آنچل پرچم بن تو گیا لیکن۔۔۔؟

رئیس فاطمہ  اتوار 8 مارچ 2015
fatimaqazi7@gmail.com

[email protected]

وہی پرانا راگ اور پرانے ساز۔ یوم خواتین کے نام پر سیمینار، ٹاک شوز، فائیو اسٹار ہوٹلوں اور آرٹس کونسلوں میں تقاریر، عورت کی حالت سدھارنے کا عزم اور نہ جانے کیا کیا۔ لیکن ان تمام تر مہنگی ترین تقریبات کا ایک عام پاکستانی عورت اور غریب، مزدور، محنت کش عورت کے مسائل سے ذرہ برابر بھی تعلق ہے؟ اس کا جواب چار سو فی صد ’’نہیں‘‘ میں ہے۔

کیونکہ یہ بھی وہی کہانی ہے کہ ’’چھ ماہ میں لوڈشیڈنگ ختم ہو جائے گی‘ دو سال میں بیروزگاری اور غربت ختم ہو جائے گی‘‘۔ ’ہم کراچی کو دوبارہ روشنیوں کا شہر بنائیں گے۔ ’’جلد ہی بھتہ خوری کی لعنت کو ختم کر دیا جائے گا‘۔ ’کسی کو بھی کرپشن کی اجازت نہیں دی جائے گی۔‘ ’دہشت گردوں سے آہنی ہاتھ سے نمٹا جائے گا‘۔ ’ امن و امان تباہ کرنے والوں سے آہنی ہاتھوں سے نمٹا جائے گا۔‘ ’آپ ہمیں پانچ سال پورے کرنے کی مہلت دیں‘ اور پھر بار بار یہی گردان۔ آخر کب تک؟ کیا میرے خدا اور اس کے پیارے رسولؐ کو کبھی ہم پر رحم نہیں آئے گا۔

ان ’’ٹوپی ڈرامہ‘‘ بازوں سے کبھی قوم کو نجات نہیں ملے گی؟ شاید نہیں۔ کیونکہ قوم متحد نہیں ہے۔ ہم سب اپنے اپنے ذاتی مفاد کے خول میں بند ہیں۔ جب تک اس عارضی خول میں عذاب الٰہی کی آگ نہیں لگتی، تب تک اندر والے خدا کو بھولے بیٹھے رہیں گے۔

بس یہی صورتحال یوم خواتین کے حوالے سے درپیش ہے۔ مہنگے مہنگے لباس، خوشبو انڈیلتی، آنچل شانوں پہ سرسراتی، جینز اور ٹی شرٹ میں ملبوس خود کو ماڈرن ظاہر کرتی، اسمبلی اور اسمبلی سے باہر سیاست دانوں، لیڈروں، صنعت کاروں اور این جی اوز چلانے والی غیر ملکی ایجنڈے کی تکمیل کرنے والی یہ عورتیں بعض اوقات برملا سگریٹ کے کش لیتی جب روسٹرم پہ آ کے اپنے اپنے لیڈروں اور پارٹی کی پروموشن کے لیے سرکاری خرچ پر ’’ہائی ٹی‘‘ اڑاتی غریب عورت کی قسمت بدلنے کی بات کرتی ہیں، تو سڑک کے کنارے بیٹھی پھل اور سبزی فروش عورت کا جی چاہتا ہو گا کہ ان کا منہ نوچ لے اور جب تقریبات کے اختتام پر باوردی ڈرائیور ان جعلی دو نمبر کی مغرب زدہ عورتوں کے لیے ایئرکنڈیشن گاڑیوں کے دروازے کھولتے ہیں تو وہیں بس، ویگن اور چنگچی رکشوں کے انتظار میں کھڑی ملازمت پیشہ خواتین سوچتی ہیں کہ کیا یوم خواتین ان عورتوں کی پبلسٹی کے لیے منایا جاتا ہے؟

یا یہاں بھی برسر اقتدار پارٹیاں اپنے قصیدہ لکھنے والوں، لوہے کو سونا ثابت کرنے والوں اور بلڈر مافیاز کو نجات دہندہ ثابت کرنے والوں کی خبریں اور بڑی بڑی تصاویر شایع کرنے والوں کو انعام و اکرام سے نوازنے کے صدقے میں انھیں لگژری فلیٹ، گاڑی اور کسی بھی ٹی وی چینل کا اینکر پرسن یا کسی ادارے کا چیئرمین بنا دیا جاتا ہے؟ کبھی کسی نے اس بات کا جواب ڈھونڈنے کی کوشش کی کہ اس ملک میں جیلوں میں بند جرائم پیشہ عورتوں کے بارے میں صحیح اعداد و شمار جمع کرے کہ کتنی عورتوں کو صرف دشمنی اور جائیداد کے جھگڑوں میں، پولیس والوں کو ساتھ ملا کر، بلاوجہ جیل میں ڈالا گیا ہے؟

کیا کسی صاحب کی چہیتی پہلی، دوسری، تیسری بیوی یا منظور نظر محبوبہ نے سوچا کہ وہ کس منہ سے خواتین کی حالت سدھارنے کی بات کر رہی ہے؟ کیا اس ملک کے بڑے شہروں میں جہاں خواتین کی اکثریت بسوں اور چنگچی رکشوں میں سفر کرتی ہے۔ بسوں میں ان کے لیے کتنی نشستیں مخصوص کی گئی ہیں؟ جن پر کنڈیکٹر مردوں کو بٹھا لیتا ہے؟ کبھی کسی سماجی کارکن، اسمبلی کی ممبر یا ڈپٹی اسپیکر نے اس بات پہ توجہ دی کہ کراچی اور لاہور میں صبح دوپہر اور شام کے اوقات میں مختلف روٹس سے صرف خواتین کے لیے بسیں چلائی جائیں؟ نہیں۔

ایسا تو کچھ بھی نہیں۔ کیونکہ 8 مارچ کو تقریریں کر کے اپنی اپنی تصویریں چھپوانے والیوں کا ان مسائل سے کوئی تعلق نہیں۔ محض خانہ پری اور اپنے لیڈر کی مدح سرائی کے لیے لکھی ہوئی تقریر پڑھ کر جانے والیوں کا بھلا اس ساری کھیکڑ سے کیا واسطہ؟ اور سب تو چھوڑیے آج تک ان جرائم پیشہ، اخلاق باختہ عورتوں کے خلاف بھی کوئی کارروائی نہیں ہوئی، جو چوراہوں اور سگنلوں پہ کھڑی برملا عصمتی اڈے موبائل فونز سے چلا رہی ہیں، نہ ان بیشتر بیوٹی پارلرز اور نام نہاد مساج گھروں کے خلاف کوئی کارروائی ہوئی جو دراصل فحاشی کے اڈے ہیں اور ان کی وجہ سے جائز کاروبار کرنے والے بھی بدنام ہو رہے ہیں۔

خواتین کے دن منانے والوں نے کبھی سوچا کہ بینک جانے، پنشن لینے اور بل جمع کرنے کے لیے خواتین کے ساتھ کتنا تکلیف دہ رویہ رکھا جاتا ہے۔ چند ایک خاندانی شریف حضرات کے جو اپنی وراثت کی وجہ سے خواتین سے مہذب انداز میں بات کرتے ہیں، باقی کا رویہ دیکھ لیجیے۔ لٹھ مار لہجے ہوتے ہیں۔

نہ بیٹھنے کی جگہ نہ علیحدہ قطار، مرد حضرات کا بس چلے تو وہ خواتین کو کسی بھی کاؤنٹر پہ کھڑا نہ ہونے دیں۔ اچھے اخلاق اور اپنی ذمے داریوں کو بخوبی سمجھنے اور نبھانے والے بینک منیجر انگلیوں پہ گنے جا سکتے ہیں۔ سرکاری نوکری کا ایک فائدہ یہ بھی ہے کہ خواہ کچھ بھی کر لو تنخواہ تو ملنی ہی ہے۔

بہت سے لوگوں نے یہ مناظر مختلف بینکوں میں کثرت سے دیکھے ہوں گے کہ مختلف یوٹیلیٹی بلز اور پراپرٹی ٹیکس وغیرہ کی ادائیگی کے لیے عمر رسیدہ، بیمار اور مجبور خواتین کس کس طرح کا عذاب سہتی ہیں۔ میں نے خود کئی بار یہ مناظر دیکھے ہیں۔ اور بہت سی خواتین نے مجھ سے بینک کے عملے کی شکایت بھی کی۔ لیکن وہی رفتار بے ڈھنگی جو پہلے تھی سو اب بھی ہے۔

آج بھی 8 مارچ ہے اور خواتین کا عالمی دن منایا جا رہا ہے۔ پاکستان میں اس حوالے سے جو تقریبات ہوں گی ان کی تفصیل کل کے اخبار میں پڑھ لیجیے گا۔ وہی منظر نامہ ہو گا، جس کا میں ذکر کر چکی ہوں۔ پاکستانی عورت کی قسمت بدلنے والی تقاریر اور ان کو پڑھنے والیوں کی تصاویر بھی ہر چینل سے ضرور دیکھیے گا۔ اور یاد کیجیے گا مجازؔ کو کہ خواتین نے آنچل کو پرچم تو بنا لیا لیکن یہ آنچل پرچم بن کر فضا میں کہیں دھجی دھجی ہو کر بکھر گیا۔

آنچل نے پرچم بن کر خواتین کے لباس کو مختصر کیا، آزادی کے نام پر نسوانی تقدس کو پامال کیا اور محفلیں سجائیں۔ کبھی عورتوں کی آزادی کے نام پر، کہیں محنت کش عورت کے مسائل پر۔ لیکن کیا عورت کی قسمت بدلی؟ یعنی ایک عام پڑھی لکھی ورکنگ وومن کی یا مزدور عورت کی؟

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔