صرف گانے ہی کیوں؟

محمد ارشد قریشی  بدھ 11 مارچ 2015
ریڈیو پاکستان پر نشر ہونے والے ڈرامے" حامد میاں کے ہاں " کے دلچسپ فقرے آج بھی لوگوں کے زہنوں میں نقش ہیں ۔ فوٹو آمنہ اقبال

ریڈیو پاکستان پر نشر ہونے والے ڈرامے" حامد میاں کے ہاں " کے دلچسپ فقرے آج بھی لوگوں کے زہنوں میں نقش ہیں ۔ فوٹو آمنہ اقبال

یوں تو دنیا میں لوگوں نے اپنے آپ کو فارغ وقت میں مصروف رکھنے کے لئے کئی مشاغل اپنا رکھے ہیں جس سے وہ لطف اندوز ہوتے ہیں۔ ان ہی میں ایک دلچسپ مشغلہ ریڈیو سننا بھی ہے۔

ریڈیو سننے والوں میں ایک شوقین ہم بھی ہیں اور میں بھی ریڈیو پاکستان کے ساتھ ساتھ غیر ملکی نشریات سے بھی لطف اندوز ہوتا ہوں اور مجھے اِس طرح نا صرف دنیا میں ہونے والے واقعات کے بارے میں بہت کچھ جاننے کا موقع ملتا ہے بلکہ میری علمی صلاحیتوں میں بھی بیش بہا اضافہ ہوتا ہے لیکن شاید یہ باتریڈیو سننے والے قارئین ہی سمجھ سکیں۔

ریڈیو پاکستان کی تاریخ میں بہت سے ایسے پروگرام نشر ہوتے رہے ہیں جو آج تک ہمارے ذہنوں میں نقش ہیں، جن میں ہر اتوار کو صبح نشر ہونے والا بچوں کا پروگرام ’’پھلواری‘‘ جسے منی باجی اور رفیق بھیا پیش کرتے تھے بچوں کا مقبول ترین پروگرام تھا۔ اسی طرح بڑے بزرگوں کا مقبول ترین پروگرام ’’گھسیٹا خان‘‘  اور ’’حامد میاں کے ہاں‘‘ تھا جسے بزرگ حضرات شام ہوتے ہی ایک ساتھ بیٹھ کر سنا کرتے تھے۔ آج بھی ریڈیو پاکستان سے بہت سے معلوماتی پروگرام نشر ہوتے ہیں جس میں اسپورٹس رؤانڈ اپ، صوتی ڈرامے، موسیقی کے پروگرام کے ساتھ ساتھ طالب علموں کے لئے نشر ہونے والا پروگرام تعلیمی خبرنامہ وغیرہ شامل ہیں۔

جوں جوں ادوار بدلتے رہے نت نئی ایجادات میدان میں آتی رہیں اور بالکل اِسی طرح ریڈیو سننے کے انداز اور شوق میں بھی تبدیلیاں نمایاں نظر آنے لگیں۔ اگر ہم آج سے30 برس پہلے کے وقت کی بات کریں تو ریڈیو کو جو مقام حاصل تھا وہ شاید اب نہیں رہا، ریڈیو ہر گھر کی ضرورت تھی 1970  کی دہائی میں ریڈیو جن کے پاس ہوتا تھا وہ لوگ مالی طور بہتر سمجھے جاتے تھے کیونکہ متوسط طبقے کے پاس یہ سہولت کم ہی ہوتی تھی، جس کی بڑی وجہ ٹرانسسٹر ریڈیو کی قیمتیں اور حکومت پاکستان کا ریڈیو رکھنے کے لئے لائسنس کی پابندی تھا ۔

اگر میں اس  دور سے جب ریڈیو ایک اہم ضرورت سمجھا جاتا تھا  کا  رواں دورسے موازنہ کروں تو ریڈیو کے سننے کے حوالے سے بہت سی تبدیلیاں واضح نظر آئینگی، جیسا کہ 1970 کی دہائی میں اگر کسی سے ریڈیو کے بارے میں پوچھا جاتا تھا کہ کیا آپ ریڈیو سنتے ہیں؟ تو وہ بڑے فخر سے بتاتا تھا کہ جی میں ریڈیو روز باقاعدگی سے سنتا ہوں۔ ٹی وی چینل ایک ہی تھا وہ بھی سرکاری، لیکن اُس وقت خبروں  کے حصول  کے لئے بی بی سی کی طوطی بولا کرتی تھی۔ پاکستان میں الیکشن ہو یا زمانہ جنگ یا کوئی رونما ہونے والا اہم واقعہ، لوگ ہوٹلوں، محلوں اور گھروں میں اہتمام اور شوق سے خبریں سنتے تھے۔

وہی سوال اگر آج کسی سے کیا جائے کہ کیا آپ ریڈیو سنتے ہیں؟ تو ان کا فوری جواب ہوگا جب موسیقی سننے کا دل کرتا ہے تو اکثر گاڑی میں ریڈیو آن کرلیتا ہوں۔ اس جواب سے اندازہ ہوا کہ آج کے دور میں لوگ ریڈیو کا مطلب ہی موسیقی لے رہے ہیں، جس کی وجہ بے شمار ایف ایم چینلز کا آجانا بھی ہے۔

اب اگر سوچا جائے کہ ایسا کیوں ہے؟ تو بات واضح سمجھ آتی ہے کہ ماضی میں خاص طور پر گاؤں دیہات میں لوگ متعین وقت پر ہی ملکی اورغیر ملکی حالات سے باخبر رہنے کے لئے ریڈیو سنا کرتے تھے، جب مقررہ وقت کسی نشریاتی ادارے کی خبریں نشر ہوتی تھیں تب ہی انہیں آگاہی ہوتی کہ دنیا میں کیا ہورہا ہے۔ اس کی نسبت اب دنیا میں کوئی بھی اور کہیں بھی کوئی واقعہ ہو تو سیکنڈوں میں بے شمار ذرائع سے لوگ اس خبر تک رسائی حاصل کرلیتے ہیں، لہذا ریڈیو سے دوری کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے۔

آج  کے دور میں ملکی وغیر ملکی  ٹی وی چینلز کے یلغار ہے، ہر شخص  دن کا آغاز ہی ان چینلز کو دیکھ کر کرتا ہے، لوگ اسکول کالج یا کاروبار پر جانے کی تیاری کے ساتھ ساتھ ایک نظر ٹی وی دیکھنا بھی ضروری سمجھتے ہیں، لیکن ماضی میں صبح کا آغاز ہوتے ہی ریڈیو آن کیا جاتا تھا، تلاوت کلام پاک کے بعد روشنی کے عنوان سے ریڈیو پاکستان سے شاہ بلیغ الدین کی آواز میں درس قرآن ہوتا تھا اور پھر ماہ پارہ صفدر کی خوبصورت آواز میں خبریں سن کر لوگ اپنے کام کاج پر روانہ ہوتے تھے۔ شام ڈھلتے ہی بچے ریڈیو کے گرد جمع ہوجاتے تھے منی باجی کی آواز میں بچوں کو کہانیاں سنائی جاتی تھیں جس سے بچوں میں کتابیں پڑھنے کا شوق پیدا ہوتا تھا۔ اطہر شاہ خان کا ریڈیو پاکستان پر نشر ہونے والے ڈرامے ’’حامد میاں کے ہاں‘‘ کے دلچسپ فقرے آج بھی لوگوں کے زہنوں میں نقش ہیں ۔

آج کے نوجوان گلی محلوں اور تفریحی مقامات پر بڑی اسکرین پر کرکٹ میچ دیکھنے کا اتنظام کرتے ہیں لیکن جس دور میں ریڈیو کا اہمیت ایک ضرورت کی طرح تھی اس دور میں پاکستان میں ہاکی کا عروج ہوا کرتا تھا ہر نوجوان کے کان سے چھوٹا سا ریڈیو سرگوشیاں کرتے نظر آتا تھا۔

میں نے ایک بات ریڈیو کے عروج کے دور اور موجودہ  دور کا مشاہدہ کرتے ہوئے بہت شدت سے محسوس کی ہے جو نہایت تکلیف دہ بھی  ہے کہ اگر آپ آج کے بچوں سے سوال کریں کہ پاکستان پوسٹ آفس میں جو لفافے ملتے ہیں وہ کس مقصد کے لئے استمال کئے جاتے ہیں؟ تو اکثر بچوں کا کہنا ہے کہ امتحانی فارم کے ساتھ ان لفافوں پر اپنا ایڈریس لکھ کر جمع کرایا جاتا ہے تاکہ ایڈمٹ کارڈ روانہ کرنے کے لئے استعمال کئے جائیں۔ زیادہ تر بچوں کو اردو میں خط لکھنے کا طریقہ تک نہیں معلوم۔

اس کے برعکس ماضی میں ریڈیو میں لکھنے کی وجہ سے بچے خطوط نویسی سے مکمل واقفیت رکھتے تھے۔ میں اکثر کہتا ہوں کہ ریڈیو تعلیم و تربیت کا بہترین ذریعہ ہے۔ ہم بچپن میں ریڈیو پر اپنا نام نشر ہونے کے شوق میں ریڈیو پروگراموں میں خطوط لکھا کرتے تھے۔ اچھے پرکشش، بااخلاق جملوں کا استمال کرتے تھے۔ وہیں سے ہم نے خطوط لکھنا سیکھا، باوجود ان تمام باتوں کے یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ اس جدید دور میں بھی لوگوں کی بہت بڑی تعداد ریڈیو کے پروگرام سنتی ہے اور اسے آج بھی معلومات عامہ کا ایک بہترین ذریعہ سمجھتی ہے۔

اب بات کرتے ہیں ان غیر ملکی نشریات کی، جو نہ صرف عالمی خبریں نشر کرتی ہیں بلکہ بہت سے تفریحی اور معلوماتی پروگرام بھی نشر کرتی ہیں۔ یہ نشریات پاکستان میں بھی مقبول ہیں۔ ان میں چند ناموں سے قارئین واقف بھی ہیں، انہی میں بی بی سی، وائس آف امریکہ، چائنا ریڈیو انٹرنیشنل، ریڈیو تہران، سعودی عالمی ریڈیو، ریڈیو صدائے ترکی، ریڈیو جاپان، ریڈیو قاہرہ، ریڈیو کویت اور ریڈیو انڈونیشیاء شامل ہیں۔

پوری دنیا کی طرح پاکستان کے مختلف شہروں گاؤں دیہاتوں میں ریڈیو سننے والوں نے لسنرز کلب بنا رکھے ہیں، جو کہ کئی نشریاتی اداروں سے  باقاعدہ رجسٹرڈ بھی ہیں۔ ان لسنرز میں بہت سے ایسے بھی ہیں جو باقاعدگی سے ان نشریات کو مانیٹر کرتے ہیں اور متعلقہ نشریاتی اداروں کو رپورٹ بھی ارسال کرتے ہیں۔

یہ نشریاتی ادارے اپنے سامعین کے درمیان کئی انعامی مقابلے بھی کرواتے ہیں جن کا تعلق مضمون نویسی اور معلومات عامہ سے ہوتا ہے۔ ان مقابلوں میں کامیاب سامعین کو نشریاتی ادارے اپنے ملک کی سیر بھی کراتے ہیں۔ یہاں میں ایک دلچسپ بات آپ کے گوش گزار کرتا چلوں کہ کئی طالبعلم جو ایم اے انٹرنیشنل ریلیشن میں کرچکے ہیں یا کررہے ہیں وہ باقاعدگی سے ان غیر ملکی نشریات کو سنتے ہیں اور ان کا ماننا ہے کہ یہ ہمارے لئے نہایت مددگار ثابت ہوتی ہیں ۔

اگرہم ماضی کے مقابلے میں آج پاکستان میں ریڈیو چینلز  کا موازنہ کریں تو ایک اہم بات یہ سامنے آئی ہے کہ ایف ایم چینلز کی بھرمار کے باوجود کہیں بھی آپ کو معلوماتی  پروگرام سننے کا موقع نہیں ملے گا۔ تمام چینلز کے درمیان  بھارتی گانے نشر کرنے کی ریس لگی ہوئی ہے، دن ہو یا رات جس وقت بھی آپ ریڈیو لگائیں گے آپ  کو گانوں کے علاوہ کچھ سننے کو نہیں ملے گا۔

میری سمجھ سے بالاتر ہے کہ اگر سامعین کو ان گانوں میں اتنی ہی دلچسپی ہوتی تو صرف اس مقصد کے لئے وہ ریڈیو کیوں کو ٹیون اِن کریں گے؟ اُن کے پاس بھارتی گانوں کو سننے کے لئے دوسرے کئی جدید ترین ذرائع موجود ہیں، جس سے وہ جب چاہیں اور جو چاہیں وہ گانا سن سکتے ہیں۔ بات یہاں بھی ختم نہیں ہوتی کہ اب تو ہر انسان کے پاس اس دور میں موبائل فون ہے، جس میں وہ من پسند گانے سن سکتا ہے۔

لیکن مجال ہے کہ ایف ایم چینلز یہ بات سوچ لیں۔ ناجانے یہ کیوں نہیں سوچتے کہ ایک بندہ اگر اپنی گاڑی میں سفر کرتا ہے تو وہ میوزک پلیئر پر یہی گانے سنتا ہے، بس میں سفر کرتا ہے تو وہاں یہی گانے سنائی دیتے ہیں، پھر جب وہ تھکا ہارا گھر آتا ہے اور ریڈیو ٹیون کرتا ہے تو بھی اسے یہاں بھی یہی گانے سنائی دیں گے تو کیا فائدہ ریڈیو سننے کا؟ یقین جانیے کہ اتنے گانے تو خود بھارتی ریڈیو بھی نشر نہیں کرتے ہوں گے جتنے ہمارے ایف ایم چینلز نشر کرتے ہیں۔ سمجھ سے بالاتر ہے کہ آخر وہ کیا معاملہ ہے کہ ماضی کی طرح آج ریڈیو چینلز معلوماتی پروگرامات، بچوں کے پروگرامات، ڈرامے چلانے کے قاصر ہیں؟

کیا آپ بلاگر کی رائے سے اتفاق کرتے ہیں؟

نوٹ: ایکسپریس نیوز  اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر،   مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف  کے ساتھ  [email protected]  پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جاسکتے ہیں۔

محمد ارشد قریشی

محمد ارشد قریشی

ریڈیو لسننگ سے وابسطہ ہیں، اکثر ریڈیو میں لکھتے ہیں۔ شعر و شاعری اور سماجی کاموں سے دلچسپی رکھتے ہیں

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔