- مینڈھے کی ٹکر سے معمر میاں بیوی ہلاک
- جسٹس اشتیاق ابراہیم چیف جسٹس پشاور ہائی کورٹ تعینات
- فلاح جناح کی اسلام آباد سے مسقط کیلئے پرواز کا آغاز 10 مئی کو ہوگا
- برف پگھلنا شروع؛ امریکی وزیر خارجہ 4 روزہ دورے پر چین جائیں گے
- کاہنہ ہسپتال کے باہر نرس پر چھری سے حملہ
- پاکستان اور نیوزی لینڈ کا پہلا ٹی ٹوئنٹی بارش کی نذر ہوگیا
- نو منتخب امیر جماعت اسلامی حافظ نعیم نے اپنے عہدے کا حلف اٹھا لیا
- تعصبات کے باوجود بالی وڈ میں باصلاحیت فنکار کو کام ملتا ہے، ودیا بالن
- اقوام متحدہ میں فلسطین کی مستقل رکنیت؛ امریکا ووٹنگ رکوانے کیلیے سرگرم
- راولپنڈی میں گردوں کی غیر قانونی پیوندکاری میں ملوث گینگ کا سرغنہ گرفتار
- درخشاں تھانے میں ملزم کی ہلاکت، سابق ایس پی کلفٹن براہ راست ملوث قرار
- شبلی فراز سینیٹ میں قائد حزب اختلاف نامزد
- جامعہ کراچی ایرانی صدر کو پی ایچ ڈی کی اعزازی سند دے گی
- خیبر پختونخوا میں بیوٹی پارلرز اور شادی ہالوں پر فکسڈ ٹیکس لگانے کا فیصلہ
- سعودی عرب میں قرآنی آیات کی بے حرمتی کرنے والا ملعون گرفتار
- سائنس دان سونے کی ایک ایٹم موٹی تہہ ’گولڈین‘ بنانے میں کامیاب
- آسٹریلیا کے سب سے بڑے کدو میں بیٹھ کر شہری کا دریا کا سفر
- انسانی خون کے پیاسے بیکٹیریا
- ڈی آئی خان میں دہشتگردوں کی فائرنگ سے بچی سمیت 4 کسٹم اہلکار جاں بحق
- سینیٹر مشاہد حسین نے افریقا کے حوالے سے پاکستان کے پہلے تھنک ٹینک کا افتتاح کردیا
شاید یہی ہمارا معیار ہے!
تاریخ گواہ ہے کہ دنیا میں آج تک کسی قوم نے علم کی طاقت کے بغیر ترقی نہیں کی، علم کی قوت ہی ساری دنیا کو سمرقند و بخارا اور کوفہ و بغداد کھینچ لائی تھی۔ یہ علم ہی تھا جس نے چین کے سفر کو رہبانیت سے زیادہ مقدس قرار دیا۔ علوم وفنون کی بنیاد پر آدھی دنیا پر حکومت کی گئی، اندلس کی پہاڑیاں جدیدعلوم کی روشنی کی بدولت دنیا کے افق پر چمکیں، علم نے ہی نیوٹن اور آئن اسٹائن کا نام رہتی دنیا تک امر کیا، سائنس اور ٹیکنالوجی نے ہی روس، چین، یورپ اور امریکہ کو سپر پاورز کی صف میں لا کھڑا کیا۔
جبکہ دوسری جانب طاؤس و رباب، بادہ و جام اور انسانی سروں کے مینار بنانے کے نشے میں چور ایک قوم نے اس سارے علم و حکمت کے انبار کوچند ساعتوں میں خاک میں ملا دیا، نایاب کتب کے ذخیروں کو دجلہ کی نذر کر دیاگیا۔ دجلہ کا شفاف پانی آب کی بجائے سراب کی شکل اختیار کرگیا اور آخر کارکتب کی سیاہی سے وہ اجلا نیلا پانی سیاہ ہوگیا۔ اس یلغار نے مدارس کو ویران کردیا، جن گلیوں میں گھوڑوں پر کتب لاد کر لائی جاتی تھیں وہی گلیاں انہیں کتب کے پھٹے اور گھوڑوں کی نعلوں کے نیچے روندے ہوئے اوراق سے بھری پڑی تھیں۔
پہلے زمانے میں علم پر حملہ آور ہونے کیلئے گھوڑوں کی پیٹھوں پر بیٹھا جاتا تھا اور آج کل ٹی وی اسٹوڈیوز میں بیٹھایا جاتا ہے۔ اقبالؔ نے کہا تھا ’طاؤس و رباب آخر‘ لیکن موجودہ میڈیا کی اکثریت نے اس مصرعے کو الٹا کردیا ہے یعنی طاؤس و رباب اول۔ اس کی ایک مثال لاہورکے پسماندہ خاندان سے تعلق رکھنے والی وہ دو خواتین ہیں جنہوں نے’ جسٹن بیبر‘ کا ایک گانا گایا اوردیکھتے ہی دیکھتے ان کی یہ وڈیو سوشل میڈیا پر پھیل گئی۔ ریٹنگز کا بھوکا میڈیا بھلا کیسے خاموش بیٹھتا؟ چند ہی دنوں میں ایک نجی ٹی وی چینل کے مارننگ شو میں وہ دونوں خواتین ایک نئے رنگ ڈھنگ میں سامنے آئیں اور انہوں نے وہی گانا جدید سازوانداز کے ساتھ دوبارہ گاکر شائقین کوخوب محظوظ کیا ۔
ہنس کی چال چلنے والا یہ کوّا، مطلب میڈیا، یہ کیوں بھول جاتا ہے کہ دنیا کی ہر تہذیب نے کسی نہ کسی انداز میں موسیقی کو ضرور زندہ رکھا بلکہ اس میں بھی جدت کی نئی راہیں ایجاد کیں، لیکن ان کی پہلی ترجیح کبھی بھی ساز نہیں رہے بلکہ تعلیم و ترقی، سائنس و ٹیکنالوجی اور ذہنی و جسمانی کھیل ان کی ترجیحات میں شامل رہے ہیں، جبکہ ہمارے ہاں سارا زور ساز پر بلکہ ’’ساز باز‘‘ پر ہے جس سے اصل ساز بھی محفوظ نہیں رہا۔
فوٹو؛ آل پاکستان ڈرامہ پیج فیس بک
جن دنوں لاہور کی ان دو خواتین کی وڈیو سوشل میڈیا پر گردش کررہی تھی، اُنہیں دنوں شمالی علاقہ جات سے تعلق رکھنے والے ایک بارہ تیرہ سال کے بچے کی وڈیو بھی منظرِ عام پر آئی، جس میں وہ طب کی مشکل اصطلاحات انتہائی مہارت سے انگریزی زبان میں سنا رہا ہے۔
وڈیو بنانے والے لڑکوں نے بہت سے سوالات بھی پوچھے جن کا وہ بڑی چابکدستی اور پُراعتماد انداز میں جواب دیتا رہا، لیکن میڈیا اپنی خر مستیوں میں مصروف رہا اور کسی کو توفیق نہ ہوئی کہ لاہور کی ان دو خواتین کی طرح اس باصلاحیت بچے کو بھی کوئی اپنے مارننگ شو میں لے آتا اور اس کی حوصلہ افزائی کرتا، بلکہ اربوں کمانے والے میڈیا کیلئے کیا مشکل تھا کہ اس بچے کو اعلیٰ تعلیم کیلئے مدد فراہم کرتے اور ملکی ترقی میں اپنا حصہ بھی ڈال دیتے؟ لیکن بھینس کے نالے میں گرجانے کی خبر کو بریکنگ نیوز بنانے والا میڈیا ایسا کیوں کرے؟ اِسے تو بات بات پر اور سنجیدہ امور پر بھی ہندوستانی گانے خبر کے ساتھ چلانے سے فرصت نہیں، عوام کی آواز ہونے کا دعویٰ کرنے والا میڈیا عوام کو بھاڑ میں جھونک کر ’’ہارس ٹریڈنگ اور لوٹا کریسی‘‘ میں ملوث سیاستدانوں کی ’’کیٹ فائٹ‘‘ ہی دکھاتا رہتا ہے۔
اس کے ساتھ ساتھ حکومتِ وقت کی بھی ذمہ داری ہے کہ وہ اس طرح کے باصلاحیت بچوں کی صلاحیتوں کو ضائع نہ ہونے دیں اور انہیں ملکی ترقی کیلئے صحیح معنوں میں استعمال کریں۔
بقول اقبالؔ ؛
حقیقت خرافات میں کھو گئی، یہ اُمّت روایات میں کھو گئی!
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جاسکتے ہیں
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔