لباس…

شیریں حیدر  اتوار 8 مارچ 2015
 Shireenhaider65@hotmail.com

[email protected]

کوئی چڑیا کا بچہ بھی گھونسلے سے گرے تو دکھ ہوتا ہے۔ گھر ٹوٹنا تو ایک اور بھی بڑا سانحہ ہے، گھر بڑے ارمانوں سے بسائے جاتے ہیں، جوڑے آسمانوں پر بنتے ہیں اور ٹوٹنا بھی آسمانوں پر ہی لکھا ہوتا ہے مگر کتنے چاؤ اور چونچلوں سے دونوں طرف سے والدین اپنے بچوں کے لیے ڈھونڈ ڈھونڈ کر رشتے تلاشتے ہیں، لڑکی پسند کرنے سے، (عموماً لڑکی پسند کرنا ہی کہا جاتا ہے۔

لڑکے پسند کرنا نہیں کہا جاتا، کیونکہ لڑکوں کو ہمارے ہاں ہر معاملے میں اعلی، چنیدہ اور پسندیدہ مخلوق سمجھا جاتا ہے) سو لڑکی پسند کرنے سے لے کر، اس کی چھان بین کرنے اور بیاہ کے دوران عموماً کافی وقفہ رکھا جاتا ہے، مہینوں، یہاں تک کہ سالوں۔ اس عرصے میں آج کل تو لڑکا اور لڑکی آپس میں ملتے بھی ہیں یا کم از کم رابطہ ضرور ہوتا ہے، سو وہ ایک دوسرے کے بارے میں شادی سے قبل اچھی طرح جانچ چکے ہوتے ہیں۔

شادی ہوتی ہے، دونوں فریقین کی طرف سے بڑھ چڑھ کر خوشی کا اظہار ہوتا ہے، پھر کیا ہو جاتا ہے کہ شادیاں ہمارے ہاں تیزی سے اور بہت کم عرصے میں ناکام ہونے لگی ہیں؟ نتیجہ علیحدگی اور انتہائی صورت میں طلاق پر منتج ہوتا ہے، یہی سوال میں صبیحہ سے پوچھ رہی تھی،چھ ماہ کے عرصے میں اس کے بیٹے اور بہو میں تعلقات اس حد تک بگڑ گئے تھے کہ معاملہ لڑکی کی طرف سے خلع کے مطالبے تک پہنچ گیا تھا۔

’’ نو دولتیوں کی بگڑی ہوئی اولاد تھی، اسے ذرا ذرا سی بات کی شکایت اپنی ماں سے لگانے کی عادت تھی، میاں بیوی کے درمیان سو معاملات ہو جاتے ہیں، عامر مجھے بتاتا رہتا تھا کہ کس دن وہ کیا کیا مطالبات کرتی تھی اور کس دن اس کا موڈ کس بات پر بگڑا تھا۔ میرا بیٹا مجھ سے بہت پیار کرتا ہے اور مجھ سے اس نے کچھ نہیں چھپایا‘‘ صبیحہ نے مجھے بتایا۔

’’ مگر ایسی کیا بڑی بات ہو گئی کہ اس نے خلع کا مطالبہ کر دیا ہے ‘‘ میں نے سوال دہرایا۔

’’ تمہیں تو علم ہے کہ آج کل لڑکوں اور لڑکیوں میں دوستیاں عام ہیں، سکولوں ،کالجوں اور یونیورسٹیوں میں پڑھتے ہیں تو کیا وہاںسے نکل کر اپنے تمام دوستوں سے قطع تعلق کر لیں؟ ‘‘ صبیحہ نے جذباتی انداز میں کہا، ’’ میں نے تو کہا عامر سے کہ اس کے منہ پر طلاق مارو، اسے خلع کرنے کے لیے مقدمہ کرنے کی ضرورت کیوں پڑے، جب ہم نے ہی اسے نہیں رکھنا تو! ایسی بے حیا لڑکی، جگہ جگہ اپنے خاوند کی چھوٹی چھوٹی خامیوں کو عیاں کرتی پھرتی ہے۔

قرآن پاک کی سورۃ البقرہ کی آیت نمبر 187 میں خود اللہ تعالی نے ارشاد فرمایا ہے کہ میاں بیوی ایک دوسرے کا لباس ہیں … جب لباس ہی دوسرے کوچھپانے سے قاصر ہو تو ، تم ہی بتاؤ کیا ایسی لڑکیاں رکھنے کے قابل ہوتی ہیں ؟ ‘‘ صبیحہ کا لہجہ ایسا تھا جیسے اس نے کوئی کام والی رکھی تھی جسے وہ اب فارغ کر دینا چاہتی تھی۔

’’ السلام علیکم آنٹی!!‘‘ خرم جاگ کر آگیا تھا، میں نے وقت دیکھا، دس بج رہے تھے۔

’’ وعلیکم السلام بیٹا! ‘‘ میں نے سلام کا جواب دیا، ’’ کیا بات ہے بیٹا، کام پر نہیں جانا کیا آج؟ ‘‘ میں سمجھی تھی کہ گھر پر کوئی نہیں ہو گا سوائے صبیحہ کے۔

’’ جی آنٹی بس ابھی ناشتہ کر کے نکلوں گا!!‘‘ اس نے جواب دیا۔

’’ اتنا لیٹ کون سا دفتر شروع ہوتا ہے؟ ‘‘ میں نے حیرت سے سوال کیا۔

’’ دفتر تو ساڑھے آٹھ شروع ہوتا ہے آنٹی مگر میں رات دیر تک دوستوں کے ساتھ پارٹی پر تھا تو دیر سے سویا اور صبح آنکھ ہی نہیں کھلی ‘‘ جانے کون سا دفتر تھا جہاں جاتے ہوئے اسے یہ شرمندگی بھی نہ تھی کہ وہ گھنٹوں لیٹ تھا، صبیحہ ناشتہ بنانے چلی گئی۔’’ بہت دکھ ہوا بیٹا تمہارے اور تمہاری بیوی کے مابین تعلقات کی خرابی کاسن کر‘‘ میں نے افسوس کا اظہار کیا، ’’ کوئی افہام و تفہیم کی گنجائش نہیں؟ ‘‘

’’ مشکل ہے آنٹی، وہ ایڈجسٹ ہی نہیں کر پائی میرے لائف سٹائل میں،اسے میری ہر ہر بات پر اعتراض ہے، دوستوں پر، سگریٹ پینے پر، دوست مل بیٹھتے ہیں تو تھوڑا پینا پلانا بھی چلتا ہے، دیر سے جاگنے پر، دفتر سے کئی بار چھٹی کر لیتا ہوں تو اسے میرا گھر بیٹھنا بھی برداشت نہیں ہوتا، لڑ پڑتی ہے، مجھے ہاتھ اٹھانے پر مجبور کر دیتی ہے، مجھ سے غصہ قابو نہیں ہوتا تو وہ بھی اپنی زبان چلاتی ہے۔

کہتی ہے کہ میرے ماں باپ کو برا بھلا مت کہو، اس روز ذرا زور سے میرا ہاتھ چل گیا تو جا کر میکے بیٹھ گئی ہے، اپنے ماں باپ اور بھائیوں کو جا کر میری زیادتیوں کے افسانے بنا بنا کر سنائے، اپنے زخم اور نیل دکھائے کہ میں نے اس پر تشدد کیا ہے، انھوں نے مجھے پولیس کیس کی دھمکی دی اور طلاق کا مطالبہ کیا۔

میں نے بھی اس سے کہا کہ طلاق نہیں دینے والا، اماں تو کہتی ہیں کہ فوراً طلاق دو اسے، مگر میں بھی اسے تگنی کا ناچ نچاؤں گا!!‘‘ وہ اپنی صفائی اور معصومیت کی داستان سنا رہا تھا، میں اس کا چہرہ دیکھ رہی تھی، تازہ شیو کیا ہوا چہرہ، بظاہر کتنا خوبصورت، ہزاروں لڑکیاں ایسے چہروں کی ظاہری خوبصورتی پر مرتی ہوں گی، مگر اندر سے کتنا بد صورت تھا وہ۔ ناشتہ کر کے وہ نکل گیا اور میں صبیحہ کے ساتھ تنہا رہ گئی۔

’’ تم نے ابھی قرآن پاک کی ایک آیت کا حوالہ دیا ہے نا صبیحہ ‘‘ میں نے چائے کا گھونٹ لے کر آغاز کیا، ’’ میاں بیوی ایک دوسرے کا لباس ہیں!!!‘‘

’’ ہاں ! ہاں! تم نے بھی پڑھی ہو گی وہ آیت ‘‘ اس نے تائید کی۔

’’ پڑھتے تو ہم سب ہیں مگر مسئلہ یہ ہے کہ اس کو سمجھنے میں ہم فقط وہ سمجھتے ہیں جتنا ہم سمجھنا چاہتے ہیں اور جو کچھ ہمارے حق میں جاتا ہے صرف اسی پر عمل کرتے ہیں ‘‘ میں نے نرم لہجے میں کہا۔

’’میں سمجھی نہیں؟؟ ‘‘ اس نے حیرت سے مجھے دیکھا۔

’’ جب ہم ماں باپ کے اولاد پر حقوق کی بات کرتے ہیں تو عموماً ہمارا مطلب ہوتا ہے کہ بیٹے اور بہوئیں، کبھی ہم نے ایسا نہیں کہا کہ بہو اپنے والدین کا بھی خیال رکھ سکتی ہے یا داماد بھی اپنے ساس سسر کا خیال رکھ سکتا ہے جیسے ہم بہو پر ساس سسر کا خیال رکھنا لازم قرار دیتے ہیں!!‘‘ میں نے نشتر تھام لیا تھا۔

’’ ہے تو ایسا ہی ‘‘ اس نے کہا، ’’ جب ایک لڑکی بیاہ کر نئے گھر آتی ہے تو پرانے سب رشتے ناطے بھلا کر نئی زندگی کا آغاز کرتی ہے ‘‘

’’ ایسا قرآن میں کہاں کہا گیا ہے کہ لڑکی ہی بیاہ کر سسرال جائے اور وہ اپنے تمام رشتوں کو بھلا کر نئے رشتوں کو اپنائے، کیا یہی فارمولہ ہم اپنی بیٹیوں کے لیے بھی اپناتے ہیں؟ ‘‘ اس کے پاس اس کا جواب نہ تھا، ’’ تم نے خود بتایا ہے مجھے تھوڑی دیر پہلے کہ تمہارا بیٹا تم سے کچھ نہیں چھپاتا، وہ ہر بات تمہیں بتاتا ہے۔

بہو کس بات پر ناراض ہے، کیا مطالبہ کر رہی ہے، وہ ہر روز تمہیں بتاتا ہے، اگر تمہارا بیٹا تمہیں سب کچھ بتاتا ہے تو وہ تمہارا اور اس کا پیار اور اس کا تم پر اعتماد ہے… مگر وہی بات جب بہو اپنے ماں باپ یا بھائیوں کو بتا رہی ہے تو وہ تمہارے قانون کی کتاب میں جرم قرار پاتی ہے‘‘

( خواتین کے عالمی دن کے حوالے سے خصوصی کالم )

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔