اسلام اور قومیت

اوریا مقبول جان  پير 9 مارچ 2015
theharferaz@yahoo.com

[email protected]

بحیثیت مسلمان آپ دنیا کے کسی بھی ملک میں رہتے ہوئے آپ کسی بھی قسم کا مذہبی، خاندانی، معاشرتی اور فلاحی کام کر رہے ہوں، آپ نے اس کام کے فروغ کے لیے انجمن بنائی ہو، آپ پر کوئی اعتراض نہیں کرے گا۔ آپ پانچ وقت جوق در جوق نماز پڑھیں حتیٰ کہ جمعہ کو صفیں مسجد کے باہر بھی بچھا لیں، آپ میلاد کانفرنس کرائیں یا توحید کانفرنس، آپ دس دن محرم کی مجالس منعقد کروائیں اور ربیع الاول کا پورا مہینہ نعت خوانی کی مجالس کا اہتمام کریں، رمضان کی تراویح ہو یا عید کی نمازیں، آپ کے تمام اعمال ایک مذہبی رسم کے طور پر مغرب کے ہر گلی کوچے میں قابل قبول ہیں۔

اس لیے کہ جدید مغربی تہذیب، مذہبی عبادات کو بھی صدیوں سے اختیار کردہ ثقافتی رسوم کے طور پر سمجھتی ہے، اسی لیے مسلمانوں کی مساجد، سکھوں کے گوردوارے، ہندوؤں کے مندر اور یہودیوں کے سائنا گوگ وہاں کی اکثریت یعنی عیسائیوں کے گرجوں کے ساتھ ساتھ نظر آتے ہیں۔ لیکن یہ تمام ممالک سب کچھ اس وقت برداشت کرتے ہیں یا اس کی اجازت دیتے ہیں جب آپ خود کو ان کی قومیت میں ضم کر لیں۔ آپ جرمن، برٹش، فرنچ یا نارویجن مسلمان کہلانے لگیں۔ آپ کا اس سرزمین، ان کے سیاسی نظام، ان کے معاشی و معاشرتی اصولوں اور ان کے پاسپورٹ سے تعلق اور احترام کا رشتہ قائم ہو جائے۔ اس کے بعد تو حجاج کرام کے قافلے وہاں سے چلتے ہیں، ان ممالک کے سفارت خانے اپنے مسلم ہم وطنوں کے لیے سہولیات بہم پہنچاتے ہیں۔

بڑے بڑے ٹور آپریٹر وہاں اپنا قانونی کاروبار کرتے ہیں اور لوگوں کو حج اور عمرہ کے لیے بھیجتے ہیں۔ آپ کسی بھی قسم کی رفاہی تنظیم بنا لیں، وہاں سے فنڈ اکٹھا کریں، سیلاب زدگان، زلزلہ زدگان، یتیموں اور بیواؤں کی مدد کے لیے پیسے اکٹھا کر کے مسلمان ملکوں کو بھیجیں، آپ پر کوئی انگلی نہیں اٹھائے گا۔ لیکن اس سارے کرم اور مہربانی کے باوجود یہ دو الفاظ دنیا کے کسی بھی ’’مہذب‘‘ ملک اور مغربی معاشرت سے برداشت نہیں ہوتے، ایک خلافت اور دوسرا جہاد ہے۔ یہ دونوں الفاظ کس راستے کی نشاندہی کرتے ہیں اور کس تصور قومیت کو اجاگر کرتے ہیں۔

یہی وجہ ہے کہ سول سروسز اکیڈمی کے میرے جبراً استاد مکرم نے انھی دونوں تصورات کی نفی ایک بار پھر زور و شور کے ساتھ کی ہے۔ کبھی کبھی مجھے ان کی اس منطق پر حیرت ہوتی ہے۔ آپ دین کی اصطلاحات کا دامن بھی ہاتھ سے نہیں چھوڑنا چاہتے اور مغرب کی تراشیدہ اصطلاحات سے بھی آپ کو رغبت ہے۔ کمال کی بات یہ ہے کہ آپ فرماتے ہیں کہ مسلمانوں میں اخوت کا رشتہ تو ہے قومیت کا نہیں۔ یعنی مسلمان آپس میں بھائی تو ہیں لیکن ضروری نہیں کہ وہ اپنی رنگ، نسل، زبان علیحدہ ہونے کے باوجود ایک قوم بھی بن جائیں اور ان کا سب کا ایک خلیفہ بھی ہو۔

جناب علامہ صاحب، کہ جوانی میں انھیں اسی نام سے پکارا جاتا تھا، کاش آپ اس مسلم امہ کے ایک ہونے کے تصور کے اس تاریخ معجزے کا غور سے مطالعہ کر لیتے۔ مغرب کے تمام علوم اس بات پر متفق ہیں کہ دنیا میں سب سے طاقتور چیز ثقافت یا طرز معاشرت ہے۔ آدمی صدیاں لگا دیتا ہے لیکن اپنی ثقافت کو نہیں بھولتا، اس ثقافت میں سب سے اہم چیز مادری زبان ہوتی ہے۔ پنجاب کا سکھ ہو یا بنگال کا بنگالی، کئی نسلیں یورپ میں گزارنے کے باوجود اپنی مادری زبان سے آشنا رہتا ہے۔ کبھی اسلامی تاریخ کے اس معجزے پر انھوں نے غور کیا ہے کہ اسلامی ریاست میں آنے سے قبل، شام، عراق، لبنان، مصر، لیبیا، سوڈان، مراکش، اردن، تیونس میں نہ لوگوں کی مادری زبان عربی تھی اور نہ ہی کاروباری اور علاقائی زبان۔ یہاں امریکیوں کی طرح کسی نے نسل کشی بھی نہیں کی تھی جیسے انھوں نے وہاں کے مقامی ریڈ انڈین کو مار مار کر ناپید کر دیا تھا۔

اس زمانے میں جدید ذرایع ابلاغ بھی نہیں ایجاد ہوئے تھے کہ لوگ ان کو دیکھ دیکھ کر زبان اختیار کر لیتے۔ تعلیمی نظام کی جڑیں بھی اس طرح گہری نہیں تھیں کہ طرز تعلیم انگریزی میں کر دو تو یہ لوگوں کی مجبوری بن جائے۔ تاریخ رعایا پر مسلمان خلفاء کے جبر کی بھی کوئی گواہی نہیں دیتی۔ متعصب ترین مورخ بھی خلفائے راشدین اور بعد کے حکمرانوں پر یہ تہمت نہیں لگاتے کہ انھوں نے زبردستی اپنا دین نافذ کیا، اپنی زبان لاگو کی ہو یا اپنا کلچر کسی پر تھوپا ہو۔ لیکن یہ سب کے سب ملک آج عرب ورلڈ کا حصہ ہیں۔ ان کو یاد تک نہیں کہ ان کے آباؤ اجداد کی مادری زبانیں کونسی تھیں۔ یہ ان لوگوں کا کمال تھا جو خالصتاً سید الانبیاء ﷺ کی تربیت سے بہرہ مند ہوئے تھے۔

اخوۃ کا یہ رشتہ ایسا تھا جس نے ’’الکفر ملۃ واحدہ‘‘ کو تحلیل کر کے رکھ دیا۔ ایران میں بھی صفوی حکمران اگر ایک خاص مقصد کے لیے فارسی زبان کو زبردستی قائم نہ کرتے اور بقول ایرانی مفکرین اگر فردوسی کا شاہنامہ نہ لکھا جاتا تو فارسی آج ختم ہو چکی ہوتی۔ برصغیر میں بھی اسلام خلجیوں، غوریوں، غزنویوں اور مغلوں کی وجہ سے آیا جو اپنی بادشاہت کی سرفرازی کا مقصد لے کر آئے تھے اس لیے یہاں بھی وہی قومی ریاست بن سکی، اسلامی ریاست وجود میں نہ آئی۔ لیکن جہاں آپﷺ کے ساتھی پہنچے اور انھوں نے وہاں حکومت قائم کی وہاں کا رنگ، ڈھنگ اور بول چال تک سب اس زبان میں ڈھل گئی جسے وہ قرآن کی زبان قرار دیتے تھے۔ یہ ہے تاریخ کی وہ گواہی۔

قومیں جغرافیے کی لکیریں کھینچنے سے صرف آج کے دور میں بنا کرتی ہیں جنھیں قومی افواج سرحد کی حفاظت کا تصور دے کر ایسے قائم رکھتی ہیں جیسے چڑیا گھر میں جانور۔ اگر یہ قومیں اتنی ہی موثر ہوتیں تو قومی افواج کا تصور نہ ہوتا بارڈر پر پہرے داران ان قومیتوں کا تحفظ کرتے ہیں۔ یہ وہ اسلامی اخوت ہے جو قوموں کے نسلی، علاقائی اور زبانی امتیازات تک ختم کر دیتی ہے۔ اسی اخوت کی کوکھ سے مسلمانوں کی مرکزیت یعنی خلافت نے جنم لیا۔ حیرت کی بات ہے کہ دین کی تشریح سیدنا ابوبکرؓ سے لے کر حضرت علیؓ تک کے خلفائے راشدین کو معلوم نہ تھی اور میرے جبراً استاد کو اب سمجھ آئی کہ خلافت کی مرکزیت دین کا منشاء نہیں ہے۔

ایران جیسی عظیم سلطنت کو اتنی دور سے سنبھالنا اور وہ بھی ذرایع آمد و رفت کے اس دور میں اتنا آسان نہ تھا، مصر بھی ہزاروں سال علیحدہ بادشاہت کے طور پر رہ رہا تھا۔ حضرت عمرؓ ان دونوں خطوں کو قومی ریاستیں کہہ کر علیحدہ کر دیتے اور کہہ دیتے تم تو اصل میں بھائی بھائی ہو لیکن تمہارے ملک چونکہ صدیوں سے علیحدہ رہے ہیں اس لیے تمہاری ریاست، حکومت اور خلافت بھی علیحدہ کر دیتا ہوں، تم جانو اور تمہارا ملک۔ شاید وہاں کوئی ’’اعوارد‘‘  رسالہ نہیں نکالتا تھا ورنہ ضرور یہ اعتراض اٹھاتا۔ حیرت ہے چودہ سو سال گزرنے کے بعد یہ اعتراض اٹھایا جا رہا ہے کہ خلافت کی مرکزیت دین کا منشاء نہیں تھی۔ گویا موصوف تمام خلفائے راشدین سے زیادہ دین کی سمجھ رکھتے ہیں۔

شاید ان سے زیادہ اس دین کو جارج بش اور ٹونی بلیئر سمجھتے ہیں جو مسلمانوں میں ذرا سی بھی اخوت کی جھلک دیکھتے ہیں تو پکار اٹھتے ہیں They want Khilfa Back (یہ تو دوبارہ خلافت نافذ کرنا چاہتے ہیں)۔ ایسے میں سب مسلمانوں کے خلاف اکٹھے ہو جاتے ہیں۔ رسول اکرمﷺ کی دو احادیث پوری دنیا کو دو اقوام میں تقسیم کرتی ہیں۔ ایک ’’الکفر ملۃ واحدہ‘‘ پورا کفر ایک قوم ہے ’’اور دوسرا آپؐ نے مسلمانوں کے بارے میں ایک لفظ استعمال کیا ’’جسد واحد‘‘ یعنی ایک جسم۔ ایک جسم میں تمام نظام مربوط ہوتے ہیں، ایک اعصابی نظام، ایک انہضام، ایک دل، ایک دماغ۔ اس جسد واحد یا ایک جسم کے دو دماغ نہیں ہو سکتے۔ اسی لیے آپ ﷺ نے فرمایا کہ جب دو خلیفوں میں بیعت ہو جائے تو دوسرے والے کو قتل کر دو‘‘۔

اسی تصور کی نفی کرنے اور اسی جسد واحد کو توڑنے کے لیے ہی تو قومی ریاستیں وجود میں لائی گئیں تھیں۔ لیکن مسلمان دنیا کی وہ واحد قوم ہے جو ان ریاستوں کی سرحدوں کو پامال کرتے ہوئے اپنے مظلوم بھائیوں کی مدد کے لیے نکلتی ہے۔ اسی تصور جہاد کو ختم کرنے کے لیے ہی تو امت کے تصور کی نفی کی جاتی ہے۔ کیا میرے موصوف استاد نے سورہ انساء کی 75 آیت نہیں پڑھی۔ ’’آخر کیا وجہ ہے کہ تم اللہ کی راہ میں ان بے بس مردوں، عورتوں اور بچوں کی خاطرنہ لڑو، جو کمزور پا کر دبا لیے گئے ہیں اور فریاد کر رہے ہیں کہ خدا یا ہم کو اس بستی سے نکال جس کے باشندے ظالم ہیں اور اپنی طرف سے ہمارا کوئی حامی و مدد گار پیدا کر دے‘‘۔ کیا یہ آیت کافی نہیں کشمیر اور فلسطین کے مسلمانوں کی حالت زار اور مسلم امہ کی ذمے داری بیان کرنے کے لیے۔ یہاں مسلم اخوۃ بھی شاید نہ روک سکے لیکن جدید قومی ریاست ضرور آڑے آئے گی۔ اسی لیے یہ تصور مغرب کو بھی بہت پیارا ہے اور میرے استاد کو بھی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔