وجود ِزن سے ہے تصویر ِکائنات میں رنگ ؛ خاتون دشمن 7نرالے قانون

سید عاصم محمود  اتوار 15 مارچ 2015
امریکا سے لے کر اسرائیل تک میں رائج خواتین سے امتیازی سلوک کرنے والے ظالمانہ قوانین کا چشم کشا بیان ۔  فوٹو : فائل

امریکا سے لے کر اسرائیل تک میں رائج خواتین سے امتیازی سلوک کرنے والے ظالمانہ قوانین کا چشم کشا بیان ۔ فوٹو : فائل

سولہ سالہ ریٹا بحیرہ روم میں واقع جزیرے،مالٹا کے شہر، والیتا کی رہائشی تھی۔ وہ صبح سکول جاتی، شام کو اپنی سہیلیوں کے ساتھ گپ شپ لڑاتی۔ اس کی زندگی ہنسی خوشی گزر رہی تھی کہ یک دم ایک انوکھی آفت نے اسے آن دبوچا۔

محلے کا ایک لڑکا خوبصورت ریٹا سے محبت کرنے لگا۔ لیکن لڑکی اسے ناپسند کرتی تھی۔ جب لڑکے نے ایک مرتبہ ریٹا کا ہاتھ پکڑنا چاہا تو اسے گالیاں کھانا پڑیں۔ لڑکا غصے اور مردانہ انا کا شکار ہوگیا۔ چند دن بعد اس نے لڑکی کو اغوا کیا اور اپنی ہوس کا نشانہ بنا ڈالا۔ یوں اجڈ و وحشی لڑکے نے ایک معصوم لڑکی کی زندگی تباہ کر ڈالی۔

حیرت انگیز بات یہ کہ گھناؤنا جرم کرنے کے باوجود ٹام نامی اس لڑکے کو نہ گرفتار کیا گیا اور نہ ہی اسے سزا ہوئی۔ وجہ یہ کہ مالٹا کے کرمنل کوڈ (قانون) کی رو سے اگر کوئی مرد شادی کرنے کی نیت سے کسی لڑکی کو اغوا کرے، تو اس پر مقدمہ نہیں چل سکتا۔ ٹام نے بھی اسی قانون سے مدد لی۔ ٹام نے پولیس کو بتایا کہ اس نے ریٹا کو شادی کی غرض سے اغوا کیا لہٰذا ازروئے قانون اسے رہا کر دیا گیا۔

گویا مالٹا میں کسی من پسند لڑکی کو اغوا کرکے زبردستی دلہن بنالینا اخلاقی و قانونی طور پر کوئی جرم نہیں بلکہ جائز فعل ہے۔ یاد رہے، مالٹا دقیانوسی، ناخواندہ اور وحشی قبائل کا دیس نہیں بلکہ ترقی یافتہ اور امیر ملک ہے۔ وہاں شرح خواندگی سو فیصد ہے، اس کے باوجود وہاں مردوں کے معاشرے نے لڑکی یا عورت کے اغوا جیسے گھٹیا فعل کو جائز بنا دیا ۔

مالٹا میں یہ بدحرکت عام ہے کہ لڑکے کو کوئی لڑکی پسند آئے تو وہ اسے اغوا کر کے اس کی زندگی تباہ کر ڈالتا ہے۔ عموماً بچاری لڑکی کو پھر یہی راہ نجات نظر آتی ہے کہ وہ ظالم لڑکے سے شادی کرلے۔ چناں چہ اگر لڑکے پر مقدمہ چلے اور اسے سزا ہوجائے، تب بھی شادی ہوتے ہی سزا ختم کردی جاتی ہے۔

لڑکیوں کے اغوا پر اکسانے والا اسی قسم کا قانون لبنان میں بھی مروج ہے۔ وہاں بھی لڑکا کسی لڑکی کو اغوا کرکے حیلے بہانے سے شادی کرلے، تو وہ کبھی قانون کی گرفت میں نہیں آتا۔ ماضی میں ایسا ہی عورت دشمن قانون کوسٹاریکا، ایتھوپیا، گوئٹے مالا، پیرو اور یوراگوئے کے ممالک میں بھی موجود تھا۔ لیکن خواتین کے شدید احتجاج نے ان ملکوں سے ظالمانہ قانون ختم کرا دیا۔

مغربی عموماً سمجھتے ہیں کہ اسلامی معاشرے میں خواتین پابندیوں میں جکڑی رہتی ہیں۔ دوسری طرف مغربی باشندے یہ نہیں دیکھتے کہ کئی غیر مسلم ممالک میں ایسے قوانین مروج ہیں جن کے ذریعے خواتین کو ظلم و ناانصافی کا نشانہ بنایا جاتا ہے ۔ یہ قوانین مردانہ طاقت و جبروت کا مظہر ہیں جس کی ایک مثال آپ درج بالا دیکھ چکے۔ شاعر مشرقؒ نے کیا خوب کہا ہے :

وجودِ زن سے ہے تصویر ِکائنات میں رنگ
اسی کے ساز سے ہے زندگی کا سوز ِدروں

لیکن کئی غیر مسلم ملکوں میں مروج خواتین دشمن قوانین آشکارا کرتے ہیں کہ عورت کی بڑھتی آزادی کے باوجود آج بھی بچاری تعصب اور استحصال کا شکار ہے۔ اور اسے ٹارگٹ کرنے کے جرم میں بظاہر تعلیم یافتہ اور متمدن اقوام بھی شریک ہیں۔

بھارت: بیوی کی کوئی عزت نہیں
مالٹا کی طرح بھارت میں بھی عورت کو مرد کی غلام سمجھا جاتا ہے۔ بھارتی مرد کو ’’قانوناً ‘‘یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ اپنی بیوی سے جو مرضی سلوک کرے۔

انڈین پینل کوڈ 1850ء کے سیکشن 375 میں درج ہے کہ اگر بیوی پندرہ سال سے زیادہ عمر کی ہے، تو شوہر کی اس پر زبردستی جائز سمجھی جائے گی۔ گویا مجبور و بیکس بیوی یہ زبردستی روکنے کے لیے پولیس یا عدالت سے مدد نہیں لے سکتی۔ یہ کھلم کھلا اس عورت پر ظلم و تشدد ہے جو کسی باعث اپنے شوہر سے نفرت کرے اور اسے قریب نہ آنے دے۔ مگر مرد قانون کا سہارا لے کر اس سے زبردستی کرسکتا ہے۔

بھارت میں قانون مرد کو تحفظ دیتا ہے، اسی لیے وہاں بے حرمتی کی وارداتیں عام ہوچکیں۔ درحقیقت ایک تحقیق کی رو سے دنیا بھر میں بے حرمتی کے واقعات سب سے زیادہ بھارت ہی میں ہوتے ہیں۔

سنگاپور اور بہاماس میں بھی اگر بیوی بالترتیب 13 اور 14 سال کی ہے، تو اس سے زبردستی جائز تصّور ہوگی۔ ان دونوں ممالک کا شمار بھی ترقی یافتہ ممالک میں ہوتا ہے۔ لیکن ان کے ہاں ایسے ظالمانہ قوانین موجود ہیں جن سے فائدہ اٹھا کر ظالم شوہر اپنی بیوی پر تشدد کرسکتا ہے۔ ایسے قوانین اخلاقیات اور عقل، دونوں کا مذاق اڑانے کے مترادف ہیں۔

اسرائیل:عورت گھر کی باندی
یہودی سمجھتے ہیں کہ دنیا میں شر پیدا کرنے کی ذمہ دار عورت ہے۔(کیونکہ اس نے سانپ کے بہکاوے میں آ کر خود سیب کھایا اور حضرت آدم ؑ کو بھی کھلایا) ۔اسی لیے یہودیت میں عورت کا درجہ مرد سے کمتر ہے۔ بلکہ بعض صورتوں میں عورت سے غیر انسانی سلوک کیا جاتا ہے۔

مثال کے طور پر گھر میں یہودن بیوی شوہر کی غلام سمجھی جاتی ہے۔ حتی کہ وہ خود سے طلاق بھی نہیں لے سکتی۔ یہودی قانون کی رو سے صرف شوہر ہی بیوی کو طلاق دینے کا حق رکھتا ہے۔ اسرائیل میں یہ مذہبی حکم قانون کا درجہ رکھتا ہے۔

1995ء میں ایک یہودن بیوی نے اسرائیلی مذہبی عدالت میں اس قانون کو چیلنج کر دیا۔ عورت چھ برس قبل شوہر سے علیحدہ ہو گئی تھی کیونکہ وہ اسے مارتا پیٹتا تھا۔ لیکن عدالت کے پانچ میں سے چار ججوں نے قرار دیا کہ مذہبی قوانین کی رو سے صرف مرد ہی عورت کو طلاق دے سکتا ہے۔ لہٰذا درخواست گذار طلاق لینے کی خاطر اپنے شوہر سے رجوع کرے۔

درج بالا فیصلے سے صرف ایک روشن ضمیر جج نے اختلاف کیا۔ اس نے اپنے فیصلے میں لکھا: ’’ہر یہودن کو اپنے شوہر سے طلاق لینے کا حق حاصل ہونا چاہیے۔ لیکن موجودہ یہودی قوانین کے مطابق تو بیوی مالکہ گھر نہیں مرد کی غلام جیسی حیثیت رکھتی ہے۔‘‘

یہودی مذہبی قوانین میں یہود کو یہ بھی حکم دیا گیا ہے کہ اگر شوہر مر جائے‘ تو ’’علیحدگی کی رسم‘‘ ادا کی جائے… تاکہ بیوی متوفی کے دائرہ اثر سے آزادی پا کر دوسری شادی کر سکے۔ لیکن اسرائیلی معاشرے میں انا کا شکار مرد اس حکم سے بھی ناجائز فائدہ اٹھاتے ہیں۔

پچھلے سال ایک یہودن‘ شلومت لوی اپنا انوکھا مقدمہ لیے اسرائیلی مذہبی عدالت پہنچی ۔ دس سال قبل اس کا شوہر چل بسا۔ اب مذہبی روایات کی رو سے بیوہ کے سسر نے ’’علیحدگی کی رسم‘‘ ادا کرنی تھی۔ مگر سسر لالچ میں پڑ گیا کیونکہ شلومت کا خاندان امیر تھا۔

سسر صاحب نے مطالبہ کیا کہ پہلے اسے دو لاکھ شیکل (پچاس لاکھ روپے) دیئے جائیں‘ تب وہ ’’علیحدگی کی رسم‘‘ انجام دے گا۔ شلومت کے خاندان نے اتنی بڑی رقم دینے سے انکار کر دیا۔ چناںچہ بچاری 30 سالہ بیوہ نئی شادی نہیں کر سکی۔

آخر پچھلے سال 40 سالہ شلومت نے اپنی مذہبی عدالت کا دروازہ کھٹکھٹایا ۔اسے امید تھی کہ وہاں سے انصاف مل جائے گا۔ لیکن عدالت میں بھی سبھی جج مرد تھے۔ انہوں نے قدیم مذہبی رسم کو درست قرار دیتے ہوئے شلومت سے کہا کہ وہ اپنے سسر سے ’’مک مکا‘‘ کر لے۔ یوں ستم رسیدہ لڑکی کو عدالت سے بھی انصاف نہ ملا۔

مردانہ حاکمیت برقرار رکھنے کی خاطر اسرائیل میں طویل عرصہ سپریم کورٹ سے لے کر اعلیٰ مذہبی عدالتوں تک میں خواتین ججوں کو داخل نہیں ہونے دیا گیا۔ اب بھی اسرائیل میں کوئی عورت جج نہیں بن سکتی۔ جب انسانی حقوق کی اسرائیلی تنظیموں نے ربیوں (یہودی فقہا) کے بنائے دقیانوسی اور غیر عقلی قوانین کے خلاف احتجاج کیا‘ تو 2013ء میں اسرائیلی حکومت نے اس کمیٹی میں خواتین کو طوعاً کراہاً جگہ دی جو جج منتخب کرتی ہے۔

یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ یہودیت میں حائضہ عورت اچھوت سمجھی جاتی ہے۔ اس حالت میں بچاری عورت کوئی بھی چیز چھو لے تو یہودی مذہبی روایات کے مطابق وہ ناپاک ہو جاتی ہے۔

چین:مردوں کی اجارہ داری
ہمارے نیم ترقی یافتہ پڑوسی ممالک،چین اور روس میں آج بھی خواتین ازروئے قانون مشقت والے ایسے کام نہیں کر سکتیں جن میں طاقت درکار ہو۔ روسی قانون کے مطابق ایسے ’’456‘‘ مختلف کام موجود ہیں‘ مثلاً ریل چلانا ‘ لکڑی کا کام کرنا‘فائر فائٹنگ‘ ملاح بننا وغیرہ۔ لہٰذا چین اور روس میں کئی کاموں کی ملازمت صرف مردوں کو ملتی ہے اور وہ ان پر اجارہ دار بنے بیٹھے ہیں۔

جمہوریہ کانگو:شوہر آمر بن بیٹھا
افریقی مملکت‘ جمہوریہ کانگو میں عورت حقیقتاً مرد کی غلام بنی رہتی ہے۔ وہاں مروج فیملی کوڈ (1987ء) کی رو سے شوہر ہی گھر کا سربراہ ہے۔ اور اسے حکمرانی کے اتنے زیادہ اختیار دے دیئے گئے کہ لگتا ہے، بیگم اس کی اجازت کے بغیر کھانا بھی نہیں کھا سکتی۔

فیملی کوڈ کے مطابق اگر بیوی کو سودا سلف لانے باہر جانا ہے‘ تب بھی شوہر سے اجازت لے۔ نیز وہ شوہر کی مرضی کے بغیر کوئی ملازمت یا کاروبار نہیں کر سکتی۔ اگر شوہر ملازمت کی اجازت دے مگر بعدازاں ادارہ بدل لے‘ تو بیوی کو فوراً نوکری چھوڑنی پڑے گی۔ فیملی کوڈ کی ایک شق یہ ہے کہ شوہر جہاں کہیں بھی رہائش اختیار کرے‘ بیوی اس کا ساتھ دینے پر قانوناً مجبور ہے۔

امریکا:قدیم اسٹیریو ٹائپ برقرار
انسانی حقوق کی ترقی و ترویج میں امریکی حکومت بڑھ چڑھ کر حصہ لیتی ہے۔ لیکن امریکا میں بھی بعض قوانین عورت سے امتیازی سلوک کرتے ہیں۔ ’’دی امیگریشن اینڈ نیشنلٹی ایکٹ‘‘ کی رو سے اگر کوئی امریکی مرد بیرون ملک کسی لڑکی سے شادی کرے‘ تو اپنے بچوں کو امریکی شہریت دلواتے ہوئے اسے بہت پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں۔ وجہ صرف یہی کہ امریکی کی بیوی امریکا کی شہریت نہیں رکھتی۔

مثال کے طور پرامریکی شوہر اپنی حکومت کو یہ تحریری ضمانت دیتا ہے کہ وہ 18 سال کا ہونے تک اپنے بچوں کی کفالت کرے گا ۔ پھر وہ یہ ثابت کرنے کی خاطر ڈی این اے ٹیسٹ دکھاتا ہے کہ وہی بچوں کا باپ ہے۔ غرض طویل قانونی مراحل طے کرنے کے بعد ہی غیر ملکی عورت کے بچے امریکی شہری بن پاتے ہیں۔

کئی امریکی شہری درج بالا ایکٹ کو غیر آئینی اور غیر انسانی جان کر اسے اپنے سپریم کورٹ میں چیلنج کر چکے۔ لیکن امریکی سپریم کورٹ میں بھی ہمیشہ مرد جج زیادہ ہوتے ہیں۔ لہٰذا وہ مردانہ حاکمیت کا قدیم اسٹیریو ٹائپ برقرار رکھے ہوئے ہیں۔

چلّی:زیادہ اختیار و طاقت
لاطینی امریکا کے اس دیس میں ایک خاتون وزیراعظم ،مشیل باشیلے کی حکومت ہے لیکن وہاں بھی خواتین کا استحصال کرتے قوانین موجود ہیں۔ مثال کے طور پر سول کوڈ کا آرٹیکل نمبر 1749!اس آرٹیکل کی رو سے شادی کے بعد شوہر اپنی بیوی کی تمام جائیداد کا مالک بن جاتا ہے۔ گویا اس قانون کے ذریعے مرد کو گھر میں زیادہ اختیار و طاقت دے دی گئی۔

زندگی کا سوزِ دروں
مغرب میں یہ تصّور عام ہے کہ ایک مسلمان خاتون بڑی بے بس، مرد کی غلام اور پابندیوں میں جکڑی ہوتی ہے۔ حالانکہ قرآن و سنت کی رو سے حقیقی مسلمان مرد وہ ہے جو ایک عورت کو بہ حیثیت ماں، بہن، بیٹی، بیوی عزت و تکریم دے۔ دوسری طرف خصوصاً آج مغرب میں عورت تلذذ کی شے بن چکی۔

مغربی تصور دراصل نظریاتی اختلاف کے باعث پیدا ہوا۔ مغرب میں اب زور دیا جاتا ہے کہ مرد اور عورت ہر لحاظ سے برابر ہیں۔ لیکن قرآن پاک میں مرد اور عورت کے تعلقات بیان کرتے ہوئے برابری (مساوات) نہیں انصاف پر زور دیا گیا ہے۔مساوات کے معنی ہیں کہ دو چیزوں میں کوئی فرق نہیں۔ گویا باپ اور بیٹا برابر ہیں اور اول الذکر دوسرے پر کوئی حاکمیت نہیں رکھتا۔ حاکم اور رعایا برابر ہیں لہٰذا اول الذکر کوئی اتھارٹی نہیں رکھتا۔ اسی نظریے سے مرد اور عورت کی برابری کے تصّور نے بھی جنم لیا۔

لیکن انصاف کا تقاضا یہ ہے کہ باپ اور بیٹا، باس اور ملازم، میاں اور بیوی اپنے اپنے حقوق و فرائض کے دائرے میں رہ کر کام کریں۔ اسی طرح معاشرے میں نظم و ضبط والی زندگی جنم لیتی ہے۔ اگر سب لوگ اپنے اپنے حقوق و فرائض بھول کر برابری کا راگ الاپنے لگیں،تو معاشرے میں افراتفری پھیل جائے۔یہی دیکھیے کہ عورت کو ازحد آزادی دینے سے مغربی ممالک میں شرم وحیا کا جنازہ نکل چکا۔حتی کہ اب وہاں ایک ہی جنس کے انسان آپس میں کھلے عام شادیاں کرنے لگے ہیں۔یہ غیر فطری چلن فطرت سے انحراف ہی کا نتیجہ ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔