دبئی ورلڈ ایکسپو 2020

ایم آئی خلیل  ہفتہ 14 مارچ 2015

اوپیک نے 1973 کے آخری ہفتوں میں تیل کی قیمتوں میں ترمیم کی طرف قدم اٹھایا،اس کا ایک خوشگوار پہلو یہ برآمد ہوا کہ تیل برآمد کرنے والے ملکوں کی آمدن میں زبردست اضافہ ہوا، ان میں تیل برآمدکرنے والے عرب ممالک خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔

دولت کی ریل پیل نے ان حکومتوں کو ترقی کی جانب تیزی سے راغب کیا، بڑے بڑے تعمیراتی منصوبے شروع کردیے گئے، متحدہ عرب امارات جوکہ مختلف عرب ریاستوں کا مجموعہ تھا وہاں کے حکمران نے اپنے ملک کی تعمیر و ترقی کی جانب خصوصی توجہ دی۔ متحدہ عرب امارات جوکہ تیل برآمد کرنے والا اہم ترین ملک ہے، اس کے شہر دبئی نے جلد ہی دنیا بھرکے لیے تجارتی مرکز کی حیثیت اختیار کرلی۔

جس کی اہمیت کو مد نظر رکھتے ہوئے 2013 کے اوائل میں ورلڈ ایکسپو منعقد کرنے والے منتظمین نے دبئی کا دورہ کیا تو انھوں نے ترکی، روس اور برازیل کے مقابلے میں ایکسپو 2020 کے لیے دبئی کو ترجیح دی۔ نومبر 2013 میں ہر طرح سے اطمینان کرلینے کے بعد دبئی میں عالمی ایکسپو 2020 منعقد کرنے کا اعلان ہوتے ہی دبئی کا برج خلیفہ رنگ و نور سے نہاگیا۔

اس کے ساتھ دبئی کے جبل علی کے ساتھ واقع جگہ پر دنیا کے سب سے بڑے تجارتی میلے کی تیاریاں شروع کردی گئیں۔ جوکہ 6 ماہ تک جاری رہے گا جس میں 4 کروڑ سے زائد افراد کی شرکت متوقع ہے۔ یعنی ہر ماہ تقریباً70 لاکھ افراد شریک ہوں گے، یعنی روزانہ کی بنیاد پر 2 لاکھ سے زائد افراد اس میلے میں شریک ہوں گے۔

ورلڈ ایکسپو دنیا کی سب سے بڑی تجارتی نمائش ہوئی ہے اور ہر 5 سال بعد یہ منعقد کیا جاتا ہے۔ 2020 ورلڈ ایکسپو دبئی کو ایک اچھوتا عنوان دیا گیا ہے ’’ذہنوں کے ملاپ سے بہتر مستقبل‘‘ اس ایکسپوکی اس لیے زیادہ اہمیت ہے کہ پہلے دنیا بھر کے صنعتی ملکوں میں نمائش منعقد کی جاتی رہی ہے لیکن پہلی دفعہ جنوب مشرقی ایشیا، مشرق وسطیٰ اور وسطی افریقہ اور اس خطے میں یہ شو منعقد ہورہاہے اس شو کے انعقاد کے اعلان کے ساتھ ہی مختلف ممالک نے اپنی منصوبہ بندیاں شروع کردی ہیں۔

جن میں ٹھیکے حاصل کرنا، تعمیراتی منصوبوں میں شریک ہونا، وہاں کام کرنے کے لیے ملازمین کی فراہمی کے لیے مختلف ممالک دلچسپی لے رہے ہیں تاکہ اپنے شہریوں کو وہاں روزگار دلوایا جائے اور ان کے زرمبادلہ میں اضافہ ہو۔

1973 کے بعد جب تیل کی بڑھتی ہوئی قیمت وصول ہونا شروع ہوئیں تو اس وقت سے خاص طور پر تیل برآمد کرنے والے مشرق وسطیٰ کے ملکوں نے ترقیاتی منصوبوں کا آغاز کردیا جس کے لیے ماہرین سے لے کر مزدور تک کی اشد ضرورت پیدا ہوئی جن کی تعداد لاکھوں میں بنتی تھی۔ ان کارکنوں کی تنخواہ بھی بہت زیادہ بن رہی تھیں۔

ان دنوں ملک میں پاکستان پیپلزپارٹی کی حکومت تھی۔ اس وقت کے سربراہ حکومت ذوالفقار علی بھٹو نے پاکستانیوں کو مشرق وسطیٰ کے ملکوں میں روزگار دلانے میں انتہائی اہم کردار ادا کیا۔ اپنے دور اقتدار میں بار بار مشرق وسطیٰ کے ملکوں کے دورے کیے۔ وہاں کے حکمرانوں کے ساتھ خصوصی مراسم قائم کیے، خاص طور پر متحدہ عرب امارات کے حکمرانوں سے گہری دوستی قائم کی۔ جس کے نتیجے میں وہاں کے حکمران بھی بار بار پاکستان تشریف لاتے رہے اور یہاں مفاد عامہ کے کئی منصوبوں کی بھرپور مالی امداد بھی کی۔

ان دنوں پاکستان سے لاکھوں کی تعداد میں ورکرز جن میں ہنرمند اور غیر ہنرمند ہر طرح کے لوگ شامل تھے متحدہ عرب امارات کے مختلف شہروں اور خاص طور پر دبئی میں ملازمت کرنے لگے اور خوش حال زندگی بسر کرنے لگے۔ حتیٰ کہ یہ محاورہ بھی مشہور ہوا ’’دبئی چلو‘‘ ایک دفعہ پھر دنیا بھر میں یہ آواز بلند ہو رہی ہے کہ ’’دبئی چلو‘‘ کیوں کہ یہاں 2020 میں دنیا کا بہت بڑا تجارتی میلہ بسنے والا ہے بہت سے ترقی پذیر ممالک کے نمایندے سیکڑوں کمپنیوں کے نمایندوں اور نجی طور پر کوشش کرنے والے افراد نے ان دنوں دبئی میں ڈیرے ڈال رکھے ہیں تاکہ اپنے ملک کے شہریوں اور افراد کے لیے ملازمت اور کام کے مواقعے اور دیگر ٹھیکوں سے بھرپور فائدہ اٹھایا جاسکے۔

وہاں ملازمت کے نئے مواقعے جو پیدا ہو رہے ہیں اس کے بارے میں مختلف اندازے پیش کیے جا رہے ہیں جوکہ 10 تا 15 لاکھ نئی ملازمتوں کے مواقعے کے بارے میں پیشن گوئی کی جا رہی ہے لیکن یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پاکستان نے حکومتی سطح پر کیا کوشش کی ہے؟ پاکستان کے لیے ایک بہترین موقع پیدا ہوا ہے کہ اپنے لاکھوں بیروزگار افراد جس میں ہنرمند بھی ہیں غیر ہنرمند بھی ہیں ان میں سے بہت سوں کے لیے دبئی میں روزگار کے مواقعے حاصل کیے جا سکتے ہیں۔

پاکستان کا حکمران طبقہ اعلیٰ سرکاری افسران، سیاست دان، کاروباری افراد جن کا دبئی آنا جانا لگا رہتا ہے، ایک رپورٹ کے مطابق 2014 میں پاکستانیوں نے دبئی میں 442 ارب روپے کی املاک خریدی ہیں۔ حکومت پاکستان کو فوری طور پر ایسے اقدامات کرنے کی ضرورت ہے جس سے پاکستان کو دبئی شو میں زیادہ سے زیادہ مواقعے حاصل ہوں۔

خاص طور پر جب کہ دبئی میں لاکھوں ملازمتوں کے ملنے کا آغاز ہوچکا ہے اور دیگر بہت سے ممالک ان مواقعوں سے مستفید ہوتے چلے جارہے ہیں وزیراعظم پاکستان کو فوری طور پر متحدہ عرب امارات اور دبئی کا دورہ کرنے کی ضرورت ہے اور وہاں کے حکام سے بات چیت کرکے پاکستانیوں کے لیے زیادہ سے زیادہ روزگار کے مواقعے حاصل کرنے کی ضرورت ہے۔ اگرچہ تمام تر منصوبہ بندی کرکے ملازمتوں کے حصول کا آغاز دیگر ملکوں نے نومبر 2013 سے ہی کردیا تھا لیکن پاکستانیوں کے لیے اب بھی بے شمار مواقعے جن میں ملازمت کے ٹھیکے اور بہت سے امور میں شرکت ہوسکتی ہے۔

لیکن اس کے لیے وزیراعظم پاکستان خصوصی دلچسپی لیں۔ وزرا وہاں کا دورہ کریں اور پاکستانیوں کے لیے زیادہ سے زیادہ روزگار کے مواقعے تلاش کریں کیوں کہ بیروزگاری پاکستان کا انتہائی پیچیدہ مسئلہ بن چکا ہے جسے ہر طریقے سے حال کرنے کی ضرورت ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔