یہ ایک صدی کا قصہ ہے ؛ سو سال سے قائم عباسی کُتب خانہ

سید بابر علی / اشرف میمن  اتوار 15 مارچ 2015
لوگ غیرنصابی کتابوں کو اس وقت خریدتے ہیں جب ان کے پاس ضروری اخراجات کے علاوہ کچھ پیسے بچ جائیں۔فوٹو : فائل

لوگ غیرنصابی کتابوں کو اس وقت خریدتے ہیں جب ان کے پاس ضروری اخراجات کے علاوہ کچھ پیسے بچ جائیں۔فوٹو : فائل

کسی بھی مہذب معاشرے کی تشکیل میں کتابیں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔ کتاب معاشرے کی عکاس ہوتی ہے۔

کتاب کو انسان کا بہترین دوست بھی قرار دیا جاتا ہے۔ تاہم ٹیکنالوجی کے میدان میں ہونے والی تیزرفتار ترقی کی بدولت ہم دانستہ اور نادانستہ طور پر اپنے اس بے لوث دوست سے محروم ہوتے جا رہے ہیں اور وہ دن دور نہیں جب ہماری آنے والی نسلیں کتاب اور کتاب گھر کے مطلب سے بے بہرہ ہوں گی۔

ہوسکتا ہے کہ اْن کے لیے کاغذ کے صفحات پر مشتمل کتاب ایک ایسی غیرمرئی شے ہو جو ماضی میں پائی جاتی تھی، کیوں کہ مطالعے کے رجحان کی کمی کے ساتھ ایک تبدیلی یہ بھی آئی ہے کہ آئی پیڈ، ٹیبلیٹ، اسمارٹ فون، اور اس جیسے دوسرے آلات نے کتاب کو برقیات میں تبدیل کر کے ’ای بک ‘ کا روپ دے دیا ہے۔ ان تمام عوامل کے باوجود مطالعے کے شوقین افراد کے لیے کتاب کی اہمیت اپنی جگہ موجود ہے۔ کتابوں کے دل دادہ افراد اچھی کتاب کی تلاش کے لیے کسی بھی جگہ پہنچ جاتے ہیں۔

کراچی میں علم کے پیاسوں کے لیے اُردو بازار نہایت اہمیت کا حامل ہے۔ مادیت پرستی کے اس دور میں جب لوگوں نے کتاب گھر بند کرکے دوسرے منافع بخش کاروبار کرلیے ہیں، ایک کتاب گھر ایسا بھی ہے جو ایک صدی سے زاید کا عرصہ گزر جانے کے باوجود شائقین کتب کی پیاس بجھانے کا سامان فراہم کر رہا ہے۔

1911میں قائم ہونے والے اس کتب خانے سے برصغیر کے مشہور شاعر، ادیب، حکیم، مورخ، عالم، دانش ور، وکیل، تاجر کتابیں خرید چکے ہیں۔

ان شخصیات میں مرزا قلیچ بیگ کے صاحب زادے مرزا افضل بیگ، فیض احمد فیض، پیر حسام الدین راشدی، ڈاکٹر داؤد پوتا، علامہ عبدالعزیز میمنی، خالد اسحاق ایڈووکیٹ، پیر الٰہی بخش کے والد حاجی مولابخش سومرو، رئیس احمد جعفری (مورخ)، پیر آغا جان سرہندی، احسان دانش، ماہر القادری، علامہ رشید ترابی، عقیل ترابی، علامہ یوسف بنوری، مولانا غلام مصطفی قاسمی، علی احمد، قاضی احمد میاں جوناگڑھی، علی احمد تالپور اور پاکستان کے تیسرے گورنر جنرل ملک غلام محمد کے بھائی ملک عبدالرشید سمیت سیکڑوں شخصیات شامل ہیں۔

دو عالمی جنگیں اور برصغیر کی تقسیم دیکھنے والا ’عباسی کُتب خانہ‘ کراچی کے اولڈ سٹی ایریا کی تاریخی عمارتوں کے درمیان موجود کھوئے مارکیٹ کی اندرونی گلیوں میں قائم ہے۔

یہ کتب خانہ چہار اطراف سے چمڑے کی خرید و فروخت میں مصروف دکانوں کے درمیان اپنی آب و تاب سے علم کی روشنی پھیلا رہا ہے۔ اس کُتب خانے کی آبیاری کرنے والی دوسری پیڑھی میں حبیب حسین عباسی شامل ہیں،جو اس تمام تر مشکلات کے باوجود چلا رہے ہیں۔

اس کُتب خانے کے قیام کی بابت حبیب حسین عباسی کا کچھ یوں کہنا ہے،’’ پہلی جنگ عظیم سے قبل یہ دکان ایک ہندو کی ملکیت تھی، جو میرے ناناکا مقروض تھا۔ قرض چکانے کے لیے اس نے وہ دکان نانا کے ہاتھ فروخت کردی۔ نانا نے یہ دکان والد کے حوالے کردی۔ ابتدا میں اس دکان میں اسٹیشنری کا سامان رکھا گیا۔ 1928 میں والد صاحب نے اسٹیشنری کا سامان ختم کرکے اسے مکمل طور پر کتاب گھر میں تبدیل کردیا۔‘‘

ریاست گوالیار کے علمی خانوادے سے تعلق رکھنے والے حبیب حسین کے چچامحمد حسین، آنریری مجسٹریٹ تھے۔ پھوپھا حکیم اختر حکمت کے ساتھ شاعری پر بھی عبور رکھتے تھے۔ سسر نظر علی سہوری بھی ریاست بھوپال کے بڑے شاعر گزرے ہیں، ان کا منقبت ، نوحے اور سلام پر مشتمل مجموعہ کلام ’’موج سلبیل‘‘ کے نام سے 1955 میں شایع ہوا تھا۔

حبیب حسین کے والد عبدالرسول عباسی نے کتابیں بیچنے کے ساتھ 1930 میں اشاعت کا کام بھی شروع کیا۔ انھوں نے علامہ اقبال کی فارسی نظمیں اردو میں چھاپیں۔ علامہ شبیر احمد عثمانی کی1050صفحات پر مشتمل تفسیر قرآن شایع کی۔ 1953 میں مرزا قلیچ بیگ کی کتاب ’’تحفہ امامیہ نوحہ و سلام‘‘اور 1955 میں کتاب ’’مرشدالمقتدی الی اللسان اعرابی‘‘ شایع کی۔

اردو زبان کی خدمت کے لیے 1950 میں رئیس احمد جعفری اور مولانا افتخار احمد بلخی کے ساتھ مل کر ’’ایوان اشاعت اردو‘‘ کے نام سے ایک ادارہ قائم کرنے کے لیے حکومت پاکستان سے 20 ہزار روپے قرضہ مانگا۔ اس ادارے کو قائم کرنے کا مقصد مختلف زبانوں خصوصاً عربی، فارسی اور انگریزی زبانوں کی ادبی کتابوں کو اُردو ترجمہ کرکے شایع کرنا تھا۔ تاہم قرضہ نہ ملنے اور سرمائے کی کمی کی وجہ سے عبدل رسول عباسی کا یہ منصوبہ پایہ تکمیل تک نہیں پہنچ سکا۔

اس کتب خانے سے جڑے یادگار واقعات کے حوالے سے حبیب حسین کا کہنا ہے کہ 13 مارچ 1963 کا دن میرے اور عباسی کتب خانے کے لیے تاریخی اہمیت کا حامل ہے۔ اس دن دمشق یونی ورسٹی کے وائس چانسلر موتمر عالم اسلامی، شیخ المتصر الکتانی نے ہمارے کتب خانے کا دورہ کیا۔ اگلے دن شیخ صاحب کے دورے کی تصاویر اخبارات میں شایع ہوئیں جو ہمارے لیے بہت اعزاز کی بات تھی۔

اُن کا کہنا ہے کہ ہالینڈ یونی ورسٹی کے پروفیسر بولڈ جون اور امریکا کی جارج ٹاؤن یونی ورسٹی کے پروفیسر پیٹرک لارڈ بھی عباسی کتب خانے پر تشریف لا چکے ہیں۔ حبیب حسین عباسی کا کہنا ہے کہ 1955میں والد کے ساتھ دکان پر بیٹھنا شروع کردیا تھا۔ اس وقت وہ چوتھی جماعت کے طالب علم تھے اور اسکول سے سیدھا دکان پر ہی آجاتے تھے۔ کتب خانے پر بیٹھنے نے نہ صرف مطالعے کی عادت کو جلابخشی بل کہ بہت سی علمی اور ادبی شخصیات سے ملاقات کا شرف بھی حاصل ہوا۔

جن سے بہت کچھ سیکھنے کا موقع ملا۔ اُن کا کہنا ہے کہ حقیقت میں کتاب کی اہمیت کا پتا اُس وقت چلا جب ’’ریڈیو پاکستان کے اُس وقت کے ریجنل ڈائریکٹر اور شاعر حفیظ ہوشیارپوری ایک شام سوٹ میں ملبوس دکان پر تشریف لائے۔ بیگ ایک طرف رکھ کر وہ شیلف کے نچلے خانے میں رکھی فارسی کی کتابیں دیکھنے کے لیے آلتی پالتی مار کر فرش پر بیٹھ گئے۔ اتنی قدآور شخصیت کو یوں فرش پر بیٹھا دیکھ کر مجھ سے رہا نہیں گیا اور میں نے اُن سے اصرار کیا کہ آپ کُرسی پر تشریف رکھیں۔

میں آپ کو کتابیں نکال کر دکھا دیتا ہوں۔ انہوں نے مسکراتے ہوئے جواب دیا’’تمھیں پتا نہیں کہ ان کتابوں کی کتنی اہمیت ہے۔‘‘ حبیب حسین کہتے ہیں کہ اس دن مجھے کتاب کی اہمیت کا پتا چلا جس کی خاطر  قیمتی سوٹ میں ملبوس ایک بڑی شخصیت نے فرش پر بیٹھنے میں کوئی عار محسوس نہیں کیا۔

والد کی طرح حبیب حسین عباسی کو بھی کتابوں سے عشق ہے۔ تزکیہ نفس، فلسفہ، تاریخ، ادبی شہہ پارے اور مذہب اُن کی دل چسپی کا محور ہیں۔ کتب فروشی کو وہ پیشہ نہیں شوق قرار دیتے ہیں۔ اسی شوق کی خاطر انہوں نے عباسی کتب خانے کو زندہ رکھا ہوا ہے۔ اس بابت اُن کا کہنا ہے،’’شہر کی اس قدیم اور بارونق مارکیٹ میں اگر میں کوئی دوسرا کاروبار کروں تو کُتب فروشی سے زیادہ کما سکتا ہوں۔

پیسہ مادی تسکین تو دے سکتا ہے لیکن رُوح کو تسکین اور طمانیت دینے کے لیے صرف پیسہ کافی نہیں کتب بینی سے جو سکون ملتا ہے انہیں لفظوں کے پیراہن میں ڈھالنا کسی طور ممکن نہیں۔

یہ لطف اور طمانیت صرف وہی محسوس کر سکتا ہے جو خود مطالعے کا رسیا ہو۔ حبیب حسین عباسی کا کہنا ہے کہ پہلے وقتوں میں کتب فروشی اور پبلشنگ کا کام صرف علمی اور ادبی گھرانوں سے تعلق رکھنے والے لوگ کیا کرتے تھے۔ کتاب خریدنے کے رجحانات میں کمی کے حوالے سے اُن کا کہنا ہے کہ لوگ غیرنصابی کتابوں کو اس وقت خریدتے ہیں جب ان کے پاس ضروری اخراجات کے علاوہ کچھ پیسے بچ جائیں۔

لیکن منہگائی اور جدید ٹیکنالوجی بھی کتابوں کی فروخت پر اثرانداز ہوئی ہے۔ اب ای بُک کی بدولت آپ کے موبائل فون میں پوری لائبریری سما جاتی ہے۔ اس کے باوجود کتاب کی اہمیت اپنی جگہ پر قائم ہے۔ حبیب حسین کا کہنا ہے کہ ’’میں اپنے کتب خانے کو نفع نقصان کی بنیاد پر نہیں چلاتا، مجھے یہاں بیٹھ کر سکون ملتا ہے۔

اس دکان سے لڑکپن اور جوانی کی بہت سی یادیں وابستہ ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ہمارے مستقل گاہک اب بھی ہمارے پاس ہی آتے ہیں۔ حبیب حسین کا کہنا ہے کہ چالیس سال قبل لاہور میں ’میری لائبریری‘ کے نام سے ایک ادارہ قائم ہوا تھا، جو نہایت ارزاں قیمتوں پر معیاری کتب فروخت کرتا تھا۔

لیکن حکومتی سرپرستی نہ ہونے کی وجہ سے یہ ادارہ جلد ہی بند ہوگیا۔ حکومت کو چاہیے کہ کتابوں کی اشاعت میں شامل اشیا (کاغذ، روشنائی وغیرہ) کو سستا کرے، تاکہ ایک غریب آدمی بھی مطالعے کا شوق پورا کرسکے۔ اُن کا کہنا ہے کہ کچھ لوگ مطالعے کا شوق تو رکھتے ہیں، لیکن کتاب خریدنے کی استطاعت نہیں رکھتے، انہیں ہم اپنے پاس بیٹھ کر کتب بینی کی سہولت بھی دیتے ہیں۔

اُن کا کہنا ہے،’مشہور کتابوں کے دو ایڈیشن شائع ہونے چاہییں ایک کی منہگی اور ایک سستی۔ اگر ایسا کیا جائے تو پھر غریب آدمی بھی اپنے علم کی پیاس بجھا سکتا ہے۔ حبیب حسین کا کہنا ہے کہ کتاب کی فروخت سے زیادہ اس بات سے خوشی محسوس ہوتی ہے، جب کوئی شخص کسی نایاب کتاب ڈھونڈتا ہوا پہنچتا ہے اور مطلوبہ کتاب ملنے کے بعد اُس کے چہرے پر جو خوشی ہوتی ہے اُسے لفظوں میں بیان کرنا ممکن نہیں۔

اُن کا کہنا ہے کہ ادبی میلوں کو مزید فروغ دینا چاہیے۔ یہ مطالعے کی ترویج کے لیے اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ نوجوان اب بھی پہلے کی طرح رومانوی شاعری اور افسانے پڑھتے ہیں۔ فیض احمد فیض، مرزا غالب، علامہ اقبال سدا بہار شعرا ہیں۔ آج کے دور میں سرقہ نویسی کتابوں کے وجود کو لاحق ایک بڑا مسئلہ ہے۔ اس کے سدِباب کے لیے حکومت کو چاہیے کہ ہر شعبے کے ماہرین پر مشتمل ادارہ بنایا جائے اور ہر کتاب کا مسودہ اس ادارے کی باقاعدہ منظوری کے بعد چھاپا جائے۔ فلسفے کی کتابوں کو فلسفی، ادب کو ادیب، شاعری کی کتابوں کو شاعر کی نظر ثانی کے بعد ہی طباعت کی اجازت دی جائے۔

1967 میں ہونے والی طوفانی بارشوں کے باعث دکان کی چھت گرگئی تھی۔ اس حادثے میں حبیب حسین کو بہت مالی نقصان کا سامنا کرنا پڑا۔ دوسرا حادثہ16مارچ 2010 کو پیش آیا۔ کتب خانے کے برابر بنے کیمیکل کے گودام میں لگنے والی آگ نے اطراف کی دکانوں کو بھی اپنی لپیٹ میں لینا شروع کردیا، لیکن یہ نقصان گذشتہ نقصان سے قدرے کم تھا۔ حبیب حسین کا کہنا ہے کہ یہ کاروبار معاشی لحاظ سے سودمند نہیں ہے، اسی لیے میرے بیٹے نے اپنے لیے انجینئرنگ کا پیشہ منتخب کیا ہے۔

جب تک میری سانسوں کا جسم سے رشتہ برقرار ہے اُس وقت تک تو عباسی کُتب خانے کا وجود قائم ہے۔ اس کے بعد اللہ مالک ہے۔ میری خواہش تو بس اتنی ہے کہ ایک صدی تک زمانے کے نشیب و فراز دیکھنے والا عباسی کتب خانہ علم کے پیاسوں کی پیاس بجھاتا رہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔