تہمت اُسے ایک چہرہ پہنادیا گیا تھا

محمد عثمان جامعی  اتوار 15 مارچ 2015
 شناختی کارڈ پر لگی تصویر کو گھور رہی تھیں، کیوں کہ اس وقت اس کے پاس اپنی یہی ایک تصویر تھی۔۔فوٹو : فائل

شناختی کارڈ پر لگی تصویر کو گھور رہی تھیں، کیوں کہ اس وقت اس کے پاس اپنی یہی ایک تصویر تھی۔۔فوٹو : فائل

گندمی رنگ، گول چہرہ، مختصر سی ٹھوڑی، چھوٹی سی ستواں ناک پر جمی عینک، جس سے جھانکتی دو بے ضرر اور قابل اعتبار سی آنکھیں، جو شناختی کارڈ پر لگی تصویر کو گھور رہی تھیں، کیوں کہ اس وقت اس کے پاس اپنی یہی ایک تصویر تھی۔

بہ غور اور بار بار دیکھنے پر بھی اسے اپنے چہرے پر رومانویت کی کوئی جھلک اور کَجی کا کوئی رُخ نظر نہ آیا۔ نظر پھسل کر ’’شناختی علامت‘‘ کے خانے پر جا ٹکی۔ ’’پورے چہرے پر شرافت کی لعنت‘‘ اس نے تصور میں ’’کوئی نہیں‘‘ کی جگہ نئی عبارت کندہ کردی، میز پر دھیرے سے مُکا مارا اور گھڑی کی طرف دیکھ کر کرسی سے اُٹھ کھڑا ہوا۔

’’جارہے ہیں عامر بھائی!‘‘، رفعت نے کمپیوٹر مانیٹر سے نظر ہٹاکر اسے دیکھا۔

’’ہاں‘‘ اس کے اندر سے نکلنے والی غراہٹ لبوں پر آکر ’’میاؤں‘‘ بن چکی تھی۔ ’’منحوس! تیرے بھائی مرگئے ہیں جو مجھے بھائی کہتی ہے، سارے دفتر میں، میں ہی ملاہوں۔۔۔۔۔‘‘ فقرہ ایک موٹی سی گالی پر ختم ہوا۔ گالی اتنی موٹی تھی کہ فقرے سمیت حلق میں پھنس گئی اور وہ کھنکھارتا ہوا دفتر کی عمارت سے باہر نکل آیا۔

’’شمیم موٹو کو شمیم صاحب کہتی ہے۔ عارف، عظیم، سراج کا نام لیتی ہے۔ رانا جبار اور ندیم صدیقی کو سر کہتی ہے، اور مجھے بھائی۔۔۔۔۔۔۔‘‘ اس کے دماغ میں رفعت اب تک اپنے ’’بھائی‘‘ سمیت پھنسی ہوئی تھی۔ یہ معقول صورت اور دفتر کی واحد لڑکی آج صبح تک اسے بہت اچھی لگتی تھی۔

اگرچہ وہ شروع دن سے اُسے ’’عامر بھائی‘‘ ہی کہہ رہی تھی، لیکن عامر کو انداز تخاطب میں نیت کا کوئی ’’فتور‘‘ نظر نہیں آتا تھا، وہ اسے رسماً ہی سمجھتا تھا، کیوں کہ وہ اپنے دس رفقائے کار میں سے صرف اسی کے ساتھ دفتری معاملات سے ہٹ کر بات چیت کرتی تھی۔ ایک روز جب شہر میں کچھ لوگوں کے قتل کے خلاف لوگ بہ طور احتجاج لوگوں کی گاڑیاں جلا رہے تھے اور سڑکوں پر ہنگامہ مچا تھا، رفعت نے بڑے رسان سے کہا تھا،’’عامر بھائی! پلیز مجھے گھر چھوڑ دیں گے۔‘‘ عامر کو یوں لگا تھا جیسے وہ کہہ رہی ہو،’’چُن لیا میں نے تمھیں، سارا جہاں رہنے دیا۔‘‘

معاملہ آج اس وقت خراب ہوا جب رفعت نے باس کے سامنے عامر کی شرافت کا قصیدہ پڑھ دیا۔ اس وقت کمرے میں وہ تینوں ہی موجود تھے۔ باس نے یوں ہی گزرتے ہوئے رفعت سے پوچھ لیا،’’کوئی شکایت تو نہیں۔‘‘

’’کوئی خاص نہیں سر، بس مردوں کے درمیان ایک تنہا لڑکی کو کچھ مسائل کا سامنا تو کرنا ہی پڑتا ہے۔‘‘

باس نے مسکرا کر عامر کی طرف دیکھا:’’کیوں عامر صاحب! کیا کہہ رہی ہیں۔‘‘

’’ارے نہیں، عامر بھائی تو بہت شریف انسان ہیں، میں ان کی بات نہیں کررہی۔‘‘

ایک نازک سا ہاتھ عامر کی مردانگی کا چہرہ سُرخ کرگیا اور رفعت، رفعت کھوکر پستی میں جاگری۔ کچھ دیر بعد وہ اپنا شناختی کارڈ تھامے اپنے چہرے پر برستی شرافت پر لعنت بھیج رہا تھا۔

یہ کوئی آج کی بات نہیں، شرافت کی تہمت اس کے ساتھ بچپن سے چِپکی چلی آرہی تھی۔ جہاں تک اسے یاد تھا ’’شریف‘‘ کی گالی پہلی بار اسے آٹھ نو سال کی عمر میں پڑی تھی۔

اس کے والد سید اسرارالحق ان لوگوں میں سے تھے جو دوسروں کی غلط فہمی اور اپنی خوش فہمی کی وجہ سے شرفاء اور خاندانی کہے جاتے ہیں۔ مسئلہ تب ہوتا ہے جب یہ خاندانی معیشت کے تھپڑ یا ہجرت کا تھپیڑا کھاکر گرتے، پڑتے، لڑھکتے۔۔۔۔رذیلوں میں پہنچ جاتے ہیں۔ اسرارالحق بھی اس بستی میں اسی طرح پہنچے تھے۔

وہ اپنی شرافت ونجابت کے آبگینوں کو بڑا سنبھال سنبھال کر رکھتے تھے۔ ان میں سے بڑے آبگینے کو آس پڑوس کی عورتوں سے ملنے جُلنے کی اجازت نہیں تھی اور چھوٹا آبگینہ محلے کے بچوں کے ساتھ نہیں کھیل سکتا تھا۔ چھوٹا آبگینہ۔۔۔۔۔معاف کیجے گا، اپنا عامر جب آٹھ نو سال کا ہوا تو پابندیاں کچھ نرم پڑ چکی تھیں۔ دراصل، بہ وقتِ ضرورت ہم سایوں سے آٹا، دال، چاول، پیاز، مرچ، ٹماٹر اور سالن کے تبادلے نے شرافت کے معیار کی دیوار کو قلعے کی فصیل سے مُنڈیر بنادیا تھا، سو ’’عصر سے مغرب‘‘ تک اسے باہر کھیلنے کی اجازت مل گئی تھی۔

ایک روز عامر کے ہم جولیوں نے شرارتاً جگو چاچا کے دروازے پر کھڑا ان کا خالی ٹھیلا دھکیل کر ساتھ والی گلی میں پہنچادیا۔ اس شرارت میں عامر کے ننھے ہاتھ بھی پوری طرح ملوث تھے۔ ٹھیلا ملنے کے بعد شرارت رچانے والے بچوں کی ڈھنڈیا مچی۔

’’تم تو نہیں تھے ناں؟‘‘ عامر کی ماں نے گھر آئی محلے دارنیوں سے اس واردات کا تذکرہ سُنتے ہی پاس بیٹھے عامر کی کمر پر ہاتھ رکھتے ہوئے یوں پوچھا جیسے اس پر کسی گھناؤنے جرم کا الزام لگنے کا خدشہ ہو۔

’’نہیں امی‘‘ سہما ہوا جھوٹ سُن کر اس کی ماں کو یقین آگیا۔
’’یہ کیوں ہوگا، یہ تو بڑا شریف بچہ ہے‘‘ خالہ صابرہ کا اعتماد اسے شرمندہ کرگیا۔

’’تم کبھی ایسا نہیں کرنا، اچھے بچے ایسی حرکتیں نہیں کرتے۔‘‘ ماں نے اس کے سر پر ہاتھ پھیرا۔

یہ اچھا بچہ اعتماد کی بیڑیاں پہنے لڑکپن کے اَدھ کُھلے کواڑوں سے گزر کر جوانی کے پُراسرار گلیارے میں آگیا تھا، جہاں بند دروازوں کے پیچھے کھنکتی آوازیں اور ان سے جھانکتے منظر اسے متوجہ کرتے رہے، لیکن وہ ناک کی سیدھ میں چلتا رہا، کیوں کہ وہ اچھے بچے سے ترقی کرکے شریف لڑکا بن چکا تھا۔
حالات، محلہ، عمر ۔۔۔۔زندگی میں بہت کچھ بدل چکا تھا، لیکن اس کے بارے میں لوگوں کی رائے اور ماں باپ کا یقین جوں کے توں تھے۔ ایک روز ثمینہ پھوپھی نے اسے بڑی محنت سے بال بناتے دیکھ کر کمر پر دھپ لگاتے ہوئے کہا تھا،’’کیوں، کس سے ملنے کی تیاری ہے؟‘‘

’’ارے میرا بچہ ایسا نہیں ہے۔‘‘ ماں کا دفاعی جواب اس تیزی سے آیا کہ اس کے ہونٹوں پر پھیلتی مسکراہٹ اور چہرے پر اُترتی سُرخی کہیں راستے ہی سے لوٹ گئیں۔

عمر کے تقاضے تربیت کے سرخی غازے کو دھو نہ سکیں تو بھی اسے کسی حد تک کُھرچ ضرور دیتے ہیں۔ عامر بھی کھرچا گیا اور فطرت کا رنگ کہیں کہیں سے جھلکنے لگا۔ پھر اس رنگ نے رنگین مزاج دوستوں کا رنگ پکڑا اور نازش کے مَکھن سے رنگ پر جا پھسلا۔ ایک دن وہ بڑی ہمت کرکے ٹیوشن سینٹر کی جانب تیزتیز قدموں سے رواں نازش کے نقش قدم پر چل پڑا۔ ایک جگہ سناٹے نے موقع فراہم کیا تو وہ تیز تیز چلتا ہانپتا کانپتا اس کے قریب پہنچ گیا:’’س س سنیے!‘‘

وہ چونک کر پلٹی اور عامر کو دیکھ کر مطمئن لہجے میں بولی،’’جی عامر بھائی۔‘‘ وہ چند لمحے گُم صُم کھڑا رہا، پھر ٹیوشن سینٹر کی فیس اور معیار معلوم کرکے واپس ہولیا۔

اﷲ اﷲکرکے چھے آٹھ ماہ میں نازش دماغ سے اُتری تو پڑوس میں آبسنے والی سحر دل میں اُتر گئی۔ رابطے کی ابتدا اسی نے کی تھی، سبب بنی تھیں نصابی کتابیں اور نوٹس۔

’’محلے کے سارے لڑکوں کو چھوڑ کر اسے نے مجھ ہی سے کیوں مدد لی۔‘‘ عامر پورے کا پورا خوابوں سے مہک اُٹھا۔ خوب صورت الفاظ اور اشعار ڈھونڈ ڈھانڈ کر محبت نامہ لکھا اور نوٹس کے پُلندے میں رکھ کر سحر کو تھمادیا۔

’’وہ پرچہ دیکھتے ہی سمجھ جائے گی، بابے‘‘ شریف لڑکے کے بگڑے ہوئے دوست نے اس کے اندیشے گھٹائے اور ہمت بڑھائی تھی۔
مگر یہ کیا، وہ پلندے سے پھسل کر گرجانے والا رقعہ اسے واپس کررہی تھی۔ ’’آپ کا یہ پرچہ غلطی سے آگیا شاید‘‘ چہرے کی طرح آواز بھی ہر تاثر سے عاری تھی۔

اور اب شادی کے بعد اسے اپنی بیوی نازیہ کا اندھا اعتماد حاصل تھا۔ یہ عامر کی دور کی کزن سہی، لیکن رہتی بہت قریب تھی۔ اس لیے عامر کی شرافت پر اسے پورا بھروسا تھا۔

’’وہ ایسے نہیں‘‘، ’’وہ دوسرے مردوں جیسے نہیں‘‘، ’’ان پر مجھے پورا اعتماد ہے‘‘ یہ اسناد اس نے اپنی بہنوں اور سہیلیوں کی عامر سے چھیڑ چھاڑ پر جاری کی تھیں اور عامر کو لگا تھا جیسے اُسے کلنک کے ٹیکے لگائے گئے ہوں۔

گھر پہنچا تو اسے دروازے پر تالا پڑا نظر آیا۔ اسے یاد آگیا کہ نازیہ نے صبح کہا تھا کہ وہ آج شام اپنی بہن کے ہاں جائے گی۔ وہ اندر گیا اور نڈھال سا سوفے پر گرگیا۔

نازش، سحر اور رفعت کے چہرے اس کی نگاہوں میں آتے اور بھائی بھائی کہہ کر چلے جاتے۔ پھر نازیہ کے اظہارِ اعتماد سے لتھڑے فقرے اسے کی سماعت میں چبھنے لگے۔

بیل کی آواز نے اس شور کو سناٹے میں بدل دیا۔ دروازہ کھولا تو سامنے بلاوے دیتے میک اپ اور لباس مہک رہے تھے۔

’’جی، کیئر والوں نے نئے صابن انٹروڈیوس کرائے ہیں۔ ایک بار استعمال کرکے دیکھیں۔ تعارفی قیمت صرف دس روپے ہے۔‘‘
وہ ٹیپ ریکارڈ کی طرح بجنے اور ٹی وی کی طرح ادائیں دکھانے لگی۔ عامر کی محویت نے اسے کام یابی کا یقین دلادیا۔ ’’کتنے دوں سر؟‘‘

’’سب۔‘‘ عامر کے جواب نے اس کے ہونٹ مزید متبسم اور آنکھیں کچھ اور نشیلی کردیں۔’’آ آ آپ بیٹھیں، میں پیمنٹ کررہا ہوں۔‘‘ عامر پیچھے ہٹا اور وہ آگے بڑھ کر ڈرائنگ روم میں یوں اطمینان سے آبیٹھی جیسے دیر تک اُٹھنے کا ارادہ نہ ہو۔

’’تو آپ کب سے یہ کام کررہی ہیں۔‘‘ قیمت چُکانا بھول کر وہ اس کے سامنے آبیٹھا۔ ابھی وہ جواب نہ دے پائی تھی کہ ڈور بیل کی چنچناتی آواز سے گھر بھر گیا۔ اس بار دروازے پر اس کی بیوی کھڑی تھی۔ اندر کا منظر دیکھ کر وہ چونک اُٹھی۔ ’’ی ی یہ سیلزگرل ہیں۔۔۔۔ میں نے یہ صابن خریدے ہیں۔۔۔۔۔ سستے تھے۔۔۔۔یہ پانی پینے اندر آگئیں۔‘‘ گھبراہٹ میں فقرے ٹوٹ ٹوٹ کرگرنے لگے۔ وضاحت دینے کے ساتھ وہ نوٹ بھی گِن رہا تھا۔ سیلز گرل نے نوٹ تھامے اور دھواں دھواں چہرہ لیے باہر نکل گئی۔

’’آپ بھی کمال کرتے ہیں۔ پتا نہیں کس کو بُلا کر گھر میں بٹھالیا۔ کوئی دیکھ لیتا تو کیا سمجھتا۔ اب ہر ایک تو نہیں جانتا ناں کہ آپ کتنے شریف انسان ہیں۔۔۔۔۔‘‘ وہ بولے جارہی تھی اور عامر حیرت اور بے بسی سے اُسے دیکھے جارہا تھا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔