تبدیلی کا رکنا ممکن نہیں

آفتاب احمد خانزادہ  ہفتہ 7 مارچ 2015

لیوس گراسک گبن کی دوران جنگ لکھی گئی تین جلدوں پر مشتمل کتاب “A Scots Quair”میں چار ہزار سال پرانے پتھروں کو امنڈتے ہوئے بادلوں کے خلاف کھڑا ہوا دکھایا گیا ہے۔

یہ منظر مرکزی کردار کرائسٹ گتھری کو وقت کی فطرت اور تبدیلی کی بابت سوچنے پر ابھرتا ہے ایک وقت وہ تھا جب بادلوں کو دیوتا سمجھ کر ان کی پرستش کی جاتی تھی لیکن اب وہ اپنے دل میں سوچتی ہے کہ وہ محض بادل ہیں جو آکرگزرجاتے اورختم ہوجاتے ہیں ہوا میں تحلیل ہونے کے بعد ان کا قصہ ختم ہو جاتا ہے کوئی چیز باقی نہیں رہتی البتہ فطرت کا بویا اور ہمیشہ قائم رہنے والی پہاڑیاں رہ جاتی ہیں۔

گبن بذات خود اشتراکی تھا، فلسفی کی حیثیت سے وہ جانتا تھا کہ سدا قائم رہنے والی پہاڑیاں بھی باقی نہیں رہیں گی کوئی چیز دائمی اور بے پایاں نہیں ہے پہاڑ،جزیرے، سمندر، نباتات، سیارے اور شمسی نظام وجود میں آتے تبدیلی کا شکار ہوتے اورآخرکار غائب ہوجاتے ہیں۔ فطرت میں تبدیلیوں کو ہزار سالہ دورانیہ سے ناپا جاتا ہے جب کہ انسانی معاشرہ مقابلتاً خطرناک رفتار سے نشوونما پاتا ہے۔

اس کے باوجود ہم لوگوں کو یہ کہتے ہوئے سنتے ہیں’’یہ ہی طریقہ ہمیشہ اسی طرح ہوتا آیا ہے چیزوں کو بدلنے کی کوشش کرنا بیکار ہے‘‘ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہماری زندگی کا دورانیہ مختصر ہے ہم بڑی تصویر کو دیکھنے میں اکثر دشواری محسوس کرتے ہیں ۔

ہم سوچتے ہیں کہ غربت، افلاس، انتہا پسندی، رجعت پسندی، جاگیرداری ، سرمایہ داری، دائم رہنے والی ہے کیونکہ یہ کئی سو سالوں سے موجود ہے اگر اسے انسانی زندگی کی لاکھوں برسوں سے موجودگی کے مقابلے میں دیکھا جائے تو یہ پلک جھپکنے کی بات لگتی ہے ازمنہ وسطی میں اگر کوئی شخص غاروں میں رہنے والوں کو یہ بتاتا کہ ایک دن ہم بڑے بڑے شہروں میں رہائش پذیر ہوں گے جن کی گلیوں میں روشنی کا انتظام کاروں کی ریل پیل، ہوائی جہاز، بحری جہاز، ٹیلی فون، فریج، ایئرکنڈیشنر، پنکھے کی بھرمار ہوگی تو وہ ایسی بات سنانیوالے کا مذاق اڑاتے اور اسے پاگل قرار دے دیتے۔

جب 2000 سال قبل روم میں سپارٹکس کے زیر قیادت غلاموں نے بغاوت کی تو بعض عقل سلیم رکھنے والوں نے اس سے کہا تھا کہ وہ محض اپنا وقت ضایع کر رہا ہے اسے ہوش کے ناخن لینے چاہئیں غلامی ہمیشہ سے چلی آئی ہے غلام رکھنا اور غلاموں کا مالک ہونا انسانی فطرت میں داخل ہے آپ انسان کی فطرت کو نہیں بدل سکتے۔

انسانی تاریخ کے تمام ادوار میں ایسے لوگ رہے ہیں جو ماضی سے چمٹے رہتے ہیں عام طور پر سارے نہیں دولتمند اور بااختیار لوگ ہوتے ہیں جو تبدیلی سے ڈرتے اور ترقی کی مزاحمت کرتے ہیں جب انھیں نئے اور نامانوس نظریات سے سابقہ پڑتا ہے تو غصے کے مارے آپے سے باہر ہوجاتے ہیں۔

دوسری قسم کے لوگ وہ ہوتے ہیں جو تبدیلی کو خوش آمدید کہتے ہیں وہ ماضی یا حال میں زندگی گزارنے کی بجائے مستقبل میں جیتے ہیں وہ روایت کی قربان گاہ کے سامنے سجدہ ریز ہونے سے انکارکردیتے ہیں وہ حالات کو چیلنج کرتے ہیں اور اصولوں کو توڑنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں کوپرنیبکس نے علم ہیئت کے اصول دوبارہ قلم بند کیے تو یورپ کے ہر منبر و محراب سے اس کی مذمت کی گئی کیونکہ اس نے عالمگیر سطح پر مسلمہ اس حقیقت کو چیلنج کرنے کی جسارت کی تھی کہ زمین کائنات کا مرکز ہے اور ہر چیز اس کے گرد گھومتی ہے۔

ہیتھوون نے موسیقی کے قواعد ازسرنو مرتب کیے شیکسپیئر نے ادب بلکہ اخلاقیات کے اصول نئے سرے سے مدون کیے، نپولین نے جنگ و جدل کے قوانین کو دوبارہ لکھا اسی طرح پکاسو نے آرٹ، ڈارون نے بائیولوجی کے اور نیوٹن نے فزکس کے اصول نئی شکل میں مرتب کیے۔

جرمن فلاسفر آرتھرشو پنہار نے کہا تھا کہ تمام سچائی تین درجوں میں سے گزرتی ہے سب سے پہلے اس کا مذاق اڑایا جاتا ہے پھر اس کی سختی سے مخالفت کی جاتی ہے اور آخر میں اسے خود آشکار کی صورت میں مان لیا جاتا ہے۔ ہمیں عظیم امریکی صدر ابراہم لنکن کا بچپن کا واقعہ تو یاد ہی ہوگا ایک روز لنکن کے والد سے ملنے ان کے ایک دوست گھر تشریف لائے لنکن کی عمر اس وقت 6 سال تھی اور وہ اپنے گھرکے آنگن میں کھیل رہے تھے۔

ان کے والد کے دوست نے ان سے پوچھا بیٹے تم بڑے ہوکر کیا بنو گے میں بڑا ہوکر امریکا کا صدر بنوں گا۔ لنکن نے جواب دیا وہ لنکن کا جواب سن کر بہت ہنسے اور بولے یہ تو بہت مشکل کام ہے اس کے لیے تو بہت محنت اور جدوجہد کی ضرورت ہے لنکن نے ان کی بات کا جواب دیتے ہوئے کہا انکل آدھا کام تو ہوگیا ہے اور آدھا کام کرنا باقی ہے ان کے والد کے دوست نے پوچھا کہ کون سا آدھا کام ہوگیا اور کون سا آدھا کام کرنا باقی ہے لنکن نے جواب میں کہا میں امریکا کا صدر بننے کے لیے راضی ہوگیا ہوں اس لیے آدھا کام تو ہوگیا باقی آدھا کام مجھے امریکی عوام کو راضی کرنا ہے پھر لنکن نے باقی آدھا کام آگے چل کر امریکی عوام کو راضی کرکے پورا کر دیا اور وہ امریکا کے صدر منتخب ہوگئے۔

جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ پاکستان میں تبدیلی نہیں آسکتی وہ دراصل احمقوں کی دنیا میں رہتے ہیں دنیا میں ہر جگہ تبدیلی آئی ہے آج کی دنیا ایک تبدیل شدہ دنیا ہے دنیا کے دیگر ممالک میں ہم سے زیادہ خرابیاں اور برائیاں موجود تھیں ہم سے زیادہ حالات خراب تھے لیکن جب ان کے عوام اپنے حالات تبدیل کرنے پر راضی ہو گئے تو انھوں نے اپنی دنیا کو یکسر تبدیل کردیا۔

جب آپ تبدیلی کا سوچ لیتے ہیں تو آدھی تبدیلی تو اسی وقت آچکی ہوتی ہے باقی آدھی تبدیلی محنت، لگن سے خود بخود آجاتی ہے اصل بات آپ کو اپنے آپ کو راضی کرنا ہوتا ہے۔

ایک آدمی غبارے بیچ کر روزی کماتا تھا اس کے پاس لال، پیلے، نیلے اور ہرے ہر رنگ کے غبارے ہوتے تھے جب بھی کام مندا ہوتا وہ گیس سے بھرا ایک غبارہ اڑا دیتا جب بچے غبارے کو اڑتا ہوا دیکھتے تو اس کی طرف متوجہ ہوجاتے اور ان میں غبارے خریدنے کی خواہش ابھرتی وہ آکر غبارے والے سے غبارے خریدتے اور یوں اس کا مندا ختم ہوجاتا دن بھر میں جب بھی کام مندا ہوتا غبارے والا اسی طرح ایک غبارہ اڑا دیتا ایک دن کسی نے غبارے والے کی قمیض پیچھے سے کھینچی اس نے مڑ کر دیکھا وہ ایک چھوٹا سا لڑکا تھا۔

لڑکے نے پوچھا اگر تم کالے رنگ کے غبارے کو اڑاؤ تو کیا وہ اڑے گا۔ غبارے والے نے جواب دیا بیٹا غبارے رنگ کی وجہ سے نہیں بلکہ اس میں موجودگیس کی وجہ سے اڑتے ہیں۔ یہ ہی اصول ہماری زندگیوں پر بھی صادق آتا ہے جو کچھ اندر ہے وہی اہم ہے اور ہمارے اندر موجود ہمیں بلندی پر لے جانیوالی شے ہے ہمارا رجحان اور سوچ۔ ولیم جیمز نے کہا تھا میری نسل کی عظیم ترین دریافت یہ ہے کہ انسان اپنے ذہنی رجحان کو بدل کر اپنی زندگیوں کو تبدیل کرسکتے ہیں تمہارا منتخب کیا ہوا شعبہ کوئی بھی ہو کامیابی کی اساس رجحان ہے۔

تبدیلی سے خوفزدہ اور ڈرے ہوئے لوگ بزدلی اورمایوسی کی باتیں کرتے ہیں اور دوسروں کو بیوقوف بنانے کی کوشش کرتے ہیں، تبدیلی ایک نیچرل عمل کا نام ہے جب خرابیاں اور برائیاں حد سے زیادہ بڑھ جاتی ہیں تو تبدیلی کا عمل خودبخود شروع ہوجاتا ہے، پاکستان میں تبدیلی کے عمل کا آغاز ہوچکا ہے۔ عوام راضی ہوچکے ہیں اس لیے آدھا کام ہوگیا ہے اورآدھا کام ہونا باقی ہے لہٰذا پاکستان میں تبدیلی ہر صورت آنی ہی آنی ہے اور تبدیلی کو روکنا ناممکن ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔