لباس ( آخری حصہ)

شیریں حیدر  اتوار 8 مارچ 2015
Shireenhaider65@hotmail.com

[email protected]

’’ جو مائیں سسرال میں بیٹیوں کا پیچھا نہیں چھوڑتیں، انھیں ہدایات دیتی رہتی ہیں ، ان کی بیٹیوں کے گھر کبھی نہیں بستے ‘‘ اس نے ہنکارا بھر کر کہا، عامر کی ساس کو جو تھوڑا بہت میں مختلف ذرایع سے جانتی تھی، وہ ہرگز ایسی خاتون نہ تھی۔

’’ تم نے کبھی اس کی ماں کی ہدایات دیتے ہوئے سنا یا کسی نے بتایا کہ اس کی ماں نے اسے کیا کیا ہدایات دی ہیں، غالباً تم نے خود ہی فرض کر لیا کہ اس کی ماں غلط ہدایات دیتی ہو گی، کیونکہ تم خود اپنے بیٹے کو غلط ہدایات دیتی ہو اور اس کی غلطیوں اور برائیوں سے چشم پوشی کرتی ہو‘‘ میں نے اسے نشتر چبھویا۔

’’ میں اسے کوئی غلط ہدایات نہیں دے رہی، صرف یہ کہہ رہی ہوں کہ جو لباس تنگ کرے،اسے اتار کر پھینک دینا ہی بہتر ہے، میرے بیٹے کو لڑکیاں بہت، اسے اگر اپنے حسن اور ماں باپ کی امارت کا زعم ہے تو اسے اپنے پاس ہی رکھے‘‘ اس نے غصے سے کہا۔

’’ جہاں سودا کرنا ہو، اپنے مال کے نقائص بتا دینا چاہئیں، یہ بھی ہمارے رسول ﷺ کا حکم ہے، اگر تم کسی کو بتاؤ کہ تمہارے بیٹے میں کیا کیا عیب ہیں تو کوئی تمہارے بیٹے کو لڑکی نہیں دے گا، یہ میرا دعوی ہے، لڑکیوں والے ہمارے معاشرے میں بڑے مجبور ہوتے ہیں مگر آنکھوں دیکھی مکھی کوئی نہیں نگلتا، جہاں عیوب پر ظاہر داری کا پردہ ڈال کر ، جھوٹ بول کر رشتے آغاز کیے جاتے ہیں وہ پائیدار نہیں ہوتے‘‘ میں نے ظالمانہ تجزیہ کیا۔

’’ شادی کے بعد بڑے بڑوں کے عیب ٹھیک ہو جاتے ہیں، جو وہ اس پر محنت کرتی،اسے پیار سے سمجھانے کی کوشش کرتی تو وہ سدھر جاتا، مگر اس نے اس کا ڈھول بجا بجا کر اسے خود سے متنفر کر دیا ہے ‘‘۔’’ تم سمجھتی ہوںکہ تمہاری بہو تمہارے بیٹے سے تم سے بڑھ کر پیار کرتی ہے؟ وہ تم سے زیادہ عمر کی ہے یا اس کے پاس تجربہ اور ہنر تم سے زیادہ ہے ، تم پچپن کی ہو کر اپنی سمجھداری سے اپنے بیٹے کو نہیں سدھار سکیں تو اس بیس برس کی لڑکی سے توقع کرتی ہو، یا ایسا ہے کہ جو بری عادتیں تمہارے بیٹے میں ہیں، تمہیں ان کا علم ہی نہیں ،ان کی سنجیدگی کا احساس ہی نہیں؟؟‘‘

’’ سب میں ہیں آج کل ایسی عادتیں !!‘‘ اس نے نخوت سے کہا۔

’’ تمہارے اپنے شوہر یا داماد میں ایسی عادتیں ہوں تو تب بھی تمہیں اس پر اعتراض نہیں ہو گا کیا؟ ‘‘ میرے سوال پر اس نے مجھے گھورا۔ جب ہم لاجواب ہو جاتے ہیں تو ایسا ہی ہوتاہے ، ’’ تمہاری بہو بھی یونیورسٹی میں پڑھی ہوئی ہے، اس کے ساتھ بھی لڑکے پڑھتے ہوں گے، کیا اس کے کلاس فیلو لڑکے( میں boy friend کا لفظ استعمال نہیں کروں گی) اس سے ملیں، یہ ان کے ساتھ بیٹھ کر ڈرنک کرے، رات دیر دیر تک ان کے ساتھ باہر گھومے تو تمہیںکوئی اعتراض تو نہیں ہو گا؟ ‘‘

’’ یہ کیا فضول بکواس ہے؟ ‘‘ اس کا چہرہ تپ گیا۔

’’ تم نے کہا ہے کہ میاں بیوی ایک دوسرے کا لباس ہیں، تمہیں علم ہی نہیں کہ لباس ہم کیوں پہنتے ہیں، بتاؤ مجھے تم کہ لباس کا مطلب کیا ہے؟؟؟‘‘ وہ میرا منہ تک رہی تھی جیسے میں نے اس سے کوئی بچگانہ سوال پوچھ لیا ہو۔

’’ یہ بھی کوئی پوچھنے کی بات ہے؟ ‘‘ اس نے کہا۔

’’ تم جواب دو تو مجھے اندازہ ہو کہ تم اس آیت کو کس طرح سے سمجھی ہو!!‘‘ میں نے اپنا سوال واضع کیا ۔

’’ بھئی لباس بنیادی طور پر تو بدن ڈھکنے کے لیے ہی ہوتا ہے اور یہی اس کا واضع مفہوم ہے جس کا قرآن میں بھی حوالہ دیا گیا ہے!!‘‘ اس نے پورے یقین سے کہا۔

لباس ہم صرف تن ڈھکنے کے لیے ہی نہیں پہنتے بلکہ اس کے کئی اور مقاصد بھی ہیں ‘‘ میں نے اپنا لیکچر شروع کیا ۔ ’’نیک اعمال کرنے والوں سے وعدہ کیا گیا ہے کہ انھیں جنت میں سونے کے کنگن اور سبز رنگ کے باریک اور ریشم کے موٹے لباس دیے جائیں گے ( سورہء کہف، آیت نمبر 31 ) اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اچھا، نفیس لباس انسان کی بڑی خواہشات اور ضروریات میں سے ایک اہم ضرورت ہے۔

اسی طرح اللہ تعالی فرماتے ہیں، ’ اے آدم کی اولاد، ہم نے تمہارے لیے لباس پیدا کیا جو تمہاری شرم گاہوں کو بھی چھپاتا ہے اور موجب زینت بھی ہے اور تقوے کا لباس، یہ اس سے بڑھ کر ہے! ‘ (سورہء اعراف، آیت نمبر26) قرآن پاک میں میاں بیوی کے درمیان معاملات پر بہت واضع احکامات ہیں مگر میں اس وقت صرف اگر انھیں ایک دوسرے کا لباس کہنے کا مطلب واضح کروں تو جان جاؤکہ کتاب حکمت میں انھیں یونہی ایک دوسرے کا لباس نہیں کہہ دیا گیا۔ لباس بہترین تشبیہہ ہے زوجین کے مابین تعلقات کی۔

لباس ہمارے جسم کے سب سے قریب ہوتا ہے، لباس کے اور ہمارے درمیان کچھ اور حائل نہیں ہوتا، لباس پہن کر ہم خود کو بیرونی آلائشوں ، جراثیم، سردی گرمی کے اثرات اور بری نظر سے محفوظ سمجھتے ہیں، لباس ہم خود کو ڈھانکنے کے لیے پہنتے ہیں، سو جو بھی لباس ہے وہ ڈھانکے۔ نہ میاں، بیوی کے بھید ظاہر کرے نہ بیوی، میاں کے، لباس خوب صورتی کے لیے پہنا جاتا ہے،اس سے ہمارا وقار، زینت، مہارت، سلیقہ اور مہارت ظاہر ہوتی ہے، ہمارے لباس سے ہماری شخصیت کی پہچان ہوتی ہے، لباس کا نرم اور آرام دہ ہونا اس کی خوبی ہے، لباس ہی ہمیں موسموں کی شدتوں سے محفوظ رکھتا ہے۔ سو اسی طرح زوجین کا بھی غم ، دکھ ، بیماری اور پریشانی میں ایک دوسرے کو سکھ اور راحت پہنچانا لازم ہے، لباس تنگ ہو، جسم پر پھنسا ہوا ہو تو نہ صرف برا لگتا ہے بلکہ پہننے والے کے لیے بھی تنگی اور گھٹن کا باعث ہوتا ہے، بد نما لباس، اچھے خاصے آدمی کی شخصیت کو بد صورت بنا دیتا ہے۔

گندا لباس چاہے کتنے ہی صاف ستھرے انسان نے پہن رکھا ہو، اسے بھی لوگ گندا ہی سمجھتے ہیں، اچھے خاصے نظر آنے والے لباس پر اگر کیچڑ کے چھینٹے پڑ جائیں تو ہم اسے دھونے یا ممکن ہو تو تبدیل کرنے میں جلدی کرتے ہیں، لباس اپنا ہی اچھا ہوتا ہے، نہ انسان کسی کا لباس پہن کر آرام محسوس کرتا ہے نہ وہ چاہتا ہے کہ کوئی اس کا لباس استعمال کرے، ہمارا لباس کوئی اور استعمال کرے تو ہم خوش نہیں ہو سکتے ‘‘ وہ چپ چاپ سن رہی تھی، ’’ اور ہاں سب سے اہم بات، تمہارا بیٹا غلط ہے، اسے تسلیم کرو، یا تو اسے کہو خود کو تبدیل کرے اور جا کر گڑگڑا کر معافی مانگ کر اپنی بیوی کو منا کر لائے یا اگر کوئی گنجائش دل میں نہیں اور تم لوگ پھر بھی خود کو درست سمجھ رہے ہو تو… تمہاری بہو کو بھی پورا حق ہے کہ وہ گندے، نا پسندیدہ لباس کو اتار کر پھینک دے جو نہ تو اسے راحت دیتا ہے، نہ خوبصورتی، نہ آرام اور نہ موسموں کے خلاف تحفظ!!‘‘

میں نے اپنا بیگ پکڑا اور اٹھ کھڑی ہوئی۔

( خواتین کے عالمی دن کے سلسلے میں خصوصی کالم )

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔