محبت کی شادی…

شیریں حیدر  اتوار 7 اکتوبر 2012
 Shireenhaider65@hotmail.com

[email protected]

کمرے میں اتنا سناٹا تھا کہ عیادت کے لیے آنے والوں کی سانسوں کی آوازیں بھی سنائی دے رہی تھیں۔ کمرہ اسپتال کا تھا۔

مریض کینسر کا شکار تھا اور ہمارا سب کا قریبی عزیز… کینسر جسم میں پھیل رہا تھا اور اس سے قبل جسم کا ایک اہم عضو جسم سے جدا کیا جا چکا تھا، علاج میں تاخیر اور بروقت مناسب تشخیص کے باعث یہ سب ہوا تھا۔ خاندان میں اور محلہ داروں نے جو دیسی ٹونا ٹوٹکا بتایا، اس پر عمل درآمد کیا گیا مگر مرض بڑھتا گیا، جوں جوں دوا کی اور اس روز ڈاکٹر نے ایک کے بعد دوسری ٹانگ کٹنے کی بری خبر سنائی تھی۔ تکلیف یا کمی تو اسی شخص کو ہوتی ہے جو مبتلا ہوتا ہے مگر ہم سب بھی ان کی حالت اور ڈاکٹر کی اگلی تشخیص کا سن کر غمزدہ تھے۔

’’اس اسپتال والے مجھے مار ڈالیں گے…‘‘ مریض کے بلکنے سے ہم سب کو دکھ ہوا، ’’کوئی مجھے یہاں سے نکال کر لے چلے…‘‘

’’مگر اس اسپتال کا انتخاب تو آپ لوگوں نے خود ہی کیا ہے نا!!‘‘ کسی نے سمجھایا، ’’اسپتال والے آپ کو گھر سے جا کر تو نہیں لائے نا!!!‘‘

’’کیا معلوم تھا کہ بسا اوقات ’’محبت کی شادی‘‘ گلے کا طوق بن جاتی ہے…‘‘ مریض نے تکلیف سے کراہ کر کہا، ’’اور یوں بھی جہاں کا دانہ پانی نصیب میں ہو وہاں انسان خود ہی پہنچ جاتا ہے!‘‘

’’دانہ پانی کا تو کیا خوب ذکر ہے، آپ کے مسئلے میں دوا دارو کو کہا جا سکتا ہے…‘‘ کسی نے بات کو ذرا ہلکا سا مزاح کو رنگ دینے کی کوشش کی تو کمرے کے اداس ماحول میں ایک ننھی سی مسکراہٹ کا جگنو جگمگایا۔ مسکراہٹ کی بھی انوکھی لو ہے…’’اگر میں اسپتال سے علاج کروانے سے انکار کر دوں اور یہاں سے چھٹی لے لوں تو کیا آپ میرا علاج کریں گے حکیم بابا جی؟‘‘ مریض نے ایک امید کے ساتھ ان بزرگ کو دیکھا جن کے بارے میں ابھی تک کسی کو علم نہ تھا کہ وہ حکیم صاحب ہیں۔

’’ارے ارے ایسا بھول کر بھی نہ کیجیے گا صاحب…‘‘ حکیم صاحب کے انداز میں اتنی منت تھی کہ فقط مریض کی ٹھوڑی کو ہاتھ لگانا باقی رہ گیا تھا، ’’ہر گز ایسا نہ کریں، بلکہ میں تو کہتا ہوں کہ سوچیں بھی نہیں!!!‘‘

’’مگر کیوں… آپ نے تو اتنا چٹا انکار کر دیا…‘‘ مریض کے بیٹے نے سوال کیا، ’’پہلے تو ابا ہر بیماری کا علاج آپ سے کرواتے تھے، ان کا تو آپ پر اتنا اعتقاد ہے کہ ان کے خیال میں اللہ نے موت کے سوا آپ کے ہاتھ میں ہر بیماری کے لیے شفا رکھی ہے!!!!‘‘

’’اللہ کا بڑا کرم ہے اور خاص احسان ہے مجھ پر!‘‘ حکیم صاحب نے کہا، ’’مگر بیٹا ہم حکیم اور ہومیو پیتھ ڈاکٹر وغیرہ ان ایلو پیتھ ڈاکٹروں کی نظروں میں پہلے ہی مطعون ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ ان کے پاس مریض اس وقت آتے ہیں جب ان کا مرض نا قابل علاج ہو چکا ہوتا ہے… حالانکہ میرے ایسے مریض بھی ہیں جنہوں نے ہر چھوٹی بڑی بیماری کے لیے مجھ سے ہی علاج کروایا اور عمر بھر انھوں نے کوئی ایلو پیتھ دوا کھانا تو درکنار چکھی تک نہیں!‘‘

’’اچھا …‘‘ حیرت بھری ایک آواز آئی، ’’ایسا ہے تو آپ نے ابا کو یہاں کیوں آنے دیا؟‘‘ مریض کے دوسرے بیٹے نے سوال کیا۔

’’اچھا سوال ہے…‘‘ حکیم صاحب مسکرائے، مسکراہٹ ہر پوچھے گئے سوال کا ان کہا جواب ہے۔

’’تو اس اچھے سوال کا جواب عطا فرمائیں قبلہ‘‘ انتہائی احترام سے کہا گیا۔

’’فوجی ہو نا…‘‘ حکیم صاحب نے کہا، ’’اس مشکل وقت میں باپ کی بیماری اور فرض کے دائرے میں چکر کاٹ رہے ہو، تمہیں جواب اسی زبان میں دینا پڑے گا، جو زبان تم آسانی سے سمجھ سکتے ہو!‘‘

سب ہمہ تن گوش ہو گئے۔

’’دیکھو یار… ہم سب کا یہی حال ہے، ہم سب اپنے اپنے ماتھوں پر رنگ برنگے لیبل لگا کر پھر رہے ہیں، کوئی عالم ہے کوئی فاضل، کوئی ڈاکٹر ہے کوئی حکیم، کوئی فوجی ہے تو کوئی سیاستدان، کوئی جج ہے تو کوئی وکیل، کوئی معمار ہے اور کوئی کسان … کوئی انجینئر ہے توکوئی استاد ہے اور کوئی ملاء، کوئی کسان ہے، کوئی لوہار، ترکھان، کمہار یا سنار… سب اپنے اپنے ہنر کے میدان کے بادشاہ ہیں۔ خرابی وہاں پیدا ہوتی ہے جب ہم سونے کے زیورات کی مرمت کے لیے معمار سے توقع کریں، وکیلوں کا کام جج کرنا شروع کر دیں اور ججوں کا وکیل… پولیس کا کام عوام کرنے لگے اور پولیس مجرموں کے فرائض سر انجام دینے لگے۔ سیاستدان فوج کے معاملات میں مداخلت کریں اور فوج ملک کے سیاسی نظام میں… استاد کھیت کھلیان سنبھالنا شروع کر دیں اور نظام تعلیم …‘‘ وہ رکے، ’’اس کا تو پہلے ہی اللہ حافظ ہے…‘‘

وہ جانے کیا کیا بول رہے تھے اور مجھے لگ رہا تھا کہ اس وقت ہم کسی اسپتال میں نہ تھے اور نہ ہی کسی مریض کے مسئلے سے بات شروع ہوئی تھی، مجھے لگا کہ وہ ٹیلی وژن کا کوئی ٹاک شو تھا مگر اس میں بولنے والوں کے منہ میں اپنی زبان تھی، وہ کسی کے ’’خریدے‘‘ ہوئے تھے نہ ان کے ضمیر کہیں گروی رکھے ہوئے تھے۔ بات کو حالات حاضرہ کے تناظر میں بلوچستان سے وابستہ کر لیں تو اندازہ ہو گا کہ کتنے لوگ ہیں، کتنے مفادات ہیں، کتنے کھیل ہیں اور کتنے کھلاڑی۔ ایک عضو بدن ہم کٹوا چکے… ایک اور رس رہا ہے… سازشوں کا زہر اتنا اندر تک اتر چکا ہے کہ ڈاکٹر (سیاست دان) اسے لاعلاج قرار دے رہے ہیں… عوام درد کی شدت سے چور متبادل قوتوں کی طرف دیکھتے ہیں… تو ان کا جواب کچھ حکیم صاحب جیسا ہی ہوتا ہے، جن لوگوں کو اپنے ہاتھوں سے ہم تاج پہنا کر تخت پر بٹھا چکے ہیں، اب انھیں بھگتیں۔

دورہء روس سے قبل آرمی چیف کا حالیہ بیان… آپ کی نظر سے بھی شاید گزرا ہو کہ آئینی حدود کے اندر رہتے ہوئے، بلوچستان کے مسئلے کا جو بھی سیاسی حل کیا جائے گا… فوج اس کی بھر پور حمایت اور تائید کرے گی! جب مرض اس حد تک بڑھ جاتا ہے تو انسان ہر علاج سے مایوس ہو کر ہر سہارے کو امید سمجھنا شروع کر دیتا ہے۔ اگر بلوچستان کا مسئلہ حل ہو سکتا ہے تو وہ حکومت کے ہاتھوں ہی ہو سکتا ہے اور اس وقت فوج سے مداخلت کی توقع اسی طرح ہے جس طرح ہم اسپتال کے علاج سے مایوس ہو کر دائیں بائیں مختلف ’’آپشنز‘‘ کو دیکھنا شروع کر دیں۔

یہ کام فوج کا نہیں، نہ ہی اس مسئلے کا بگاڑ فوج کے ہاتھوں ہوا ہے، اس مقام پر فوج کو مداخلت کی دعوت دینا یا اس اہم مسئلے کا ’’فوجی‘‘ حل تلاش کرنا اور سازش کے تابوت میں آخری کیل ثابت ہو سکتا ہے۔ وہ فوج جو اغیار کی آنکھوں میں اپنی صلاحیتوں کی بنا پر کھٹکتی ہے اور اسے نیست و نابود کرنے کی کاوشوں میں ان کے دن رات بسر ہوتے ہیں، اس سے برا کیا ہو سکتا ہے کہ انھیںاپنے فرض سے غافل کر کے ایسی خانہ جنگی میں اور اس میدان میں جھونک دیا جائے جہاں کئی لوگوں کی سیاسی اور نظریاتی دکانیں چمک رہی ہیں۔

موجودہ حکومت کے دور میں بارہا ایسے مواقع آئے ہیں جب لوگوں کی مایوس نظروں نے فوج کی طرف دیکھا ہے مگر بصارت اور بصیرت کا تقاضہ یہی ہے کہ فوج کو اس سارے mess سے دور رکھاجائے اور جو قوتیں اپنے ناپاک مقاصد کی خاطر بلوچستان میں گھناؤنے کھیل کھیل رہی ہیں انھیں سب کی نظروں کے سامنے بے نقاب کیا جائے خواہ وہ بیرونی طاقتیں ہیں یا ہمارے اپنے مفاد پرست لیڈر صاحبان…

حکیم صاحب نے جانے کیا کہہ کر اپنی بات کو ختم کیا اور مسکرا کر ٹوپی سر پر رکھ کر اللہ حافظ کہہ کر روانہ ہوئے، مسکراہٹ جو ہر تکلیف میں مرہم کی مانند ہوتی ہے… میں اپنی سوچوں میں ان کی گفتگو سن ہی نہ سکی تھی، ’’میرے ملک کا اللہ حافظ ہے…‘‘ میں مسکرا کر بڑبڑائی تھی!!!!!

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔