سندھ کی ممکنہ مخلوط حکومت؟

ظہیر اختر بیدری  ہفتہ 14 مارچ 2015
zaheer_akhter_beedri@yahoo.com

[email protected]

اطلاعات کے مطابق متحدہ ایک بار پھر سندھ حکومت کا حصہ بننے جا رہی ہے، بادی النظر میں تو متحدہ کا یہ فیصلہ خوش آیند نظر آتا ہے لیکن جب تک حکومت میں شمولیت کے مقاصد واضح نہ ہوں، پیدا شدہ کشیدہ صورتحال بہتر نہ ہو، عوام اسے روٹین کی ایک بے مقصد پریکٹس کے سواکوئی اور نام دیں گے نہ کسی قسم کی توقعات اس اتحاد سے وابستہ کریں گے۔

ہمارے ملک کی پوری تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ جب اور جہاں مخلوط حکومتیں بنی ہیں وہاں عموماً وزارتیں، سفارتیں اور سیاسی مفادات ہی مخلوط حکومت کی اولین ترجیح بنے رہے اور المیہ یہ رہا کہ ان امور پر سودے بازی کے باوجود اس قسم کی مخلوط حکومتیں زیادہ عرصے نہ چل سکیں اس کی ایک وجہ تو سیاسی مفادات کی ترجیحات رہیں دوسری وجہ عدم اعتماد شکوک و شبہات اور تیسری وجہ وزرا کے کاموں میں مداخلت اور انھیں بے دست و پا بنانے کی کوششیں رہیں۔

پچھلی مخلوط حکومت میں بھی متحدہ کو مسلسل یہ شکایت رہی کہ سندھ حکومت نے نہ صرف متحدہ کے وزرا کو بے دست و پا بنا کر رکھا بلکہ ان کے کاموں میں غیر ضروری مداخلت کر کے ان کی آزادانہ کارکردگی کی راہ میں روڑے اٹکائے۔ اس قسم کی سیاست میں غیر یقینیت ایک ایسا عنصر بن جاتی ہے کہ نہ حکومت سنجیدگی اور خلوص نیت سے کام کر سکتی ہے نہ اس کی اتحادی جماعت یا جماعتیں کوئی بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کر سکتی ہیں۔ اس قسم کے رویے اس لیے نہ حیرت انگیز ہوتے ہیں نہ خلاف توقع کیونکہ بورژوا سیاست میں سیاسی مفادات ہی سیاسی جماعتوں کی اولین ترجیح ہوتے ہیں۔

جو اطلاعات میڈیا میں آ رہی ہیں ان کے مطابق اس بار متحدہ حکومت میں شامل ہونے سے پہلے ’’اہم امور‘‘ پر تحریری معاہدہ کرنے پر زور دے رہی ہے۔

کسی مخلوط حکومت میں شمولیت سے پہلے ’’اہم امور‘‘ پر تحریری معاہدہ ہو جائے تو اس قسم کے معاہدے مخلوط حکومت میں غیر یقینیت کی فضا کو ختم کرنے میں معاونت کرتے ہیں اور مخلوط حکومتیں سنجیدگی اور مستقل مزاجی سے کام کرسکتی ہیں۔ مخلوط حکومتیں کوئی عجوبہ نہیں ہندوستان جیسے دنیا کے دوسرے بڑے ملک میں مخلوط حکومتیں بنتی رہی ہیں سابقہ کانگریسی حکومت بھی مخلوط تھی اور اس حکومت نے بحرانوں سے بچتے ہوئے اپنی مدت پوری کی۔

پیپلز پارٹی اپنی کمزوریوں کے باوجود نظریاتی حوالے سے اپنی روشن خیالی کے ذریعے پہچانی جاتی ہے۔ مثلاً مذہبی انتہا پسندی کے حوالے سے پی پی کا موقف بہت واضح اور ترقی پسندانہ ہے اور متحدہ تو مذہبی انتہا پسندی کے خلاف اپنے واضح موقف کی وجہ سے اپنے کارکنوں کی قربانیاں دیتی رہی ہے۔

کراچی اب تک دہشت گردی اور مذہبی انتہا پسندی سے نجات حاصل نہیں کر سکا، ہر روز ٹارگٹ کلنگ میں بے گناہ انسان مارے جا رہے ہیں۔ کراچی کا ایک بہت بڑا مسئلہ گینگ وار ہے جو عشروں کی لگاتار کوششوں کے باوجود ختم نہ ہو سکی۔ گینگ وار اگرچہ  لیاری کے دو متحارب گروپوں کی مفاداتی جنگ کہلاتی ہے لیکن باضمیر حلقوں کا خیال ہے کہ ٹارگٹ کلنگ میں بھی مذہبی انتہا پسندی اور دہشت گردی ایک اہم اور بڑے عنصر کی حیثیت سے شامل ہے۔

اگر پی پی پی اور متحدہ مذہبی انتہا پسندی کو ختم کرنے میں سنجیدہ ہیں تو مخلوط حکومت کے امکانی معاہدے میں اس مسئلے کو سرفہرست رکھنا چاہیے۔ متحدہ عشروں سے جاگیردارانہ نظام کی مخالفت کر رہی ہے۔ قومی مسائل میں ایک اہم مسئلہ جاگیردارانہ نظام کا خاتمہ ہے لیکن اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ یہ نظام پاکستان میں اب بھی اس قدر مستحکم ہے کہ پاکستان کی پوری سیاست اسی محور کے گرد گھومتی ہے اور نہ ہی کسی ملک میں جاگیردارانہ نظام محض بیانات اور مذمتوں سے ختم ہوا ہے۔

جن ملکوں میں اقتدار لبرل طاقتوں کے ہاتھوں میں رہا انھوں نے جاگیردارانہ نظام کے خاتمے کو اپنی اولین ترجیح بنائی۔ بھارت سمیت کئی ملکوں میں اس ننگ انسانیت نظام کا خاتمہ پہلی فرصت میں کیا گیا۔ چونکہ پاکستان میں قیام پاکستان کے بعد ہی سے فیوڈلز اقتدار میں رہے لہٰذا پاکستان میں یہ نظام باقی بھی رہا مستحکم بھی رہا۔ متحدہ کے لیے یہ ایک بہترین موقعہ ہے کہ وہ حکومت میں شمولیت کے مسئلے پر جو ممکنہ معاہدہ کرنا چاہتی ہے اس معاہدے میں زرعی اصلاحات کو شامل کرائے۔

اگر متحدہ اس ممکنہ معاہدے میں زرعی اصلاحات کو شامل کراتی ہے تو نہ صرف عوام میں اس کی مقبولیت میں اضافہ ہو گا بلکہ وہ اپنے مڈل کلاس کردار کی پاسداری بھی کر سکے گی۔

پی پی پر اب بھی فیوڈلز کی بالادستی کی شکایت عام ہے لیکن پی پی میں ایسے عناصر کافی تعداد میں موجود ہیں جو خود پی پی کے طویل المدتی مفادات اور سیاسی ترقی کے حامی ہیں اگر متحدہ اس قسم کی کوئی شرط ممکنہ معاہدے میں شامل کرانا چاہتی ہے تو پیپلزپارٹی کے روشن خیال حلقوں کو اس کی غیر مشروط حمایت کرنی چاہیے۔

پاکستان کے سیاستدانوں نے بڑی ہوشیاری سے نان ایشوز کو بڑے ایشوز بنا کر ہمیشہ اہم قومی مسائل کو پس پشت ڈالنے کی کامیاب کوششیں کی ہیں۔ مثلاً آج عوام بجلی گیس کی لوڈشیڈنگ اور مہنگائی کو اپنا سب سے بڑا مسئلہ سمجھتے ہیں حالانکہ یہ ایک سیاسی مافیا کے پیدا کردہ وہ مسائل ہیں جن کے ذریعے ملک کے اصل مسائل سے عوام کی توجہ ہٹائی جا رہی ہے۔

ان اہم اور اصل مسائل میں ایک مسئلہ بلدیاتی نظام کا نفاذ ہے، اس نظام کے نفاذ سے بالادست طبقات کی اقتدار پر گرفت کمزور پڑ جاتی ہے اور انتظامی اور مالی اختیارات نچلی سطح تک آ جاتے ہیں جو نہ صرف علاقوں کے مسائل سے انتظامی اور مالی اختیارات چھین کر اسے بے بس بنا سکتے ہیں۔

ہمارے موجودہ نظام میں انتخابات اشرافیہ کے ہاتھوں میں ایک ایسا ہتھیار بن گئے ہیں جن کے ذریعے وہ اپنا فیوڈل کردار جمہوری بنا لیتے ہیں متحدہ نے بڑی جانفشانی سے مڈل کلاس کے لوگوں کو قانون ساز اداروں میں پہنچایا ہے لیکن ان اداروں میں ان کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہے اور صرف کروڑپتی ارب پتی حضرات انتخابات میں حصہ لینے کی عیاشی کر سکتے ہیں ۔

اگر متحدہ اپنے ممکنہ معاہدے میں انتخابی نظام میں تبدیلی کی شرط رکھوا سکتی ہے تو پھر قانون ساز اداروں میں مڈل اور لوئر مڈل کلاس کے باصلاحیت اور مخلص لوگ اتنی بڑی تعداد میں پہنچ جائیں گے کہ قانون ساز اداروں سے اشرافیہ کی اجارہ داری ختم ہو جائے گی۔

یہ بات کسی سے پوشیدہ نہیں ہے کہ اہل نوجوان میرٹ کا نظام نہ ہونے سے روزگار حاصل کرنے سے معذور ہو گئے ہیں اور کرپٹ اشرافیہ کھلے عام نوکریاں بیچ کر اربوں روپے کماتی رہی ہے۔ متحدہ ممکنہ معاہدے میں اس مسئلے کو بھی شامل کرائے کہ ملازمتیں صرف اور صرف میرٹ پر ملیں گی ملازمتیں بیچنے کا دھندا ختم ہو جائے گا۔

مہنگائی سے اس ملک کا ہر شہری پریشان ہے مہنگائی کی ایک صورت سرمایہ دارانہ نظام کی پیداوار ہے لیکن ہمارے ملک میں مہنگائی کی بڑی وجہ منافع خوری کا بے لگام نظام ہے اگر پی پی اور متحدہ ناجائز منافع خوری کے سختی سے خاتمے کو اپنے ایجنڈے میں شامل کرتے ہیں تو مہنگائی کے گلے میں رسی ڈالنا آسان ہو سکتا ہے۔

یہ چند ایسی شرائط ہیں جن پر مخلوط حکومت کو متفق ہونا چاہیے اگر روایتی معاہدے ہوتے رہے تو وہی سب کچھ ہوتا رہے گا جو 67 سالوں سے ہو رہا ہے اور مخلوط حکومت صرف سیاسی مفادات کے محور پر گھومتی رہے گی۔ اس کالم کی اشاعت تک مخلوط حکومت بن بھی گئی تو ہماری تجاویز بہرحال باقی رہیں گی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔