہ جنرل مشرف کے تما م وعدوں اور دعوؤں کے باوجود وفاقی دارالحکومت کو نئے بلدیاتی نظام کی برکات سے محروم کیا جا سکتا ہے، انگریزی کے معاصر اخبار میں یہ خبر صفحہ اول پر نمایاں شایع ہوئی کہ بیورو کریسی اسلام آباد میں بلدیاتی اداروں کے قیا م کی راہ میں رکاوٹ ہے۔

20  لاکھ کی آبادی والے شہر اسلام آباد کا بجٹ 40 ارب روپے ہے جب کہ دو کروڑ آبادی سے بڑے کراچی کا بجٹ صر ف 35 ارب جب کہ سوا کروڑ کے لاہور کا بجٹ صر ف 23ارب روپے ہے۔

کراچی اور لاہور کی سیکڑوں کلو میٹر وسعتوں کا اسلام آباد سے کو ئی تقابل ممکن نہیں ہے جو اپنی تما م تر ترقی کے باوجود 30 کلومیٹر کے دائرے سے باہر نہیں نکل سکا۔ ویسے سب سے زیادہ عالم فاضل اس شہر میں عوام کے لیے کو ئی میونسپل لائبریری نہیں ہے‘ کوئی سینما ہال نہیں ہے‘ بچو ں کی ایک لائبریری ہوتی تھی جو لال مسجد کے تنازع کی نذر ہو چکی ہے۔ ہر سال اربوں روپوں کا بجٹ نجا نے کن کھوہ کھا توں میں چلا جاتا ہے۔

6 سے زائد وزارتوں کو چلانے کا تجربہ رکھنے والے برادر بزرگ کا اصرار تھا کہ افسر شاہی اسلام آباد شہر کا انتظام عوامی نمایندؤں کے سپرد نہیں کرے گی۔ افسرشاہی کو یہ بھی خدشہ تھا کہ بلدیاتی ادارے پر اسلام آباد کے تاجر اور صنعتکار قابض ہو جائیں گے جس میں سے بیشتر خاصے پڑھے لکھے ہیں جو بیوروکریسی کے لیے خطرناک ثابت ہو سکتے ہیں۔

اس خبر کے شایع ہونے کے بعد پہلا ردعمل تو جنرل پرویز مشرف کا موصول ہوا کہ انھوں نے کہا’ایک ملک اور دو نظام’ میر ے ہوتے ہوئے ایسا نہیں ہو گا۔ لیکن ویسے ہی ہوا جو افسر شاہی نے چاہا۔ جنرل مشرف اسلام آباد میں بلدیاتی انتخابات کرانے میں ناکام ہو گئے جب کہ تعمیر نو بیورو کے سربراہ چوہدری دانیال عزیز کا جوش و خروش بھی دیدنی تھا۔2008ء کے بعد چونکہ حقیقی جمہوریت بروئے کار تھی اس لیے کسی نے بھی بلدیاتی انتخابات کرانے کے آئینی تقاضے پر توجہ دینے کی ضرورت محسوس نہیں کی تھی۔

سابق وزیر اعظم سید یوسف رضا گیلا نی نے 25 اپریل 2012ء کو اسلام آباد شہر میں بلدیاتی انتخابات کرانے کا اعلان کرتے ہوئے عزم ظاہر کیا تھا کہ استنبول، ڈھاکا اور نئی دہلی کی طرح اسلام آباد میں بھی منتخب بلدیاتی ادارے قائم تشکیل دیے جائیں گے لیکن یہ اعلان بھی خالی خولی خوش نما دعوؤں اور وعدوں تک ہی محدود رہا۔

23 اکتوبر 2012ء کو اسلام آباد ہائی کورٹ نے حکم دیا کہ 6 ماہ میں اسلام آباد کے شہری اور دیہی علاقوں میں بلدیاتی انتخابات کرانے کے لیے ضروری انتظام مکمل کر لیے جائیں۔ لیکن پھر بھی معاملہ جوں کا توں رہا۔یہ عجب طرفہ تماشا ہے کہ 1992ء کہ بعد چار مختلف ادوار میں اسلام آباد کے دیہی علاقوں میں بلدیاتی انتخابات ہو چکے ہیں لیکن شہر اقتدار کے باسی تا حال اپنے اس بنیادی آئینی حق سے محروم ہیں۔

بیچارے جمہوری حکمران، جو عوام کے ووٹوں کے سہارے آئین کی سربلندی کے بلندوبانگ دعوے کرتے ایوان اقتدار کی بھول بھلیوں میں کھو جاتے ہیںکسی شمار و قطار میں نہیں، اب اصل مقابلہ تو افسر شاہی اور عدلیہ میں ہے۔ دیکھا یہ ہے کہ کیا اسلام آباد میں بلدیاتی انتخابات ہوتے ہیں یا نہیں‘ ویسے تو ابھی تک پنجاب‘ سندھ اور خیبرپختونخوا میں بلدیاتی انتخابات نہیں ہوئے‘ ایسے میں اسلام آباد میں بلدیاتی الیکشن کیسے ہوں گے‘ بہر حال آخری امید عدلیہ ہی ہے۔ دیکھیں آگے کیا ہوتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔