پہنچی وہیں پہ خاک جہاں کا خمیر تھا

حسین مسرت  اتوار 15 مارچ 2015
صادق ایسا گلوکار تھا جس کی آواز نے سندھ کے مشہور شاعروں کی شاعری کو امر بنادیا۔فوٹو:فائل

صادق ایسا گلوکار تھا جس کی آواز نے سندھ کے مشہور شاعروں کی شاعری کو امر بنادیا۔فوٹو:فائل

سُر سچا ہو تو پانی میں آگ لگا دیتا ہے۔ سُر دل سے نکلے تو رائے ڈیاچ بھی گردن کاٹ کے بیجل کے قدموں میں پھینک دیتا ہے۔ صادق کا سُر بھی ایسا ہی تھا۔ صادق فقیر بھی سندھ کا بیجل تھا جس کے دیوانے اس کے انتقال کی خبر سن کر ہوش گنوا بیٹھے۔ پروانے کا کام تو جلنا ہی ہے۔ سندھ کے لوگ صادق کی آواز اور الاپ کے عاشق ہیں۔

سچے گیت گانے والا، سچے سُر نکالنے والا صادق فقیر مٹھی میں الاپ لگاتا تھا اور سارے سندھ میں اس کی آواز گونجتی تھی۔ 26 فروری کے دن اس کو ایک حادثے نے اپنے چاہنے والوں سے جدا کردیا۔ عمرے کی ادائیگی کے بعد ہونے والے خوفناک حادثے کی خبر سندھ میں جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی۔

آواز اور الاپ کے متوالے تڑپ اٹھے اور صادق کو اپنے دیس میں واپس لانے کی کوشش کرنے لگے۔ سندھی روایتیں سندھ کا کلچر، جس کی بنیاد صرف محبت ہے۔ وہ اپنے گلوکار کو اپنے دیس میں دفنانا چاہتے تھے۔ صادق ایسا گلوکار تھا جس کی آواز نے سندھ کے مشہور شاعروں کی شاعری کو امر بنادیا۔ بھیگتی رات میں اس کے گلے سے نکلنے والے سُر ’’مومل رانو‘‘ کے بیت، سب آنکھوں کو پرنم کرتے تھے۔

(رات آئی گئی، تم نہ آئے پریت …شبنم میں بھیگی رات، روتی رہی)
(شیخ ایاز)
(ہر مومل ہر رانی کے پاس اپنی اپنی کاک ہے)
(شیخ ایاز)
صادق نہ تھکنے والا فنکار تھا۔ پوری رات سر بکھیرتے ہوئے تھکتا نہیں تھا۔ اس کے گانے کا انداز ایسا تھا کہ شاعر کا درد ایک کیفیت کی مانند ذہن پر طاری ہوجاتا تھا۔
اس کا مشہور کلام ’’سکھی پیا پیا کی ملین تو چئجاں، تہ چاندنی تو سوا نہ تھیندی‘‘
(سکھی پیا سے ملو تو کہنا کہ تمہارے بنا چاندنی نہیں ہوگی)
خیال کی نزاکت اور احساس کے ساتھ گانے میں صادق کو ملکہ حاصل تھا۔

صادق کا آخری سفر جدہ سے مٹھی تک، شاید زمانے نے ایسا سفر پہلے کبھی نہیں دیکھا ہوگا۔ تڑپتے عاشق تھے جو پروانوں کی مانند بھٹک رہے تھے۔ جسد خاکی تابوت میں بند تھا۔ اجرک، پھول، ڈھیر کی مانند جمع ہوتے جا رہے تھے۔

سندھ کے باشعور لوگ جس میں ہر طبقہ فکر کے لوگ شامل تھے، ادیب، شاعر، گلوکار، فنکار ہزاروں کا ہجوم، اپنے محبوب فنکار سے قدم بہ قدم چل رہا تھا۔ اس دن مٹھی شہر سارا بند تھا۔ محبوب کا آخری سفر ایسا ہی ہونا چاہیے تھا، اور ہوا۔

ہر گلی ہر گھر سے پھولوں کی بارش تھی اور آنسوؤں کے ترانے تھے۔ محبوب کی محبت کا کوئی مذہب کوئی فرقہ نہیں ہوتا، کوئی نسل نہیں ہوتی، محبت کی پہچان صرف محبت ہے۔ 5 فروری کا دن بھی ایسا ہی تھا جس میں سندھ نے محبت کی سرزمین ہونے کا ثبوت دیا۔ صوفی سندھ کی اصل پہچان، اصل چہرہ دنیا کو اس دن نظر آیا تھا۔ تڑپتی، سینہ کوبی کرتی ہوئی خواتین، ہجوم میں گم، کچھ پتہ نہیں چل رہا تھا کہ کس سے، کس کا کیا رشتہ تھا۔ صرف ایک رشتہ تھا۔ آواز کا، سر کا سچا رشتہ، محبت اور عاشقی کا سچا رشتہ، جس میں سب بندھے نظر آرہے تھے۔ ایک دوسرے کے گلے مل کر رونے والوں کی اپنی اپنی یادیں تھیں۔

صادق سب کے دل میں زندہ تھا۔ ساتھ اٹھنا بیٹھنا، ملنا جلنا، گانا، راگ کی محفلیں، خوشیاں اکٹھی، غم اکٹھے، ایک زندگی میں کیا کچھ نہیں ہوتا۔ ایک زندگی بہت رنگ دکھاتی ہے، یہی زندگی عزیزوں سے شکایتیں اور غم کی سوغاتیں دیتی ہے اور یہی زندگی دل کے قریب دوستوں سے بھی ملاتی ہے۔

ساتھ ہنسنے اور ساتھ رونے والے ہمیشہ یاد رہتے ہیں۔ صادق فقیر بھی ایسا ہی بے لوث فنکار تھا۔ تھر کے لوگوں کی آواز تھا۔ اس کے گلے میں تھر کے دکھ بولتے تھے۔ یہی دکھ تھے جو آج لوگوں کو خون کے آنسو رلا رہے تھے۔ ماتھا اور سر پیٹتے ہوئے لوگ۔ آہ و زاری کرتے ہوئے لوگ، صادق فقیر کے گائے ہوئے گیت بھی الاپ رہے تھے۔

’’وہ ہمیں اکیلا چھوڑ گیا‘‘
ایک آدمی زور زور سے رونے لگا۔

مٹھی شہر کی ہر گلی میں صادق فقیر کی یادیں بھاگ رہی تھیں۔ایک صحافی بتا رہا تھا کہ وہ جگہ ہے جہاں صادق فقیر نے آخری محفل کی تھی۔ مٹھی کے ہائی اسکول کا گراؤنڈ لوگوں سے بھرا ہوا تھا۔ سندھ کے گلوکار صادق فقیر کی نماز جنازہ ادا کی جا رہی تھی۔اس دن سورج نے ایسا ہجوم دیکھا جو شاید پہلے کبھی نہ دیکھا تھا۔

جنازے میں مسلمان، ہندو ساتھ ساتھ، شیعہ سنی ساتھ ساتھ تھے۔ قرآن کا ورد بھی تھا۔ گیتا بھی پڑھی جا رہی تھی۔ ’’شاہ جو رسالو‘‘ کا ورد بھی جاری تھا۔ سروں کا الاپ بھی تھا۔ اس دن ہولی کے رنگ بے رنگ ہوگئے۔ مٹھی شہر جس میں یادگار اور بھرپور طریقے سے ہولی منائی جاتی ہے اس میں سارے کاروباری مراکز بند تھے، سارے گھر خالی تھے۔ بچے، بوڑھے، خواتین سب صادق کے آخری سفر کے ساتھی بننے کے لیے ایک جگہ جمع تھے۔فن اور فنکار محبتیں بانٹتے ہیں، دلوں کو اور رشتوں کو جوڑتے ہیں، یہ سندھی سماج کا حقیقی کلچر ہے جس میں مذہب، ذات پات کا کوئی مڈبھیڑ نہیں ہے۔

ساری دنیا نے اس محبت کی ماری قوم کی محبت اور دیوانگی دیکھی، اپنی دھرتی اپنی مٹی میں ملنے کی خواہش کی تکمیل ہوئی۔ صادق فقیر کا جسد خاکی اپنے تھر کی مٹی میں دفن کیا گیا۔آواز کبھی نہیں مرتی، آواز فضاؤں میں زندہ رہتی ہے، صادق فقیر کی آواز بھی سندھ کی فضاؤں میں محبتیں بانٹتی رہے گی۔ صادق نے جس شاعر کو بھی گایا اس کی شاعری کا حق ادا کردیا۔ وہ ادب کا طالب علم تھا۔ راگ کو بھی جانتا تھا۔ شاعری، سر اور ساز کے سنگم سے امر گیت جنم لیتے ہیں۔

صادق فقیر نے بھی سندھ کو یادگار گیت دیے ہیں۔ سندھ کے ہر شہر، ہر گلی، ہر کوچے میں آج اس کے الاپ گونج رہے ہیں۔ وہ جس نے سروں کی محبت بانٹی تھی۔ آج اپنے تھر کی پیاسی دھرتی میں سو رہا ہے۔ لیکن اس کی محبت آواز کی صورت میں جاگ رہی ہے۔ واقعی صادق کی موت نے دنیا کو دکھا دیا کہ سندھ کی محبت کیا ہے، دھرتی سے محبت کرنے والے پروانے اپنی مٹی میں ملنے کے لیے موت کے بعد بھی سفر کرتے ہیں۔ گیت اور سر دلوں کو جوڑتے ہیں، توڑتے نہیں۔

فنکار ہمارا سرمایا اور ہماری دھرتی کی روایتوں کے امین ہوتے ہیں۔ سر ایک شمع کی طرح ہیں جس کے اردگرد پروانے جھپکتے ہیں مرتے ہیں لیکن اس کو کبھی نہیں توڑتے۔ دیس کی مٹی، خوش نصیب لوگوں کو ملتی ہے۔ صادق فقیر جیسے سچے فنکار صدیوں میں پیدا ہوتے ہیں اور صدیاں ان کو یاد رکھتی ہیں۔نوٹ: سورٹھ رائے ڈیاچ سندھ کی مشہور لوک داستان ہے، جس کو شاہ عبداللطیف بھٹائی نے اپنی شاعری میں بیان کیا ہے۔

رائے ڈیاچ بادشاہ تھا جوکہ سروں کا دلدادہ تھا۔ بیجل ایک گویا تھا۔ وہ سرندہ بجاتا تھا، اس کے ساز کی آواز سن کر پرندے بھی خاموش ہوجاتے تھے۔ ایک دن بادشاہ رائے ڈیاچ نے اسے دربار میں بلاکر اس کا راگ سنا اور مدہوش ہوگیا۔ پوچھا کہ مانگو کیا مانگتے ہو، بیجل نے کہا تمہارا سَر چاہیے۔ رائے ڈیاچ نے تلوار اٹھائی اور اپنی گردن کاٹ کر بیجل کے قدموں میں پھینک دی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔