حکومت نے خواتین کے حقوق کیلیے موثر اقدامات کیے، ایکسپریس فورم

اجمل ستار ملک  اتوار 8 مارچ 2015
’’خواتین کے عالمی دن‘‘ کے حوالے سے منعقدہ ایکسپریس فورم میں صوبائی وزیر حمیدہ وحیدالدین  خیالات کا اظہار کر رہی ہیں جبکہ فوزیہ وقار، فائزہ ملک، آئمہ محمود اور ممتاز مغل ہمراہ بیٹھے ہیں ۔فوٹو : ایکسپریس

’’خواتین کے عالمی دن‘‘ کے حوالے سے منعقدہ ایکسپریس فورم میں صوبائی وزیر حمیدہ وحیدالدین خیالات کا اظہار کر رہی ہیں جبکہ فوزیہ وقار، فائزہ ملک، آئمہ محمود اور ممتاز مغل ہمراہ بیٹھے ہیں ۔فوٹو : ایکسپریس

لاہور: پنجاب حکومت خواتین کی فلاح و بہبود کیلیے تشدد کے خلاف مراکز، فری ہیلپ لائن، بحالی مراکز کے قیام سمیت متعدد اقدامات کر رہی ہے، خواتین کا ملازمتوں کا کوٹا 15فیصد کردیا گیا ہے۔

خواتین کے حقوق کے حوالے سے کام کرنے میں حکومت کی نیت ٹھیک نہیں ہے، خواتین کی فلاح و بہبود کیلیے بجٹ میں اضافہ کرنا چاہیے، حکومت کی جانب سے صرف اعلانات کیے جاتے ہیں جبکہ قوانین پرعملدرآمد نہیں ہو رہا، ان ملے جلے خیالات کا اظہار سول سوسائٹی، حکومتی و اپوزیشن جماعتوں سے تعلق رکھنے والی شخصیات نے ’’خواتین کے عالمی دن ‘‘ کے حوالے سے منعقدہ ایکسپریس فورم میں کیا جبکہ احسن کامرے نے معاونت کی، صوبائی وزیر برائے ویمن ڈیولپمنٹ پنجاب حمیدہ وحید الدین نے کہا کہ خواتین کے عالمی دن کے موقع پر شہباز شریف خواتین کی فلاح و بہبود کیلیے آئندہ پروگرام کا اعلان کریں گے، مسلم فیملی لا، ریونیو ایکٹ اور چائلڈ میرج کے حوالے سے بھی ترمیم کردی گئی ہے۔

وائلنس اگینسٹ ویمن سینٹر قائم کیے جا رہے ہیں جہاں 24 گھنٹے کے اندر اندر ڈی این اے ٹیسٹ اور میڈیکل ہوگا اور ایف آئی آر درج کی جائے گی، پنجاب میں خواتین کا ملازمتوں میں کوٹا 5 فیصد سے بڑھا کر 15فیصد کردیا گیا ہے، لوکل گورنمنٹ آرڈیننس میں بھی ترمیم لا رہے ہیں جس کے بعد یونین کونسل کی سطح پر خواتین کی نمائندگی33فیصد جبکہ ڈسٹرکٹ کونسل میں 22 فیصد ہوگی، پنجاب کے 36 اضلاع میں دارالامان قائم ہیں، اب بحالی مراکز بھی قائم کیے جائیں گے۔

2014 میں پنجاب کمیشن آن اسٹیٹس آف ویمن کا بل پاس ہوا، خواتین کے حوالے سے جتنے بل پاس ہوئے ہیں ان پر عملدرآمد کروانا اس کمیشن کی ذمے داری ہے، پالیسیوں کے حوالے سے مانیٹرنگ سیل بھی قائم کیے جا رہے ہیں، خواتین پر جسمانی و نفسیاتی تشدد اور انٹرنیٹ و دیگر ذرائع سے انھیں ہراساں کرنا جرم قرار دیا جائے گا، کمیشن آن اسٹیٹس آف ویمن پنجاب کی چیئر پرسن فوزیہ وقار نے کہا کہ پنجاب حکومت خواتین کے حقوق و تحفظ کے حوالے سے قانون سازی کر رہی ہے۔

اس وقت یہ کمیشن صرف پنجاب اور خیبر پختونخوا میں ہے جبکہ بلوچستان اور سندھ میں ابھی تک کمیشن قائم نہیں ہوا، پنجاب میں فیصلہ ساز باڈی میں خواتین کی نمائندگی 33 فیصد کر دی گئی ہے، رکن صوبائی اسمبلی اور پیپلز پارٹی کی رہنما فائزہ ملک نے کہا کہ خواتین کے حوالے سے کام کرنے میں حکومت کی نیت ٹھیک نہیں ہے اور یہاں عجلت میں ہی بل پاس کر لیے جاتے ہیں، مسلم لیگ (ن) خواتین کو پیچھے رکھنا چاہتی ہے، لوکل باڈیز میں خواتین کی نمائندگی بڑھانی چاہیے، ورکنگ ویمن آرگنائزیشن کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر آئمہ محمود نے کہا کہ خواتین کے حوالے سے حکومت کے اقدامات غیر تسلی بخش ہیں، فیصلہ سازی میں خواتین کی نمائندگی 33 فیصد ہے جبکہ بحیثیت ورکر عورت کی کوئی پہچان نہیں ہے۔

حکومت کو گھروں میں کام کرنے والی خواتین، زراعت سے تعلق رکھنے والی خواتین کے حوالے سے بھی قانون سازی کرنی چاہیے، سالانہ 3 ہزار خواتین کی موت دوران زچگی ہوتی ہے، اس کے علاوہ 70ہزار خواتین گھریلو تشدد کا شکار ہو رہی ہیں، قانون ساز اداروں میں خواتین کی تعداد بڑھانی چاہیے، عورت فائونڈیشن کی نمائندہ ممتاز مغل نے کہا کہ حکومت نے 12ء اور 14ء میں خواتین کی فلاح و بہبود کیلیے بہت سے اعلانات کیے، ان کی سوچ اچھی ہے لیکن افسوس ہے کہ ان پر عملدرآمد نہیں ہوا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔