- ٹیکساس میں اسلحہ بردار شخص کی اندھا دھند فائرنگ، 14 طلبا اور ایک اسکول ٹیچر ہلاک
- پی ٹی آئی کے مرکزی نائب صدر سینیٹر اعجاز احمد چوہدری گرفتار
- پی ٹی آئی کے 55 گرفتار رہنما و کارکنان اڈیالہ جیل منتقل
- پی ٹی آئی کے سینئر رہنما میاں محمود الرشید گرفتار
- حکومت میڈیا کی مکمل آزادی پر یقین رکھتی ہے، وزیراطلاعات مریم اونگزیب
- دعا زہرہ اور نمرہ کی بازیابی میں پنجاب پولیس تعاون نہیں کررہی: شہلا رضا
- کاغذ میں لپٹی لاش لندن ایئرپورٹ کے بیگج ایریا میں آگئی؟ ویڈیو وائرل
- سعودی عرب 3 ارب ڈالر کی واپسی کے لیے پاکستان کو مزید مہلت دینے پر رضامند
- آئندہ الیکشن استخارہ کر کے لڑوں گا، نور عالم خان
- کراچی میں نامعلوم گاڑی نے موٹرسائیکل سوار تین دوستوں کو روند ڈالا، دو جاں بحق
- پی ٹی آئی لانگ مارچ: جڑواں شہروں میں تعلیمی ادارے بند اور امتحانات ملتوی
- پی ٹی آئی کے خلاف پولیس کا ملک گیر کریک ڈاؤن، 247 سے زائد کارکنان گرفتار
- راولپنڈی اور اسلام آباد میں پیٹرولیم مصنوعات کی سپلائی معطل
- درجنوں شارک مچھلیوں کا وہیل پر حملہ، ویڈیو وائرل
- کہوٹہ میں پہاڑی تودہ گرنے سے 4 خواتین جاں بحق اور 3 زخمی
- لانگ مارچ کے پیش نظر پنجاب میں موبائل فون سروس بند کرنے کا فیصلہ
- خصوصی طور پر مدعو کردہ چار کرکٹرز کے فٹنس ٹیسٹ ملتوی
- ایران میں رہائشی عمارت گرنے سے 11 ہلاکتوں پر میئر سمیت 10 میونسپل حکام گرفتار
- 74 برس قبل بچھڑنے والے سکا خان بڑے بھائی کے ہمراہ بھارت روانہ
- مشرقی وسطیٰ میں ریت کے طوفان معمول کیوں بنتے جارہے ہیں؟
تنخواہ 40 ہزار پاؤنڈ پھر بھی کوئی ملازمت پر تیار نہیں

چوزوں کی جنس کا تعین کرنے والوں کی قلت سے پولٹری انڈسٹری کو مشکلات کا سامنا۔ فوٹو: فائل
پولٹری فارمز میں دوسرے ملازموں کے ساتھ ساتھ چوزوں کی جنس کا تعین کرنے والے بھی ہوتے ہیں، جنھیں Chick sexers کہا جاتا ہے۔ ان کا کام چوزوں کی جنس کا تعین کرتے ہوئے انھیں الگ الگ کرنا ہوتا ہے۔
اندازہ کیجیے کہ ان کی تنخواہ کیا ہوگی؟ جی نہیں، برطانیہ میں ان کی تنخواہ ہزار پانچ سو پاؤنڈز نہیں بلکہ چالیس ہزار پاؤنڈز سالانہ۔۔۔۔ یعنی تین ہزار تین سو پاؤنڈز ماہانہ ہے۔ پاکستانی روپوں میں یہ رقم پانچ لاکھ بنتی ہے مگر برطانیہ میں پھر بھی یہ نوکری کرنے کے لیے کوئی تیار نہیں ہے۔
آپ سوچ رہے ہوں گے چوزوں کی جنس کا تعین کرنا کون سا مشکل ہے۔ درحقیقت یہ کوئی آسان کام بھی نہیں ہے۔ اسی لیے پُرکشش تنخواہ کے باوجود برطانوی پولٹری انڈسٹری کو Chick sexers کی قلت کا سامنا ہے۔ پولٹری فارم مالکان کا کہنا ہے اگر جلد یہ قلت دور نہ ہوئی تو گوشت اور انڈے کی برآمدات متاثر ہوں گی۔
چِک سیکسر کو مسلسل بارہ گھنٹے چوزوں کی پُشت پر نگاہیں جمائے رکھنی پڑتی ہیں۔ اس دوران اسے پوری توجہ کے ساتھ یہ جانچنا ہوتا ہے کہ ہاتھ میں پکڑا ہوا چوزہ بڑا ہوکر مُرغا بنے گا یا مُرغی۔ چوزوں کی جنس کا تعین کرنا ہر ایک کے بس کی بات نہیں۔ اس ’ فن ‘ میں طاق ہونے کے لیے کم از کم تین برس کی تربیت درکار ہوتی ہے تب کہیں جاکر چِک سیکسر نر اور مادہ چوزوں کے درمیان انتہائی مبہم فرق کو جانچنے کے قابل ہوتا ہے۔
برطانیہ کے پولٹری فارموں میں ہزاروں لاکھوں کی تعداد میں چوزے ہوتے ہیں۔ برٹش پولٹری کونسل کے چیف ایگزیکٹیو اینڈریو لارج کے مطابق چک سیکسر کو ایک گھنٹے میں اوسطاً 800 سے 1200چوزوں کی جنس کا تعین کرنا ہوتا ہے۔ اس طرح ایک چوزے کے لیے اسے تین سے پانچ سیکنڈ ملتے ہیں۔ چِک سیکسر کے لیے غلطی کرنے کی گنجائش بہت کم ہوتی ہے۔ ضروری ہے کہ چوزوں کی جنس کے تعین کے ضمن میں اس کا اندازہ 98 فی صد درست ہو۔
بارہ گھنٹے کی ڈیوٹی کے دوران پوری ذہنی یکسوئی کے ساتھ اور بغیر کوئی غلطی کیے کام کرنا آسان نہیں۔ اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ چِک سیکسر کا کام کس قدر مشکل ہے۔ علاوہ ازیں اس ملازمت کو تحقیر کی نظر سے دیکھا جاتا ہے۔ چِک سیکسرز کے شناسا ان کا مذاق اڑاتے ہیں کہ وہ کوئی کام وام تو کرتے نہیں بس پورا دن کھڑے ہوکر چوزے دیکھتے رہتے ہیں۔ کام کی کٹھن نوعیت اور سماجی رویے کی وجہ سے لوگ، پُرکشش تنخواہ کے باوجود چِک سیکسر بننے سے کترارہے ہیں۔
2013ء میں پولٹری انڈسٹری ایک بھی چِک سیکسر ڈھونڈنے میں ناکام رہی۔ برطانیہ میں اس وقت چِک سیکسرز کی تعداد سو سے ڈیڑھ سو کے درمیان ہے جب کہ برآمدی آرڈرز کو پورا کرنے کے لیے فوری طور پر پندرہ چِک سیکسر درکار ہیں۔ اینڈریو لارج کے مطابق اگر جلد ہی یہ کمی پوری نہ ہوئی تو برآمدی آرڈرز کی تکمیل مشکل ہوجائے گی۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔