اُف! یہ نکتہ چینیاں؛ مثبت ردعمل معاملہ سدھار سکتا ہے

فرحان فانی  ہفتہ 7 مارچ 2015
ہم میں سے ہر ایک کو کام کے دوران ساتھیوں یا باس کی جانب سے بھی اکثر تنقید کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ فوٹو: فائل

ہم میں سے ہر ایک کو کام کے دوران ساتھیوں یا باس کی جانب سے بھی اکثر تنقید کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ فوٹو: فائل

ہم میں ہر ایک کو اکثر تنقید کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ تنقید ہمارے دوستوں،گھر والوں یا دیگر متعلقہ افراد کی جانب سے ہوتی ہے۔

کام کے دوران ساتھیوں یا باس کی جانب سے بھی اکثر تنقید کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ عمومی رویہ یہ ہے کہ ہم تنقید کا اثر منفی لیتے ہیں۔ بہت دفعہ ردعمل کا اظہار غصے سے کرتے ہیں اور بات جھگڑے تک پہنچ جاتی ہے۔ تنقید زندگی کی ناقابل انکار حقیقت ہے۔ تنقید کا بردباری اور دانش مندی سے جواب دینا ایک مہارت ہے جو بہت کم لوگ استعمال میں لاتے ہیں ۔ ہم کی جانے والی تنقید کا محتاط جائزہ لئے بغیر ردعمل میں جلد بازی کرتے ہیں اور پھر اس کے تلخ نتائج بھگتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ تنقید ہمیشہ بری نہیں ہوتی۔ اسے اپنی توہین نہیں سمجھنا چاہیئے۔ بھارت کے معروف شاعر ڈاکٹر نواز دیو بندی کے اشعار ذہن میں آتے ہیں:

سفر میں مشکلیں آئیں تو ہمت اور بڑھتی ہے
کوئی جب راستہ روکے تو جراٗت اور بڑھتی ہے
میری کمزوریوں پر جب کوئی تنقید کرتا ہے
وہ دشمن کیوں نہ ہو اس سے محبت اور بڑھتی ہے

آج کے مصروف عہد میں عموماً اس مسئلے سے نمٹے کی تدابیر کی جانب ہمارا دھیان کم جاتا ہے ۔ نتیجہ معمولی اسباب کی بنیاد پر لڑئی جھگڑوں اور تعلقات کی تباہی کی صورت میں سامنے آتا ہے۔ آکسفورڈ یونیورسٹی کے استاد تیجوان پیٹنگر اس مسئلے کا حل یوں بتاتے ہیں۔

میں نے تنقید سے کیا سیکھا: ہر تنقید کی اگرچہ معمولی ہی سہی مگر کوئی بنیاد ضرور ہوتی ہے۔ تنقید منفی بھی ہوتی ہے جسے عام طور پر نکتہ چینی کہا جاتا ہے۔ اس میں ہمارے لئے سیکھنے اور بہتری کے لئے اقدام کا موقع پوشیدہ ہوتا ہے جسے کبھی نظر انداز نہیں کرنا چاہیے۔

نرم لہجے میں جواب دیجئے: تنقید کا جواب اسی لہجے میں دیا جائے تو بات تلخی کی طرف چلی جاتی ہے۔ اگر ہم تنقید کرنے والے کے لب لہجے میں جواب دے رہے ہیں تو اس کا مطلب ہے کہ ہم نے اس تنقید میں دی گئی تجویز کی جانب ذرا برابر توجہ نہیں دی بلکہ ایک دم ہم دفاعی پوزیشن میں آجاتے ہیں۔ مختصر یہ کہ ہمیں تنقید اور تنقید کے انداز میں فرق کرنا چاہیے۔

تنقید کو وقعت دیجیے: ہماری عمومی عادت ہے کہ ہم تعریف کو ہمیشہ وقعت دیتے ہیں۔ بہت مرتبہ تعریف میرٹ پر نہیں ہوتی لیکن ہم اسے انجوائے کرتے ہیں۔جبکہ تنقید کے معاملے میں ایسا نہیں کرتے۔ اگر ہم اپنی ذات اور کام میں ترقی چاہتے ہیں تو ہمیں تعمیری تنقید کی اہمیت کو محسوس کرتے ہوئے اس کی حوصلہ افزائی کرنی چاہئے۔

تنقید کو دل پر نہ لیجیے: یہ ایک بڑا مسئلہ ہے ۔ اگر آپ کے کسی کام مثال کے طور پر پکانے کے انداز پر تنقید کی جاتی ہے تو اسے دل پر لینے کی بجائے یہ سوچنا چاہئے کہ یہ ہماری ذات پر تنقید نہیں بلکہ اس کے ایک پہلو پر تنقید ہے جس میں مزید اصلاح کی گنجائش ہمیشہ باقی رہتی ہے۔ اسی طرح جب ہم دوسروں پر تنقید کرتے ہیں تو ہمارے پیش نظر ان کی ذات نہیں ہوتی بلکہ کچھ عادات اور رویے ہوتے ہیں۔ ظاہر ہے رویوں اور اصل شخصیت میں فرق ہے۔

غلط تنقید کو نظر انداز کیجیے: بعض اوقات ہمیں بے بنیاد تنقید کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ یہ انتہائی تکلیف دہ تجربہ ہوتا ہے۔ لیکن ہم مثبت رویے سے اس منفی تنقید سے نمٹ سکتے ہیں۔ سادہ اور آسان طریقہ ہے مکمل طور پر الگ اور خاموش رہئے۔ اگر ہم غلط تنقید کو جھگڑے کا موضوع بنائیں گے تو اس کا مطلب ہو گا کہ ہم نے اسے بلاوجہ اہمیت دی۔ نظر انداز کرنا زیادہ پرسکون متبادل ہے۔

جلدی جواب نہ دیں: تنقید سنیے مگر ایک دم جھٹ سے جواب نہ دیں ورنہ معاملہ بگڑ سکتا ہے۔ غصیلے جذبات کے سرد ہو جانے کے بعد نرمی سے اپنے ردعمل کا اظہار کریں اگر ضروری ہو تو۔

مسکرا دیجیے: مسکراہٹ اگرچہ وہ مصنوعی ہی کیوں نہ ہو ۔ یہ معاملے کو سدھار کی جانب لے جانے کا اہم ذریعہ ثابت ہو سکتی ہے۔ خاص طور پر منفی اور بے بنیاد تنقید کے جواب میں آپ کی مسکراہٹ دوسرے شخص کو اپنے لب لہجے اور تنقید پر نظر ثانی پر مجبور کر سکتی ہے۔

یہاں یہ بات ذہن میں رہے کہ اگر کام کی جگہ پر کسی سینئر کی جانب سے کوئی تنقید ہے تو اسے ہمیشہ سنجیدہ لینا چاہیے۔ وہ تنقید ضرور اپنے ساتھ اصلاح کا پہلو لئے ہوتی ہے ۔ ڈیل کارنیگی کے الفاظ ذہن میں رہنے چاہییں’’کوئی بھی بے وقوف نکتہ چینی، بے بنیاد مذمت اورشکایت کر سکتا ہے۔ اب یہ آپ کے خود پر قابو کی صلاحیت اور کردار پر منحصر ہے کہ آپ اسے سمجھتے ہوئے معاف کر دیتے ہیں۔‘‘

خلاصہ یہ کہ تنقید کا ردعمل ہم سب سے انتہائی دانش مندی کا تقاضا کرتاہے ۔ تعمیری تنقید ایک چھلنی کی مانند ہوتی ہے۔ یہ ہماری ذات کو دیگر ناپسندیدہ آلائشوں سے جدا کرنے میں ہماری مدد کرتی ہے۔ سماجی رابطوں کی ویب سائٹس خاص طور پر فیس بک پر ہر لمحہ لائیکس اور تعریفی تبصروں کی طلب ہمیں تعریف پسندی کا عادی بنا رہی ہے۔ جس کی واضح دلیل یہ ہے کہ بعض افراد تنقیدی تبصروں پر بھڑک اٹھتے ہیں اور ساتھ ہی اسے اپنے دوستوں کی فہرست سے نکال باہر کرتے ہیں۔

بہت سے مصنفین اور شاعروں کو اپنی نگارشات پر کی جانے والی تنقید پر جزبز ہوتے دیکھا گیا ہے۔ یہ رویہ تبدیلی کا متقاضی ہے۔ تنقید ہمیشہ تخریبی نہیں ہوتی، بہت مرتبہ یہ تعمیری بھی ہوتی ہے۔ خاص طور پر جب تنقید کسی صاحب مشاہدہ، عمر رسیدہ اور دانش مند شخصیت کی جانب سے ہو۔ اگر انصاف کی بات کی جائے تو تنقید تعمیر شخصی اور صلاحیتوں میں اضافے کا سب سے بڑا ذریعہ ہے۔ ہمیں پلٹ کر الزامی حملے میں توانائی اور وقت ضائع کرنے کے بجائے مثبت طرز عمل اختیار کرنا چاہیے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔