اشیا کی قیمتیں جانچنے کا نظام

ایم آئی خلیل  ہفتہ 7 مارچ 2015

دنیا بھر میں بڑی بڑی کمپنیوں، فرموں، اداروں کی تعداد بڑھتی چلی جا رہی ہے جو نہ صرف جدید ٹیکنالوجی سے لیس ہیں بلکہ اپنی پیداوار کے لیے ضرورت کے خام مال کی قیمتوں پر بھی ان کو کنٹرول حاصل ہے۔

ان کا مقصد صرف زیادہ سے زیادہ منافع کمانا ہوتا ہے۔ خاص طور پر ترقی پذیر ممالک میں ایسی غیر ملکی کمپنیاں بھاری منافع کما کر اپنے اپنے ملکوں یعنی صنعتی ملکوں کو بھجواتی ہیں۔ جہاں کہیں قیمت میں کمی کا خطرہ ہوتا ہے وہیں رسد میں کمی کردی جاتی ہے۔ پیداوار میں کمی عمل میں لائی جاتی ہے۔ اس کے ساتھ ہی لوگوں کو بیروزگار کرنے کا عمل بھی شروع کردیا جاتا ہے۔

پاکستان کی معیشت میں 1947 سے لے کر 1972 تک کا دور ایسا تھا جب صنعتکار ملک میں صنعتیں لگا رہے تھے، جس میں مزدور تحریک بھی پھل پھول رہی تھی، ان کی تنخواہوں میں اضافے کا عمل بھی جاری تھا۔ لوگوں کی آمدن میں اضافے کے باعث اگر معمولی مہنگائی ہو بھی جاتی تو وہ محسوس نہ ہوتی تھی۔

ان دنوں کسی بھی شے کو مہنگا کرنے کا عمل حکومت کو بہت مہنگا پڑتا تھا۔ مثلاً بتایا جاتا ہے کہ 1960 کے عشرے کے آخری برسوں میں ایک مرتبہ چینی کیا مہنگی ہوئی ملک بھر میں شدید احتجاج ہوا۔ اس وقت چینی فی سیر (اس وقت سیر کا پیمانہ استعمال ہوتا تھا) 10 آنے سے بڑھ کر 12 آنے ہونے پر شدید احتجاج ہوا اور حکومت کو ایسے پیمانے سامنے لانے پڑے کہ چینی کی قیمت کا درست تعین کرکے واپس پرانی قیمت پر لایا گیا۔

چند سال قبل جب چینی کی قیمت 30 روپے فی کلو سے بڑھ کر 90 روپے فی کلو ہوگئی تھی ان دنوں بھی سپریم کورٹ کی جانب سے قیمت کے درست تعین کے لیے قیمت بھی کم کرنے کا مشورہ دیا گیا۔ لیکن اس پر عملدرآمد سے پہلو تہی کی جاتی رہی۔

اخباری اطلاع کے مطابق حکومت کے پاس اشیا کی قیمتیں جانچنے کا کوئی پیمانہ ہی نہیں ہے حالانکہ صنعتکاروں کے پاس تاجروں اور ٹرانسپورٹرز کے پاس اشیا کی قیمتیں بڑھانے کا ایک زبردست پیمانہ موجود ہے جس کا پاکستانی قوم بارہا تجربہ کرچکی ہے۔

یعنی جیسے ہی پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں معمولی اضافہ بھی ہوتا ہے تو فوراً ہر شے کی قیمت اور کرایوں میں اضافہ کردیا جاتا ہے۔ حالیہ چند ماہ میں حکومت نے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں بارہا کمی کی لیکن کسی بھی شے کی قیمت حتیٰ کہ کرایوں میں بھی کمی نہیں ہوئی بلکہ بعض مقامات پر کرایوں میں اضافہ کردیا گیا ہے۔

حال ہی میں سندھ کی صوبائی حکومت کی کوششوں سے کراچی گلشن حدید سے ٹاور اور کیماڑی تک کے لیے گرین بسیں چلائی گئیں۔ جن کا کرایہ تیس روپے تھا جسے اب 40 روپے کردیا گیا ہے۔ اسی روٹ پر پرائیویٹ کوچ چلتی ہے جس کے ٹرانسپورٹر پہلے 4 یا 5 اسٹاپ کے 18 روپے وصول کرتے تھے اب 20 روپے وصول کرتے ہیں اور بتایا جاتا ہے کہ گرین بسوں کے کرایے بڑھانے کے سبب انھوں نے بھی اپنا کرایہ مزید 10 روپے بڑھا دیا ہے۔

پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں 40 تا 50 فیصد کمی کے باوجود کسی شے کی قیمت کا کم نہ ہونا حتیٰ کہ کرایوں تک میں کمی نہ ہونا ایک حیران کن امر ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اتنے طویل عرصے میں آج تک کوئی حکومت ایسا کوئی میکنزم بنا نہ سکی جس کی بنیاد پر یہ طے کیا جائے کہ جب پٹرول کی قیمت کم ہوتی ہے تو اس کو مدنظر رکھتے ہوئے کرایوں میں کتنی کمی لائی جائے۔

مختلف اشیا کی قیمتوں میں کیا کمی لائی جائے۔ صوبائی حکومتوں کی جانب سے ایک پیمانے پر عمل کیا جاتا ہے کہ مہنگے داموں فروخت کرنے والوں پر جرمانہ عائد کردیا جاتا ہے اور یہ عمل منافع خوروں کو قطعاً ناگوار نہیں گزرتا۔ ہزاروں روپے بطور جرمانہ بھر دیتے ہیں اور پھر ناجائز منافع خوری میں مصروف ہوجاتے ہیں اور اس طرح یہ کارروائی نہ صرف عارضی ثابت ہوتی ہے بلکہ بعد میں ان ہی اشیا کی قیمتیں دوبارہ بڑھ جاتی ہیں اور پہلے سے زیادہ قیمت وصول کی جاتی ہے۔

وفاقی حکومت ہو یا صوبائی حکومت کوئی بھی بڑی کمپنیوں کی پراڈکٹ کی قیمت جوکہ مسلسل بڑھتی چلی جارہی ہے اس کے متعلق کسی بھی کارروائی سے گریز کیا جاتا ہے۔

حالانکہ یہ کمپنیاں ایسی ہوتی ہیں جو خود ہی اپنی پیداواری اشیا کی لاگت کا صحیح صحیح اندازہ لگاتی ہے۔ انھوں نے اپنی کمپنی میں کاسٹ اکاؤنٹنٹ مقرر کیا ہوتا ہے جوکہ کسی بھی شے کی تیاری کے تمام مراحل کے مالی لاگت کی شیٹ تیار کرتا ہے۔ یقینا کسی بھی شے کی تیاری میں پٹرول، ڈیزل، بجلی، گیس وغیرہ کی قیمت بنیادی کردار ادا کرتی ہے۔

اب جب کہ بجلی کی قیمت میں بھی کمی کی جارہی ہے، پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں کئی بار کم ہوچکی ہیں تو ایسی صورت میں یہ حکومت کا فرض ہے کہ ایسا میکنزم تیار کرے تاکہ کسی شے کی لاگت اور پھر اس کے منافع کے بارے میں درست تعین کیا جائے جس سے یقیناً ملک بھر کی صنعتوں میں پیدا ہونے والی بہت سی آئٹم کی قیمتوں میں زبردست کمی واقع ہوسکتی ہے۔

خبروں کے مطابق سندھ میں بیورو آف سپلائز اینڈ پرائسز غیر فعال ہے جس کی وجہ سے صوبائی سطح پر عام استعمال ہونے والی اشیا کی قیمتیں نہیں جانچی جاسکتی۔ صوبائی حکومت ہو یا ضلعی حکومت اگر موسمی اعتبار سے یا زائد فصل ہونے کے باعث پھل سبزیوں کی قیمت میں کمی ہوجائے تو اسی پر نازاں ہوجاتے ہیں کہ مختلف اشیا کی قیمتوں میں کمی واقع ہوسکتی ہے۔

اب اس سلسلے میں وفاقی حکومت کو صوبائی حکومت کے ساتھ مل کر کام کرنے کی ضرورت ہے اور ایسا نظام وضع کرنے کی ضرورت ہے تاکہ ہر کوئی من مانی قیمت مقرر کرنے سے باز رہے۔

ملک بھر میں مہنگائی میں جب ہی کمی واقع ہوسکتی ہے جب ایسا کوئی میکنزم تیار کرلیا جائے جس کی نفی نہ صنعت کار کرسکیں نہ ہی ہول سیلرز وغیرہ، کیوں کہ مہنگائی کو کنٹرول کرنا، ناجائز منافع خوری کو روکنا یہ سب حکومت کی اولین ذمے داری اس لیے ہونی چاہیے تاکہ عوام کو ریلیف مل سکے لہٰذا حکومت ترجیحی بنیاد پر اشیا کی قیمتیں جانچنے کا انتظار لے کر آئے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔