پاکستان کے عوام اور گدھ

آفتاب احمد خانزادہ  ہفتہ 14 مارچ 2015

’’ایک گدھ اپنی چونچ سے میرے پیروں سے گو شت نوچ رہا تھا،اس نے میرے جوتوں کو چیر پھاڑدیا اور جرابوں کوکھسو ٹ لیا تھا اوراب میرے پیروں کا گوشت نوچ رہا تھا ، باربار وہ پیروں پر چونچ مارتا بے چینی سے بار بار میرے گرد چکرکاٹتا اور پھر واپس اپنے کام میں جت جاتا۔ ایک معزز شخص میرے قریب سے گذرا کچھ دیر یہ منظر دیکھا کیا پھر مجھ سے پوچھا کہ میں کیوں اس گدھ کو برداشت کر رہا تھا۔

میں بے بس ہوں میں نے کہا، جب یہ آیا اور مجھ پر حملہ کرنے لگا تو میں نے واقعی اس پر ے دھکیلنے کی کوشش کی تھی۔ اس کا گلا گھونٹنے کی بھی کوشش کی تھی لیکن یہ بہت طاقتور ہوتے ہیں یہ میرے چہرے پر حملہ کرنے کے لیے پر تول رہا تھا لیکن میں نے اپنے پیروں کی قربانی دینے کو ترجیح دی اب تو قریب قریب یہ کٹ پھٹ ہی گئے۔

حیرت ہے تم گدھ کی زیادتی برداشت کررہے ہو معزز شخص نے کہا، ایک گولی سے یہ گدھ ختم ہوجائے گا ۔کیا واقعی میں نے حیرت سے پوچھا کیا تم ایسا کرو گے۔ بخوشی معزز شخص بولا ۔ مجھے گھر تک جانا ہوگا تاکہ اپنی بندوق لے آؤں، کیا تم آدھا گھنٹہ انتظار کرسکتے ہو۔ میں اس بارے میں یقین سے کچھ نہیں کہہ سکتا میں نے کہا اور کچھ دیر درد سے کراہتا رہا۔ پھر بولا براہ کرم پھر بھی جلدی آنے کی کوشش کرنا بہت اچھا معزز شخص بولا، ممکنہ حد تک جلدی آنے کی کوشش کروں گا۔

گفتگو کے دوران میں گدھ نہایت اطمینان سے سن رہا تھا، نظریں میرے اور معزز شخص کے درمیان پھراتے ہوئے اب مجھے احساس ہوا کہ وہ ہر بات سمجھ گیا تھا۔ اس نے اپنے پر پھیلائے طاقت حاصل کرنے کے لیے گردن پیچھے گرائی اور پھرنیزہ پھینکنے والے کی طرح اپنی چونچ میرے منہ میں گھسیٹر دی میرے بہت اندر تک ۔ پھر اس نے گردن پیچھے کھینچی تو اسے میرے خون میں غرق محسوس کرکے مجھے دلی طمانیت ہوئی جو ہر گہرائی میں گر رہا ہر ساحل کو بھگو رہا تھا ‘‘ یہ کافکا کی لکھی ہوئی کہانی ’’گدھ ‘‘ ہے۔

اسے پڑھتے ہی یکایک ایسا لگتا ہے کہ یہ صرف ایک کہانی ہی نہیں ہے بلکہ ایک پورا سچ ہے ہمارا اپنا سچ ۔جو 18 کروڑ پاکستانی ایک ساتھ ایک زبان بیان کررہے ہیں، فرق صرف اتنا سا ہے کہ کافکا کی اس کہانی میں ایک گدھ ہے جب کہ 18 کروڑ پاکستانیوں کی کہانی میں بہت سارے گدھ ہیں جو ایک ساتھ مل کر 18کروڑ پاکستانیوں کا گوشت نوچ نوچ رہے ہیں۔

بس ان گدھوں نے نقاب کوئی اور پہن رکھے ہیں کسی نے نقاب جاگیردار کا پہن رکھا ہے، کسی نے سرمایہ دارکا کسی نے سیاست دان کا کسی نے بیوروکریٹ کا کسی نے بزنس مین کا تو کسی نے ملا کا۔ لیکن ہر گدھ اپنا اصل کام بخوبی سر انجام دے رہا ہے اور ہم 18کروڑ انسان چپ چاپ اپنا اپنا گوشت نوچوا رہے ہیں بغیر کسی مزاحمت کے بغیرکسی احتجاج اور چیخے چلائے بغیر ۔

آپ کو ایسے صابرین دنیا میں ڈھونڈیں نہیں ملیں گے جنہوں نے اپنی خوشی سے اپنی مرضی سے گدھوں کو یہ سب کچھ کرنے کی اجازت دے رکھی ہے 18 کروڑ انسانوں کا اجازت نامہ ان کے پاس ہے کہ آپ جب چاہیں جس وقت چاہیں ہمارا گو شت نوچ سکتے ہیں ہمیں ادھیڑ سکتے ہیں۔

شو پہنارکہتا ہے انسان کی بدترین خاصیت دوسروں کی تکالیف سے مزا لینا ہے۔ ظلم وزیادتی کی آج پاکستان سب سے زیادہ وحشت زدہ تصویر ہے ،جسے دیکھ کر انسان دہشت زدہ ہو جاتا ہے۔ یاد رہے اپنی ذات کا درد کسی دور دراز کے ملک کے اس قحط سے زیادہ تکلیف دہ ہوتا ہے جو لاکھوں افراد کی موت کا باعث ہوتا ہے اپنی گردن کا پھوڑا افریقہ کے چالیس زلزلوں سے زیادہ تکلیف دہ معلوم ہوتاہے لیکن نہ نجانے کیوں ہمیں اپنے آپ پر ترس نہیں آتا ہے رحم نہیں آتا ہے۔

کیا ہمیں اپنے آپ سے نفرت ہوگئی ہے جو ہم ہر ظلم و زیادتی پر خاموش ہیں۔ کیوں تمام ذلتوں کو چپ چاپ سہہ رہے ہیں ہماری حیثیت فقط ان غلاموں کی سی ہوگئی ہے جو ذرا سی روگردانی کریں تو ہماری پیٹھ پرکوڑے برسنے لگتے ہیں، ہم روزگل سٹر رہے ہیں ، روز قتل کیے جاتے ہیں اور پھر روز زندہ کیے جاتے ہیں ۔ ہر طرف مردار خورگدھوں کی اڑانیں ہیں حیرت تو اس بات پر ہوتی ہے کہ یہ انسان نماگدھ لوگ اپنے نامہ اعمال پر شرمندہ کیوں نہیں ہوتے انھیں انسانیت کا سامنا کرنے کی جرأت کیسے ہوتی ہے۔

یہ اپنا چہرہ آئینے میں دیکھ کر ڈرتے کیوں نہیں ہیں انھیں اپنے آپ سے گھن کیوں نہیں آتی ہے، انھیں اپنے آپ میں سے بدبو کے اٹھتے بھبھکوں سے نفرت کیوں نہیں ہوتی ہے دوسری طرف اس بات پر زیادہ حیرت ہوتی ہے کہ لوگ سارے عذابوں کے سامنے چپ چاپ کیوں ہیں وہ اپنے ساتھ یہ سب کچھ کیوں ہونے دے رہے ہیں۔ اینڈی وار ھول کہتا ہے ’’ وہ کہتے ہیں کہ وقت چیزوں کو بدل دیتا ہے لیکن اصل میں آپ کو انھیں خود بدلنا پڑتا ہے۔ ‘‘

شیزو فرینیا ایک شدید نوعیت کا ذہنی مرض ہے جس کی کئی علامتیں ہیں جن میں حقیقت کا احساس نہ رہنا بے ہنگم طرز عمل ، غیر منظم انداز میں سوچنا ، جذبات کے اظہار سے معذوری شامل ہیں۔ شیزوفرینیا کی اصطلاح یونانی الفاظ سے مشتق ہے جن کا مطلب بٹا ہوا ذہن بنتا ہے، ایک مرتبہ یہ بیماری لاحق ہوجائے تو باقی ساری زندگی اس کے اثر میں رہتی ہے اس بیماری میں مبتلا شخص حقیقی اور غیر حقیقی تجربات منطقی اور غیر منطقی سوچوں یا موزوں اور غیر موزوں رویے میں تمیز کرنے کے قابل نہیں ہوتا۔

کہیں ایسا تو نہیں ہے کہ ہم سب یعنی 18 کروڑ لوگ شیزو فرینیا کے مرض میں مبتلا ہوگئے ہیں اسی لیے ہم ہر ظلم و زیادتی و ناانصافی کے خلاف چپ سادھے بیٹھے ہیں، ہماری سمجھنے بوجھنے کی تمام صلاحیتیں اس بیماری کی وجہ سے ناکارہ ہوچکی ہیں ۔ ورنہ ہم ان تمام گدھوں کو جو ہمارا گوشت نوچ رہے ہیں مار نہ بھگاتے۔

اٹھ کھڑے نہ ہوتے خدارا اپنے لیے اپنے پیاروں کے لیے اٹھو اپنی آزادی اور اپنی خوشحالی اپنی ترقی کے لیے اٹھو اپنے ساتھ ہونے والے تمام عذابوں کو ختم کرنے کے لیے اٹھو ظالموں ، لٹیروں ، قاتلوں کو مار بھگاؤ لیکن اگر تم میں اٹھنے کی ہمت نہیں ہے تو پھر اپنے ساتھ یہ سب کچھ ہونے دو۔ گدھوں کو نوچنے دو۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔