لیکن یہ اتحاد عوام کے لیے کیوں نہیں ہوتا

جاوید چوہدری  جمعرات 12 مارچ 2015
www.facebook.com/javed.chaudhry

www.facebook.com/javed.chaudhry

لیکن آپ یہ بھی تو کر سکتے ہیں‘ یہ درست ہے‘ آپ چاہتے تو بلوچستان میں اپنی حکومت بنا سکتے تھے‘ آپ کے پاس بلوچستان میں 22 ایم پی ایز ہیں‘ آپ مولانا فضل الرحمن کے آٹھ ایم پی ایز کو ساتھ ملاتے‘ آپ ان میں پختونخواہ ملی عوامی پارٹی کے14 اور اے این پی کا ایک رکن ملا لیتے تو آپ بلوچستان میں مضبوط اور شاندار حکومت بنا سکتے تھے مگر آپ نے بلوچستان میں سیاسی طالع آزمائی کے بجائے بلوچوں کے مینڈیٹ کو تسلیم کیا اور آپ نے وہاں غیر متنازعہ‘ شفاف اور مہذب سیاستدان ڈاکٹر عبدالمالک کو وزیراعلیٰ اور محمود خان اچکزئی کے بھائی محمد خان اچکزئی کو گورنر بنا دیا اور یوں تاریخ میں پہلی بار بلوچستان میں اصلی‘ کھری اور غیر متنازعہ قیادت سامنے آئی‘ یہ آپ کی سیاسی بالغ نظری اور افہام و تفہیم کی سیاست تھی۔

ہم اس کی قدر کرتے ہیں لیکن افہام و تفہیم کی ایک اور تجویز بھی ہے‘ آپ یہ بھی تو کر سکتے ہیں! وزیراعظم صاحب یہ درست ہے آپ چاہتے تو عمران خان خیبر پختونخواہ میں حکومت نہیں بنا سکتے تھے‘ آپ کے پاس وہاں 17 ایم پی ایز ہیں‘ آپ ان میں مولانا فضل الرحمن کے 17 ‘ آفتاب خان شیر پاؤ کے 10 ‘ پاکستان پیپلزپارٹی کے 5 ‘ عوامی جمہوری اتحاد کے 5 ‘ اے این پی کے 5‘ جماعت اسلامی کے 8 اور دو آزاد ارکان شامل کر لیتے تو خیبر پختونخواہ میں مضبوط حکومت بنا لیتے اور یوں عمران خان کو سرکاری ہیلی کاپٹروں کی سہولت حاصل ہوتی‘ پروٹوکول ملتا اور نہ ہی سیکیورٹی لیکن آپ نے کے پی کے میں عمران خان کا مینڈیٹ بھی تسلیم کر لیا‘ آپ نے وہاں پرویز خٹک کی حکومت بننے دی ۔

آپ نے دھرنوں کے درمیان بھی پرویز خٹک کی حکومت نہیں گرنے دی‘ یہ بھی آپ کی بالغ نظری اور افہام و تفہیم کی سیاست تھی‘ ہم اس کی قدر کرتے ہیں لیکن افہام و تفہیم کی ایک اور تجویز بھی ہے‘ آپ یہ بھی تو کر سکتے ہیں‘ وزیراعظم صاحب یہ بھی درست ہے‘ آپ نے 5 جون 2013ء کو اقتدار سنبھالا‘ آزاد کشمیر میں اس وقت پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت تھی‘ آپ کو آزاد کشمیر میں عدم اعتماد کرنے اور وہاں اپنی حکومت لانے کا مشورہ دیا گیا‘ مظفر آباد میں سیاسی جوڑ توڑ بھی شروع ہوا لیکن عین وقت پر خورشید شاہ نے خواجہ آصف سے رابطہ کیا‘ اپوزیشن لیڈر نے آپ کو سمجھایا اور آپ نے نہ صرف آزاد کشمیر میں پاکستان پیپلزپارٹی کی حکومت کو تسلیم کر لیا بلکہ یہ حکومت آج تک قائم بھی ہے۔

یہ بھی آپ کی بالغ نظری اور افہام و تفہیم کی سیاست تھی‘ ہم اس کی قدر بھی کرتے ہیں لیکن افہام و تفہیم کی ایک اور تجویز بھی ہے‘ آپ یہ بھی تو کر سکتے ہیں‘ وزیراعظم صاحب یہ درست ہے آپ نے گلگت بلتستان میں بھی پاکستان پیپلزپارٹی کا وزیراعلیٰ اور گورنر برداشت کیا‘ آپ نے 31 جنوری 2014ء کوسندھ میں تھرکول بجلی منصوبے کا افتتاح کیا ‘ آپ سابق صدر آصف علی زرداری کو وہاں ساتھ لے گئے اور آپ نے 9 مارچ کو ملتان کے جدید ائیر پورٹ کا افتتاح کیا تو آپ نے سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کا ہاتھ پکڑا اور انھیں بھی ساتھ اسٹیج پر لے کر گئے‘ یہ بھی آپ کی بالغ نظری اور افہام وتفہیم کی سیاست تھی اور ہم اس کی قدر بھی کرتے ہیں لیکن افہام و تفہیم کی ایک اور تجویز بھی ہے‘ آپ یہ بھی تو کر سکتے ہیں۔

یہ درست ہے آپ نے ملک میں آل پارٹیز کانفرنس کا کلچر بھی متعارف کرایا‘ آپ سیاسی بحرانوں میں سیاسی قیادت کو ساتھ لے کر بھی چلتے ہیں‘ آپ نے عمران خان کے دھرنے کے مقابلے کے لیے ملک کی تمام سیاسی جماعتوں کو اکٹھا کیا اور ملک کی سیاسی قیادت نے مل کر سیاسی نظام بچا لیا‘ یہ بھی آپ کی بالغ نظری اور سیاسی افہام و تفہیم کی سیاست تھی اور ہم اس کی قدر بھی کرتے ہیں لیکن افہام و تفہیم کی ایک اور تجویز بھی ہے‘ آپ یہ بھی تو کر سکتے ہیں۔

وزیراعظم صاحب ! آپ قوم کے ساٹھ سال سے سلگتے دیرینہ ایشوز پر بھی تو سیاسی قیادت کو اکٹھا کر سکتے ہیں مگر آپ نے آج تک افہام وتفہیم کی یہ سیاست نہیں کی‘ کیوں؟ کیا آپ کو یہ معلوم نہیں پاکستان میں صدر ہوں‘ وزیراعظم ہوں‘ چیف جسٹس ہوں یا پھر عمران خان ہوں کسی شخص کو انصاف نہیں ملتا‘ ملک میں جج کم ہیں اور مقدمے زیادہ ‘ جیلیں کم ہیں اور مجرم زیادہ ‘ لوگ چوری کا مقدمہ لے کر عدالت جاتے ہیں اور مقدمہ لڑتے لڑتے سارا ترکہ کھو بیٹھتے ہیں‘ ملک میں خواتین جوانی میں خلع کی درخواست دیتی ہیں اور بڑھاپے میں طلاق پاتی ہیں‘ ملک میں انصاف نہیں ملتا‘ خریدنا پڑتا ہے۔

کیا آپ یہ جانتے ہیں ملک پولیس گردی کا شکار ہے‘ پولیس عام شہریوں کے ساتھ مفتوحہ علاقوں کے غلاموں جیسا سلوک کرتی ہے‘ پولیس مقابلے عام ہیں‘ پولیس رشوت کے بغیر ایف آئی آر نہیں کاٹتی‘ پولیس کے سامنے لوگوں کو اینٹیں مار مار کر قتل کر دیا جاتا ہے‘ تھانے بکتے ہیں‘ مجرموں کو پولیس میں بھرتی کیا جاتا ہے‘ ایم پی ایز اور ایم این ایز اپنے علاقوں میں ایس پی تک اپنے لگواتے ہیں اور پولیس کسی بھی شخص کو کسی بھی وقت گولی مار دیتی ہے‘ کیا آپ یہ نہیں جانتے ملک میں ٹارگٹ کلنگ‘ بھتہ خوری اور اغواء برائے تاوان باقاعدہ پیشہ بن چکا ہے‘ کراچی سے پشاور تک باقاعدہ مافیاز ہیں۔

یہ مافیاز روزانہ سیکڑوں لوگوں کو اغواء کرتے ہیں‘ ان سے کروڑوں اربوں روپے وصول کرتے ہیں اور ریاست جانتے بوجھتے خاموش رہتی ہے‘ کیا آپ یہ نہیں جانتے ملک میں کرپشن ریاستی رگوں کا حصہ بن چکی ہے‘ عوام ملک میں رشوت کے بغیر کوئی جائز کام نہیں کروا سکتے‘ سرکاری اہلکار مسجدوں‘ درگاہوں اور قبرستانوں تک سے رشوت وصول کرتے ہیں‘ کیا آپ یہ نہیں جانتے ہمارا معیار تعلیم انتہائی پست ہے‘ ہم ڈگری کو تعلیم قرار دیتے ہیں۔

ہمارے ملک میں میٹرک پاس طالب علم اہلیت میں ایم اے سے بہتر ہوتے ہیں‘ ہماری یونیورسٹیاں تعلیمی ادارے نہیں ہیں‘ یہ ڈگریاں شایع کرنے والے پرنٹنگ پریس ہیں‘ کیا آپ یہ نہیں جانتے ملک میں کسی شہری کو صحت کی سہولت حاصل نہیں‘ ریاست اسپتالوں پر اربوں روپے خرچ کرتی ہے لیکن یہ اسپتال کسی شخص کو علاج کی پوری سہولت فراہم نہیں کر پاتے‘ کیا آپ یہ نہیں جانتے دنیا پولیو کی وجہ سے پاکستانیوں پر سفری پابندیاں عائد کر رہی ہے‘ ملک میں دل کے امراض میں اضافہ ہو رہا ہے‘ ہم ہیپا ٹائٹس‘ گردوں کی بیماریوں‘ ٹی بی اور شوگر میں دنیا کے اولین ملکوں میں شمار ہوتے ہیں۔

ہمارے ملک میں آبادی کنٹرول کرنے کا کوئی میکنزم نہیں‘ ہمارے ملک میں کوئی ایک ایسا شہر نہیں جس میں پینے کا صاف پانی ملتا ہو‘ ہم دنیا کے ان چند ممالک میں شمار ہوتے ہیں جہاں رات بارہ بجے تک مارکیٹیں کھلی رہتی ہیں‘ ہماری تجارتی پالیسی فرسودہ ہے‘ ہمارے ملک میں ادویات کی تیاری کا کوئی نظام موجود نہیں‘ ہمارے ریاستی ادارے کام نہیں کرتے‘ ہمارے ملک میں ڈیڑھ سو سال پرانا دفتری نظام چل رہا ہے‘ ریاست لوگوں کو کام کرنے کی عادت نہیں ڈال پائی‘ ملک میں اسپورٹس اور گراؤنڈز نہیں ہیں‘ ہم مذہبی شدت پسندی کا شکار ہیں‘ ہمارے ملک میں کوئی شخص کسی بھی وقت کسی کو بھی کافر قرار دے سکتا ہے‘ آپ مسجد کے نام پر کسی بھی سرکاری جگہ پر قبضہ کر سکتے ہیں اور ہمارے ملک میں کتاب کا کلچر نہیں‘ ہمارے ملک میں پروفیسر حضرات بھی کتابیں نہیں پڑھتے اور کیا آپ یہ بھی نہیں جانتے ہم ایک گندی قوم ہیں‘ ہم درخت کاٹ کر چولہوں میں جلا دیتے ہیں۔

ہم گھر کا کوڑا سڑک پر پھینک دیتے ہیں‘ قومی اسمبلی کے واش رومز میں بھی صابن نہیں ہوتا‘ ملک میں خوراک اور ادویات کو خالص رکھنے کا کوئی بندوبست نہیں‘ ہمارے ملک میں لوگ مردار جانوروں کا گوشت بیچ رہے ہیں‘ کھانے پینے کی اشیاء میں کپڑے رنگنے کے رنگ ڈالے جاتے ہیں‘ ہم آج 2015ء میں بھی الیکشنوں میں دھاندلی کراتے ہیں‘ ہماری سیاسی جماعتیں سیاسی جماعتیں کم اور مفاد پرستوں کے ٹولے زیادہ ہیں‘ ہمارے ملک میں سیاستدانوں کی گرومنگ کا کوئی ادارہ نہیں‘ ہمارے ملک میں طاقتور لوگ قانون بھی ہیں اور عدالت بھی‘ ہم نے آج تک ملک میں خشک سالی اور سیلاب سے بچنے کا کوئی نظام نہیں بنایا‘ ہم سردیوں اور گرمیوں میں پانی کی کمی سے مرتے ہیں اور برسات میں سیلابوں میں غوطے کھاتے ہیں۔

ہمارے ملک میں ٹیکس جمع کرنے کا کوئی مضبوط نظام نہیں‘ 20 کروڑ لوگوں کے ملک میں 10 لاکھ لوگ ٹیکس دیتے ہیں‘ آپ ملک میں جتنے مضبوط اور طاقتور ہوتے جاتے ہیں‘ آپ کا ٹیکس اتنا ہی مختصر ہوتا جاتا ہے‘ کیا آپ نہیں جانتے ملک میں اندھوں کو بھی ڈرائیونگ لائسنس مل جاتے ہیں‘ ہم روڈ ایکسیڈنٹس میں پوری دنیا میں پہلے پانچ نمبروں میں شمار ہوتے ہیں اور کیا آپ یہ نہیں جانتے پاکستان غیر قانونی اسلحہ کا ڈپو بن چکا ہے‘ ملک میں توپ اور راکٹ لانچر تک مل جاتے ہیں۔

وزیراعظم صاحب آپ اگر یہ حقائق جانتے ہیں تو پھر آپ نے ان عوامی مسائل کے حل کے لیے آج تک بالغ نظری اور سیاسی افہام تفہیم سے کام کیوں نہیں لیا؟ آپ نے ان مسائل کے حل کے لیے کوئی اے پی سی کیوں نہیں بلائی؟ آپ نے ان مسائل کے مستقل حل کے لیے آج تک سیاسی قیادت کو اکٹھا کیوں نہیں کیا؟آپ کو جب سینیٹ کے چیئرمین کی ضرورت پڑتی ہے تو آپ 17 سال بعد میاں شہباز شریف کے ذریعے الطاف حسین سے رابطہ کر لیتے ہیں‘ آپ پرویز رشید اور خواجہ سعد رفیق کا وفد بنا کر چوہدری شجاعت حسین کے گھر بھجوا دیتے ہیں‘ آپ آصف علی زرداری اور عمران خان سے بھی کانٹیکٹ کر لیتے ہیں اور آپ بلوچستان‘ سندھ‘ کے پی کے اور پنجاب کے ناراض سیاسی گروپوں کو بھی فون کر لیتے ہیں لیکن جب عوام کی باری آتی ہے۔

عوامی مسائل کا سوال اٹھتا ہے تو آپ کو اے پی سی یاد آتی ہے اور نہ ہی آپ کسی سیاسی فریق سے رابطے کرتے ہیں‘ وزیراعظم صاحب قوم اگر آپ کی بالغ نظری اور افہام و تفہیم کی سیاست کا اعتراف کرتی ہے تو پھر آپ کو یہ حقیقت بھی ماننا ہو گی‘ اس اسلامی جمہوریہ پاکستان میں اگر فوج چاہے تو عمران کا دھرنا  ختم ہوجاتا ہے ‘پاکستان کی ناراض سیاسی قیادت اکٹھی ہو جاتی ہے اور ایک ہی دن میں 21 ویں ترمیم بھی پاس ہو جاتی ہے اور اگر سیاسی قائدین کے مفادات کا مسئلہ ہو تو میاں شہباز شریف الطاف حسین کو فون بھی کر لیتے ہیں اور حکومتی وفد چوہدری شجاعت کے گھر بھی چلا جاتا ہے لیکن جب عوام کا ایشو آتا ہے تو سیاسی قیادت آپس میں ملتی ہے۔

اے پی سی ہوتی ہے‘ پارلیمنٹ کا جوائنٹ سیشن ہوتا ہے اور نہ ہی کوئی آئینی ترمیم ‘ کیوں؟وزیراعظم صاحب کیوں؟ آپ کی سیاسی بالغ نظری اور افہام و تفہیم کی سیاست صرف اپنی اور اپنے سیاستدان بھائیوں تک کیوں محدود ہے؟ عوام اس میں کیوں نہیں آتے؟ آپ ایک لمحے کے لیے ضرور سوچئے گا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔