سمارٹ فون کے ٹھگ، ٹھگی وفراڈ کی نئی راہیں

ع محمود  اتوار 8 مارچ 2015
امریکا سے لے کر پاکستان تک فراڈئیے قیمتی موبائل اڑانے کے نت نئے طریقے ایجاد کرنے لگے۔ فوٹو: فائل

امریکا سے لے کر پاکستان تک فراڈئیے قیمتی موبائل اڑانے کے نت نئے طریقے ایجاد کرنے لگے۔ فوٹو: فائل

یہ چھ مہینے پہلے کی بات ہے، امریکی شہر رانچو کورڈوا میں واقع سامان بجھوانے و منگوانے کی کمپنی، فیڈایکس (FedEx) میں خوب چہل پہل تھی۔ لوڈر سامان اِدھر اُدھر منتقل کررہے تھے۔ اچانک ایک بڑا سا ڈبا لوڈر سے گرا اور گرتے ہی کھل گیا۔ اس میں آئی فون کے ڈبے بھرے تھے جو فرش پر دور تک بکھر گئے۔

فیڈایکس کے مقامی منیجر کو شک ہوا کہ یہ آئی فون چوری شدہ ہیں۔ اس نے سکیورٹی کمپنی، ویریزون (Verizon) کے تعاون سے اپیل کمپنی سے رابطہ کیا۔ کمپنی نے آئی فونوں کے نمبر نوٹ کیے اور کچھ ہی دیر بعد بتا دیا کہ وہ واقعی چوری شدہ ہیں۔

دو گھنٹے بعد برائن فلیچر وہاں آ پہنچا۔ وہ ریاست کیلی فورنیا کے محکمہ قانون سے وابستہ ’’ای کرائم یونٹ‘‘(e Crime Unit) کا جاسوس تھا۔ اس سرکاری قانونی ادارے سے متعلق جاسوس دنیائے نیٹ میں ہونے والے جرائم اور الیکٹرونک اشیا کی اسمگلنگ کی چھان بین کرتے ہیں۔

برائن فلیچر نے ڈبے کا جائزہ لیا، اس میں 37 آئی فون موجود تھے۔ اس نے ڈبے پر درج ہر سمارٹ فون کا سیریل نمبر کاغذ پر لکھا اور ڈبا پھر بند کردیا۔ اب انتظار ہونے لگا کہ یہ سامان کون لینے آتا ہے۔ اگلے دن نزدیکی شہر، سکارمینٹو کا رہائشی، واصف شہزاد اسے لینے آپہنچا۔

واصف نے ڈبا لیا اور اپنی منزل کی سمت چل پڑا۔ برائن اپنی کار میں اس کا تعاقب کرنے لگا۔ واصف رانچو کورڈوا کے مضافات میں واقع ایک فلیٹ تک پہنچا۔ اس میں چینی نژاد امریکی، شولن وین اپنی بیگم یوتنگ تان کے ساتھ مقیم تھا۔ واصف نے وہ ڈبا ان کے حوالے کردیا۔

مزید چھان بین سے انکشاف ہوا کہ شولن وین چین میں پیدا ہوا۔ پچیس سال کا تھا تو ہجرت کرکے امریکا چلا آیا۔ اب وہ سکارمینٹو میں موبائل اور سمارٹ فون فروخت کرنے والی دکان کا مالک تھا۔چھان بین سے معلوم ہوا کہ وہ کسی جرم میں ملوث نہیں۔ پھر بھی برائن کی چھٹی حس نے اسے بتایا کہ دال میں کچھ نہ کچھ کالا ضرور ہے۔ چناں چہ برائن کے آدمی جوڑے کی سرگرمیوں پر نظر رکھنے لگے۔

چند دن بعد شولن نے ایک شپنگ کمپنی جاکر چار بڑے ڈبے بک کرائے۔ ان ڈبوں کو بذریعہ بحری جہاز ہانگ کانگ جانا تھا۔ جب جوڑا ڈبے بک کرا کر چلا گیا تو برائن نے اپنے ایجنٹوں کی موجودگی میں انہیں کھولا۔ اندر سے190 بالکل نئے آئی فون برآمد ہوئے۔ 37 سمارٹ فونوں کے سیریل نمبر اس کاغذ پر درج نمبروں سے مل گئے جو برائن کے پاس تھا۔ یوں برائن کا شک درست ثابت ہوا کہ آئی فون ہانگ کانگ اسمگل کیے جارہے ہیں۔

اب یہ معلوم کرنا باقی تھا کہ مجرموں کا طریق واردات کیا ہے! اگلے چند ماہ میں ای کرائم یونٹ کے جاسوسوں نے بڑی بھاگ دوڑ کی۔ وہ ان جگہوں پر گئے جہاں سے آئی فون خریدے گئے تھے۔ پھر بینک ریکارڈ دیکھے اور مختلف کمپنیوں سے رسیدوں کی نقول حاصل کیں۔ یوں رفتہ رفتہ طریق واردات کی تصویر سامنے آگئی۔

http://www.express.pk/wp-content/uploads/2015/03/Smartphone-theif.jpg

ہوتا یہ کہ شولن وین واصف جیسے بیروزگار پاکستانی، بھارتی اور چینی نوجوانوں کو ملازمت دیتا۔ یہ نوجوان مختلف امریکی شہریوں میں بکھر جاتے۔ وہ پھر غریب اور بے گھر امریکیوں کو پکڑتے، انہیں اپنے دام میں پھنساتے اور اپنا ’’کام‘‘ نکلوالیتے۔’’کام‘‘ یہ تھا کہ غریب امریکی اپنے نام سے قسطوں پر کسی ادارے سے عموماً آئی فون حاصل کرلیتا۔ شولن کا کارندہ پھر اس امریکی کو 100 ڈالر دیتا اور آئی فون لے لیتا۔ یہ نیا نکور آئی فون پھر شولن کے پاس پہنچ جاتا۔

جب شولن وین کے پاس ڈیڑھ سو آئی فون جمع ہوجاتے، تو وہ انہیں ہانگ کانگ میں بیٹھے اپنے آدمی کو بھجوا دیتا۔ وہاں ایک آئی فون دو ہزارڈالر تک میں فروخت ہوتا۔ گویا اس انوکھے طریق واردات سے شولن بڑا بھاری سرمایہ کما رہا تھا۔

امریکی سراغ رسانوں نے دریافت کیا کہ 2014ء میں شولن نے صرف فیڈ ایکس سے 111 پارسل ہانگ کانگ بھجوائے۔ تخمینہ ہے کہ اس کی سالانہ آمدن ڈھائی لاکھ ڈالر (ڈھائی کروڑ روپے) تک جاپہنچی تھی۔ شولن نے بے گھر اور غریب امریکیوں کی وساطت سے جو آئی فون خریدے، اس کی کوئی قسط ادا نہیں ہوئی۔ ظاہر ہے، غریب شخص کہاں سے رقم ادا کرتا؟ ویسے بھی حقیقتاً انہوں نے آئی فون خریدا ہی نہیں تھا۔ چونکہ قسطیں ادا نہ کرنا امریکا میں جرم ہے لہٰذا شولن اور اس کی بیوی کو گرفتار کرلیا گیا۔ ان پر فراڈ اور منی لانڈرنگ کا مقدمہ چلا اور انہیں تین سال قید ہوگئی۔

منافع بخش کاروبار

درج بالا چشم کشا واقعے سے عیاں ہے کہ دور حاضر میں سمارٹ فون کی اسمگلنگ بڑا منافع بخش کاروبار بن چکا۔ اس کی وجہ یہی ہے کہ دنیا بھر میں سمارٹ فونوں کی تعداد تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ 2009ء میںیعنی صرف پانچ سال قبل کرہ ارض پر آباد محض ’’پانچ فیصد‘‘ لوگ سمارٹ فون رکھتے تھے۔ 2015ء میں ان کی تعداد ’’پینتیس فیصد‘‘ پہنچ جائے گی جو ڈھائی ارب بنتی ہے۔ یہ چین اور بھارت کی مجموعی آبادی کے برابر ہے۔

چونکہ پروسیر‘ چپیں اور سمارٹ فون کے دیگر آلات سستے ہو رہے ہیں۔ نیز نت نئی ٹیکنالوجیاں تیزی سے سامنے آ رہی ہیں۔ اسی باعث ماہرین کا کہنا ہے کہ 2017ء تک دنیا کی آدھی آبادی (ساڑھے تین ارب سے زیادہ انسان) سمارٹ فون کے مالک ہوں گے۔

آج اربوں لوگوں کے لیے سمارٹ فون اور موبائل روزمرہ زندگی کا ناگزیر حصہ بن چکے۔ ہم ان سے مختلف کام ہی نہیں کراتے بلکہ بطور تفریحی آلہ بھی استعمال کرتے ہیں۔ حتیٰ کہ پیغامات اور تصاویر کی صورت ہماری حسین یادیں اور جذبات و احساسات ان میں محفوظ ہوتے ہیں۔ غرض یہ ننھی مشینیں اربوں انسانوں کے واسطے چاندی سے کئی گنا قیمتی ہو چکیں۔

سمارٹ فون اور موبائلوں کی تعداد بڑھی‘ تو دنیا بھر میں یہ جدید آلات جرائم کا بھی نشانہ بننے لگے۔ کہیں چور سڑکوں پر چلتے لوگوں سے سمارٹ فون چھین کر فرار ہو جاتے ہیں۔ کہیں شولن وین جیسے لوگ اپنی ’’کاریگری‘‘ دکھاتے ہیں۔ امریکا سمیت مغربی ممالک میں قانون بڑا مضبوط ہے۔ لیکن وہاں بھی سمارٹ فون اور موبائل مجرموں کی گرفت سے نہ بچ سکے۔

امریکی رسالے ’’کنزیومر رپورٹس‘‘ کے مطابق پچھلے سال ’’اکتیس لاکھ‘‘ امریکی کسی نہ کسی طور اپنے سمارٹ فون سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ موبائل کی سکیورٹی فراہم کرنے والی امریکی کمپنی‘ لک آؤٹ کے ماہرین کہتے ہیں: ’’امریکا میںسمارٹ فون استعمال کرنے والے ہر 10 افراد میں سے ایک فرد کا فون چوری ہو چکا۔ اور ان میں سے ’’68فیصد‘‘ کبھی اپنا سمارٹ فون پھر نہیں دیکھ پاتے۔‘‘

http://www.express.pk/wp-content/uploads/2015/03/Smartphone-theif1.jpg

دنیا بھر میں سمارٹ فونوں کی بڑھتی چوریوں کے باعث فون کمپنیاں اب ہر نئے فون میں ’’ایکٹی ویشن لاک‘‘(Activation Lock) یا خودکار تالا متعارف کرا رہی ہیں۔ ادھر کئی امریکی ریاستوں میں ’’کل سوئچ لا‘‘(Kill-Switch Law) منظور ہوچکا۔ یعنی جوں ہی چور کوئی سمارٹ فون یا موبائل چرائے‘ فون کمپنیاں اسے لاک کر دیتی ہیں۔ وہ پھر قابل استعمال نہیں رہتا اور ردی بن جاتا ہے۔

تاہم کوئی سمارٹ فون امریکا سے باہر چلا جائے‘ تو پھر’’کل سوئچ لا‘‘ بے اثر ثابت ہوتا ہے۔ اسی لیے شولن وین کا کاروبار پھلا پھولا۔ وہ نئے آئی فون ہانگ کانگ بھجواتا اور وہاں ان میں نئے سم کارڈ ڈال کر انہیں قابل استعمال بنا لیا جاتا۔ اب صرف ہانگ کانگ کی حکومت ہی انہیں لاک کر سکتی تھی۔

دوسری طرف سمارٹ فونوں میں متعارف کرایا جانے والا ایکٹی ویشن لاک ایک سافٹ ویئر پروگرام ہے۔ اور ہیکر مسلسل سعی کرتے ہیں کہ اس پروگرام کا توڑ دریافت کر سکیں۔ مثلاً مئی 2014ء میں نامعلوم ہیکروں نے اعلان کیا کہ انہوں نے ایسا سافٹ ویئر ‘ ’’ڈول سی‘‘ (doulCi) ایجاد کر لیا ہے جو چرائے گئے آئی فون کا تالا توڑ اسے ری سیٹ کر کے نیا بنا دیتا ہے۔

مذیر براں ایکٹی ویشن لاک اسی وقت کام کرتا ہے جب سمارٹ فون فروخت کرنے والی کمپنی کی ویب سائٹ پر اس کا اکاؤنٹ بنا ہو، نیز چور دنیائے انٹرنیٹ میں گھومنے پھرنے لگے۔ لہٰذا چور کسی نہ کسی طرح چوری شدہ مہنگے سمارٹ فون کو قابل استعمال بنا لیتے ہیں۔

امریکا میں تو مجرموں نے نئے سمارٹ فون چرانے کا انوکھا طریقہ ڈھونڈ نکالا۔ وہ کاریں چراتے پھر انہیں سمارٹ فون بنانے والی کمپنیوں کے کسی گودام میں لے جاتے۔ وہاں موقع پاتے ہی کار سے ٹکر مار کر دروازے توڑتے اور نئے نویلے سمارٹ فون لوٹ کے فرار ہو جاتے۔ امریکی پولیس کی رپورٹ کے مطابق اب بیشتر شہروں میں مجرمانہ گروہ منشیات کا دھندا چھوڑ کر چوری شدہ سمارٹ فونوں کا کاروبار کرنے لگے ہیں۔

ایک اور مسئلہ یہ ہے کہ ’’کل سوئچ قانون‘‘ سمارٹ فون کو قابل استعمال نہیں رہنے دیتا‘ مگر اس کے قیمتی آلات بھی چور کے کام آتے ہیں۔ لہٰذا امریکا اور مختلف یورپی ممالک میں سمارٹ فونوں کے آلات کی بلیک مارکٹ جنم لے چکی۔ اس مارکیٹ میں سمارٹ فون کی مختلف اشیا مثلا ریم ‘ کیمرے‘ ہارڈ ڈسکیں‘ کارڈ وغیرہ سستے دادموں مل جاتے ہیں۔

حال ہی میں ریاست کیلی فورنیا کے ای کرائم یونٹ نے لاس اینجلس میں ایپل این بیری نامی سٹور میں چھاپا مارا۔ اسی سٹور میں سمارٹ فونوں کے حصّے فروخت ہوتے تھے۔ اسی طرح پچھلے سال ریاست مینیسوٹا میں مصطفی خاندان نامی مجرمانہ گروہ پکڑا گیا۔ ریاست میں تیرہ الیکٹرونکس سٹور اس خاندان کے افراد کی ملکیت تھے اوروہاں چوری شدہ سمارٹ فونوں کی وسیع پیمانے پر خرید و فروخت ہوتی تھی۔

سمارٹ فونوں کی چوری روکنے کے لیے موبائل ساز کمپنیاں جدید ترین سافٹ ویئر اور طریقے متعارف کرا رہی ہیں۔ دوسری طرف مجرم بھی ان طریقوں کے توڑ دریافت کرنے میں مگن ہیں۔ گویا یہ مقابلہ بھی خیر و شر کے معرکے کی طرح دائمی بنتا جا رہا ہے جو شیطان کے اعلان بغاوت سے شروع ہوا اور تا قیامت جاری رہے گا۔ اسی باعث بنی نوع انسان کو سمارٹ فون اور موبائلوں کی چوریوں‘ اسمگلنگ اور فراڈ کا عذاب برداشت کرنا پڑے گا۔

http://www.express.pk/wp-content/uploads/2015/03/Smartphone-theif2.jpg

فون کو بند کرائیے

وطن عزیز میں بھی سمارٹ فون اور موبائلوں کی چوریوں اور فراڈ کے عجیب وغریب طریقے سامنے آ رہے ہیں۔ پچھلے ایک ماہ کے دوران ایکسپریس میگزین کے ہمارے دو ساتھی‘ عبیداللہ عابد اور حسان خالد اُچکوں کے ہاتھوں اپنے موبائلوں سے محروم ہو چکے ۔ چونکہ اب ہر دوسرا پاکستانی موبائل یا سمارٹ فون رکھتا ہے لہٰذا مجرموں کے ہاتھ فوری کمائی کا گر ہاتھ لگ گیا۔

چوری چکاری کی روک تھام کے لیے پی ٹی اے (پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی) نے آئی ایم ای آئی (International Mobile Equipment Identity)نمبر کے ذریعے چوری شدہ فون بلاک کرنے کا طریقہ وضع کیا۔ کمپنی ہر سمارٹ فون اور موبائل کو یہ مخصوص نمبر الاٹ کرتی ہے۔ لہٰذا نیا فون خریدتے ہی یہ نمبر کسی کاغذ پر لکھ کر محفوظ کر لیںکیونکہ اس کے چوری ہونے پر آئی ایم ای آئی کی ضرورت پڑے گی۔ آپ اپنے فون پر #06#ڈائل کر کے اس کا یہ نمبر حاصل کر سکتے ہیں۔

جب بھی فون چوری ہو‘ پہلے پولیس میں اس کی رپٹ درج کرایئے۔ پھر پی ٹی اے کے ٹول فری نمبر: 0800-55055پہ اپنے موبائل یا سمارٹ فون چوری کی اطلاع دیجیے۔ آپ پی ٹی سی کی ای میل پر بھی یہ اطلاع بھجوا سکتے ہیں۔

کراچی کے شہریوں کو سی پی ایل سی (Citizen Police Liaison Committee) کی سہولت بھی حاصل ہے۔ وہ اس ادارے سے بھی رابطہ کر کے موبائل چوری کی اطلاع دے سکتے ہیں۔ اس قسم کا ادارہ پاکستان کے ہر شہر میں ہونا چاہیے تاکہ جرائم کی روک تھام مؤثر انداز میں ہو سکے۔

درج بالا اقدامات کے بعد صبر کیجیے اور امید رکھیے کہ آپ کا چوری شدہ فون واپس مل جائے گا۔ وہ نہ بھی ملے‘ تو ان اقدامات سے یہ یقینی ہو گا کہ چور آپ کا موبائل یا سمارٹ فون آزادی سے استعمال یا فروخت نہیں کر سکتا۔ یہ عمل دقت طلب اور کچھ پیچیدہ ہے‘ تاہم اس کا فائدہ ہوتا ہے۔ نیز بہ حیثیت ذمے دار شہری ہمارا فرض ہے کہ ہر جرم کی رپورٹ درج کرائیں۔ یوں جرائم کی روک تھام میں آسانی ہوتی ہے۔

مزید براں جب بھی آپ نیا خصوصاً سیکنڈ ہینڈ موبائل یا سمارٹ فون خریدئیے تو پی ٹی اے کی ویب سائٹ پہ دستیاب آئی ایم ای آئی سرچ میں اس کا نمبر ڈال کے تصدیق کر لیجیے کہ وہ چوری شدہ تو نہیں۔ آئی ایم ای آئی سرچ کا ایڈریس یہ ہے:

http://imei.pta.gov.pk

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔