بُک شیلف

غم ایک آفاقی جذبہ ہے، اس کا سچا اور سادہ اظہار سبھی کو اپنا لگتا ہے۔ فوٹو فائل

غم ایک آفاقی جذبہ ہے، اس کا سچا اور سادہ اظہار سبھی کو اپنا لگتا ہے۔ فوٹو فائل

قیامت کو ملیں گے
شاعر: م۔ حنیف
ناشر: بابر حنیف، جامعہ دارالعلوم حقانیہ، اکوڑہ خٹک
قیمت:150 روپے

’’۔۔۔ قیامت کو ملیں گے‘‘ اس صاحبِ مشق شاعر کا مجموعۂ کرب ہے۔ اس میں مرثیے ہیں، بین ہیں، غزل کے علاوہ آزاد، پابند اور نثری نظموں کا میڈیم بھی استعمال کیا گیا ہے، ’’دعا، جو قبول ہوگئی‘‘ کے عنوان سے ایک نثریہ بھی شامل ہے۔ اکثر نظمیں اور غزلیں اپنے جواں مرگ بیٹے فیصل کی یاد میں ہیں، بعض تخلیقات اپنے محبوب رشتہ داروں کی یاد میں بھی شامل ہیں۔ چھے نظمیں انگریزی میں اردو ترجمے کے ساتھ شامل ہیں۔

مجموعہ، تمام تر ذاتی تجربۂ اندوہ پر مبنی ہے اور اس میں کسی قسم کا تصنع یا ساختگی کی کھوٹ نہیں ہے، اسی لیے بہت سے مقامات پر قاری دل زدہ ہو جاتا ہے، متعدد جگہ پر رقت طاری ہو جاتی ہے اور خاص طور پر وہ لوگ لامحالہ اس کی زد پر آتے ہیں، جو ایسے سانحات سے دوچار ہوئے ہوں گے۔ یوں بھی غم ایک آفاقی جذبہ ہے، اس کا سچا اور سادہ اظہار سبھی کو اپنا لگتا ہے۔ شاعر نے کسی مقام پر اپنی استادی کا مظاہرہ نہیں کیا، جیسا کہ ریاضت کی فراوانی بعض شعرا کو مجبور کرتی ہے، یہ ہی وجہ ہے کہ ان کے بیانیے کی تاثیر حد درجے بڑھی ہوئی ہے تاہم وہ محض سادہ نہیں ہیں ان کے ہاں پرکاری بھی وافر ہے۔

وہی کشادگی اور وسیع المشربی ہے، جو صوفیا کے ہاں فراوانی سے پائی جاتی ہے۔

اس مجموعے میں متعدد غزلیہ مرثیے غیر مردف ہیں، جو م حنیف صاحب کی مشاقی اور اظہار پر ان کی قدرت کی غمازی کرتے ہیں البتہ دو، تین مقامات ایسے ہیں، جہاں شاعر سے اپنے وفور میں بعض فروگذاشتیں بھی ہوگئی ہیں۔ حنیف صاحب نظرثانی کریں گے تو جہاں جہاں یہ موجود ہیں، وہاں وہاں ضرور ان کی نظر الجھے گی۔

خاکسترچنار
مصنف: خواجہ محمد بشیر بٹ
قیمت:200 روپے
ناشر:الحمد پبلی کیشنز

خواجہ محمد بشیر بٹ امورِ کشمیر کے محض ناظر و سائر نہیں بل کہ اس دشت میں ایک عمر گزار بیٹھے ہیں ۔ انہوں نے 1948 کے جہاد کشمیر میں عملی طور پر شرکت کرکے اپنی مجاہدانہ زندگی کا آغاز کیا۔ اس سے قبل وہ تحریک پاکستان میں بھی بہ طور طالب علم لیڈر اپنا حصہ ڈال چکے ہیں۔

خاکستر چنار دراصل ان کے 40 سے زیادہ ان مضامین کا مجموعہ ہے، جو ’’شیر کشمیر‘‘ شیخ محمد عبداللہ کی سوانح عمری ’’آتشِ چنار‘‘ کا جواب ہیں۔ خواجہ صاحب نے شیخ عبداللہ مرحوم کی فروگذاشتوں کو بڑے سلیقے سے آشکار کیا اور قرینے سے تنقید کا نشانہ بنایا۔ شیخ مرحوم کی سوانح عمری میں بہت سے ایسے حقائق ہیں جن پر بہ قول خواجہ صاحب انہوں نے پردہ ڈالنے کی کوشش کی اور اپنے قاری کو گم راہ کیا۔

خواجہ صاحب نے ان حقائق پر سے پردہ بڑی خوب صورتی سے اٹھایا ہے۔خواجہ صاحب کہنہ مشق لکھاری ہیں۔ ان کا اسلوب تحریر نہایت سادہ اور دل نشیں ہے، قاری کسی بھی مقام پر بے زاری محسوس نہیں کرتا۔ کشمیر کے طالب علموں کی بک شیلف میں یہ کتاب ضرور ہونی چاہیے۔

نام کتاب: کالا اعتراف
مصنفہ : شازیہ باقر آغا
صفحات : 206
قیمت: 400 روپے
ناشر: وائٹل پبلی کیشنز، لاہور

’ ’ کالا اعتراف ‘‘ ایک اصلاحی ناولٹ ہے جس کا بنیادی موضوع محبت ہے ۔یہ ایک فطری جذبہ ہے جو دوانسانو ں میں پروان چڑھتا ہے ۔ شازیہ باقر آغا کا یہ ناولٹ دو دلوں کی ایسی کہانی ہے جس کاہیرو ایک بنیاد پرست مسلمان نوجوان ہے جب کہ ہیروئن ایک خوبصورت ، شوخ و چنچل مسیحی دو شیزہ ہے ۔وہ ایک دوسرے کی محبت میں اس طرح بندھے ہوتے ہیں کہ مذہبی حدودو قیود انہیں ایک دوسرے سے الگ نہیں کرسکتیں۔

’’کالااعتراف ‘ ‘ جیسا کہ نام سے ظاہر ہے ،بشریٰ رحمان کے بقول ’’ اﷲ کے ایک معصوم بندے کے اس اعتراف کا نام ہے جس میں اس کی نیت کا کوئی گناہ شامل نہیں تھا ‘‘۔ مصنفہ نے دو مختلف مذاہب کے ماننے والوں کو ایک دوسرے کو قبول کرنے ، رواداری اور برداشت کے رویے کو فروغ دینے کی کوشش کی ہے ۔فنی اعتبار سے شاید یہ ناول بہت اچھے معیار کا حامل قرارنہ پا سکے لیکن اس کے ذریعے جو پیغام دیا گیا ہے وہ بہرحال اہمیت کا حامل ہے۔

ہمارے ہاں مذہبی منافرت نے معاشرے کو جس انتشار اور بد امنی میں مبتلا کررکھا ہے وہ پورے سماج کو جہنم زار بنائے ہوئے ہے ۔ اسلام اور مسیحیت دونوں مذاہب کی الہامی کتب قرآن مجید اور انجیل مقدس کا ایک دوسرے کے ساتھ انتہائی مضبوط تعلق ہے ۔

انجیل مقدس میں اگرچہ تحریف ہوچکی ہے اور آج وہ اپنی اصل حالت میں نہیں ہے لیکن اس کے باوجود اس کا لافانی پیغام اور ابدی ہدایات وہی ہیں جو ہمیں قرآن مجید میں بھی ملتی ہے ۔جن پر عمل کر کے ہم ایک صالح اور فلاحی معاشرہ تشکیل دے سکتے ہیں ۔زیر تبصرہ ناولٹ میں یہی جذبہ کارفرما دکھائی دیتا ہے ۔شازیہ باقرآغا کی یہ ایسی کوشش ہے جس کی حوصلہ افزائی کی جانی چاہیے۔

غزہ پہ کیا گزری؟
مصنف: میربابرمشتاق
قیمت:210روپے
ناشر…عثمان پبلی کیشنز ، 8-A بلاک13-B
ریلوے ہائوسنگ سکیم گلشن اقبال کراچی

’غزہ ‘ کے معنی ہیں’ ناقابل تسخیر‘۔ اگرچہ فلسطینی حریت پسند تحریک حماس کے زیراثر فلسطین کا یہ حصہ اس وقت دنیا کی سب سے بڑی جیل کی صورت اختیارکرچکاہے لیکن ہے یہ ناقابل تسخیر۔ 12لاکھ آبادی کا یہ محبوس و محصورعلاقہ کئی مرتبہ اسرائیل کی وحشیانہ بمباری سے ملبے کا ڈھیر بن چکاہے لیکن آزادی اور حریت کا جذبہ کم ہونے میں ہی نہیں آتا۔ تمام فلسطینی، چاہے وہ اسلام پسند ہوں یا سیکولر، آزادی سے کم کسی چیز پر سمجھوتہ کرنے کو تیارنہیں۔

زیرنظرکتاب غزہ اور غزہ والوں کی مکمل داستان ہے۔ اس میں ارض فلسطین کے تاریخی وسیاسی اور جغرافیائی حقائق، فلسطین کا محل وقوع، تاریخ، مسلمانوں کے ہاتھوں فلسطین کی فتح، صہیونیت کی ابتداء، حماس کی تاسیس، تعارف ، ارتقا، نصب العین، حماس کی اصلاحات اور پالیسیاں، حماس کی قوت کے بارے میں امریکہ کا اعتراف، حماس کی فتح،حماس کے بانی اورقائدین کا تعارف، غزہ پر کیا گزری، بیرونی دنیا کا ردعمل ، جیلوں میں قید غزہ کے ڈھائی ہزار بچوں کا احوال بھی بیان کیاگیاہے ۔

اسرائیل کے انجام سے متعلق کئی ابواب میں بحث کی گئی ہے۔اس میں اسرائیل بائیکاٹ مہم اور مغرب میں اسرائیل مخالف جذبات، اسرائیل کی پسپائی بھی شامل ہیں۔ کتاب ایک اہم دستاویز کی حیثیت رکھتی ہے۔

دریچہء خیال
شاعر: محمود رضا محمود
قیمت: 275 روپے
صفحات:142

شاعری اظہار کا انتہائی خوبصورت وسیلہ ہے، محمود رضا محمود نے اپنے دل و دماغ میں پیدا ہونے والے خیالات کو دوسروں تک پہنچانے کے لئے شاعری کو ذریعہ بنایا ہے ۔ گو یہ ان کا پہلا شعری مجموعہ ہے مگر ان کی فکر اور انداز بیاں میں پختگی کی جھلک نمایاں ہے ۔ جیسے کہتے ہیں

رسوائیوںکی لذتیں دوام کر گیا
کچھ اس طرح سے وہ مجھے بدنام کر گیا
ہر گام تہمتوں سے یوں مجھکو نواز کر
وہ میری پارسائی ہی نیلام کر گیا

کلام کی بے ساختگی اس کے حسن میں مزید اضافہ کر دیتی ہے۔ کتاب میں ایک حصہ پنجابی کا بھی شامل ہے جس میں نظمیں اور قطعات شامل کئے گئے ہیں۔ خوبصورت ٹائٹل کے ساتھ مجلد کتاب کو شکیل پرنٹرز نے شائع کیا ہے ۔

نہ پنجرہ نہ آہلنا
مصنف: سہیل فدا
پنجابی ترجمہ: ریاض احمد
ناشر: پیرا مائونٹ بکس پرائیویٹ لمیٹڈ
پی ای سی ایچ ایس، کراچی۔ فون:34310030
قیمت:395 روپے

یہ 2002ء کی بات ہے جب منگورہ، سوات کے سترہ سالہ نوجوان، سہیل فدا کو ضلعی قاضی نے سزائے موت دی۔ سہیل پر الزام تھا کہ اس نے اپنے دوست کو قتل کیا ہے۔ مگر سہیل کا کہنا تھا کہ یہ جھوٹ ہے۔ لہٰذا اس نے اعلیٰ عدالتوں سے رجوع کرلیا۔جب کسی بے گناہ کو سزائے موت ہو، تو غم و غصے کے مارے اس کے اعصاب شل ہوجاتے ہیں۔ ایسی دل گرفتہ حالت میں وہ کوئی کام نہیں کرپاتا۔ مگر سہیل فدا نے نوخیز پن اور ناتجربے کاری کے باوجود اپنی ہمت و حوصلہ برقرار رکھا اور زندگی سے ناتا نہیں توڑا۔سہیل فدا نے والدین کے ساتھ مل کر قانونی جنگ لڑی۔ ساتھ ساتھ وہ جیل میں تعلیم بھی حاصل کرتے رہے۔ انہوں نے بی اے کیا اور پھر دو ایم اے بھی کرلیے۔ 2007ء میں وفاقی شرعی عدالت نے ان کی سزا عمر قید میں بدل دی۔ سہیل فدا پھر رہائی کی کوششیں کرنے لگے اور آخر 2012ء میں انہیںآزادی کی نعمت دوبارہ نصیب ہوگئی۔

سوات کے اس نوجوان کو دوران اسیری جو تلخ و شیریں واقعات پیش آئے، وہ انہوں نے اپنی آپ بیتی میں تحریر کیے۔ یہ آپ بیتی پہلے اردو اور پھر انگریزی میں شائع ہوئی۔ اب زیر تبصرہ کتاب اس کا پنجابی ترجمہ ہے ،جو ریاض احمد کے قلم سے ہے، جواس سے قبل اس کتاب کااردوترجمہ بھی کرچکے ہیں۔دونوںزبانوں میں ان کے ترجمے شستہ اوررواں زبان میں ہیں۔ یہ آپ بیتی عیاں کرتی ہے کہ جیل میں انسانوں کو کس قسم کے تکلیف دہ اور کٹھن حالات سے واسطہ پڑتا ہے اور یہ کہ قیدیوں کی حالت زار کوکس طرح سنوارنا ممکن ہے۔ آپ بیتیاں پڑھنے کے شوقین قارئین اس کتاب کو مرعوب و دل پسند پائیں گے۔

کتاب کی طباعت عمدہ اور معیاری ہے۔ معنوی وظاہری لحاظ سے اس خوبصورت کتاب کو اپنے کتب خانے کی زینت بنائیے۔

سکوت ذات
شاعر: میر زا امجد رازی
ناشر : شمع بکس ، فیصل آباد
قیمت: 350/ روپے
صفحات:136

میرزا امجد رازی مشرقی علوم کے شناور اور ایک عالم ، فاضل ، زبان وبیان پر عبور اور شعروسخن اور علم عروض پر مکمل دسترس رکھنے والی ایسی شخصیت ہیں کہ قدرت نے جنہیں غیر معمولی ذوق اور جذبہ عشق کے ساتھ حددرجہ فصاحت و بلاغت سے نوازا ہے ۔

’’سکوت ِ ذات‘‘ میرزا امجد رازی کی خوبصورت اور وجد آفریں شاعری سے مزین وہ مجموعہ ہے جسے پڑھ کر قاری عجیب سی سرشاری محسوس کرتا ہے ۔ان کی شاعری مکیں کلاسیکی رچاو کے ساتھ ساتھ جدیدیت کا حسن بھی جلوہ گر دکھائی دیتا ہے ۔علامہ ضیاء حسین ضیاء کہتے ہیں ’’ رازی کے ہاں تجربات نے اس کے شعروں میں ایک صرفی تفکر پیدا کردیا ہے ، جو مختلف مراحل اور ذائقوں میں اپنی ایک الگ انفرادی شان کو منواتا ہے ‘‘۔

ڈاکٹر سعید احمد کے الفاظ میں ’’ رازی کے اسلوب میں کلاسیکی طہارت اور جدید لہجے کا خوبصورت امتزاج نظرآتا ہے ‘‘۔کتاب صوری اور معنوی ہر دو اعتبار سے خوبصورت اور جاذب نظر ہے جس کا جتنی مرتبہ بھی مطالعہ کیا جائے ہر بارقاری ایک نیے جہان معنی سے آشنا ہوتا ہے ۔

فہم قرآن… سرخ اور نیلے رنگوں کی روشنی میں

ہم قرآن مجید سے اپنا تعلق جوڑ لیں تو پوری ملت کی ہستی ایک نئی زندگی اور نئی توانائی سے مالامال ہوسکتی ہے۔ ہمارے اجڑے ہوئے گلستانوں میں بہارتازہ آسکتی ہے۔

دور مصیبت اور زمانہ معصیت سے بچ نکلنے کا واحد ذریعہ قرآن سے دلوں کا رشتہ بحال کرناہے۔ قرآن سے وابستگی کے معنی یہ ہیں کہ ہم نے اللہ تعالیٰ اور اپنے رسول خاتم النّبیین حضرت محمد ﷺ سے محبت واطاعت کے مقدس رابطے بحال کرلئے ہیں۔ لیکن اس سلسلے میں ایک عذر پیش کیاجاتاہے کہ قرآن عربی میں ہے اور ہم عربی نہیں جانتے، لیکن یہ عذر ہمیں اللہ تعالیٰ کی پکڑ سے نہیں بچاسکتا۔کیونکہ ہم دنیوی مفادات کی خاطر دنیا کی مشکل ترین اجنبی زبانیں، ہرقسم کے علوم وفنون، صنعتیں اور حرفتیں سیکھ کر ان میں مہارت حاصل کرلیتے ہیں تو اللہ تعالیٰ کا کلام سمجھنے میں کوئی عذر کیوں؟

یقینا اجنبی زبان سمجھنا آسان نہیں، لیکن قرآنی عربی سمجھنا کچھ زیادہ مشکل بھی نہیں۔ قرآن مجید کے بہت سے الفاظ اردو دان طبقہ روزمرہ سنتا، سمجھتارہتاہے۔ اگرکچھ مشکل تھی تو وہ ان لوگوں نے آسان کردی ہے جو سائنٹفک اندازمیں قرآن کا فہم دینے کی کوشش کررہے ہیں۔

ایسے ہی لوگوں میں مرحوم سیدشبیر احمد تھے جنھوں نے قرآن مجید کے معانی سمجھانے کا ایک انتہائی کامیاب طریقہ تعلیم متعارف کرایا۔ انھوں نے تعلیمی نفسیات کے اصولوں کی روشنی میں پہلی بار قرآنی الفاظ کے معانی کی نشاندہی کے لئے دو رنگوں(سرخ اور نیلا( سے کام لیا۔ یعنی قرآن مجید کی آیت اور ترجمہ آمنے سامنے ہوتے ہیں۔ جس رنگ میں قرآنی لفظ ہوتاہے، اسی رنگ میں اس لفظ کا ترجمہ ہوتاہے۔ اس ترجمہ کی مزید خوبی یہ ہے کہ یہ مزید سلیس، عام فہم اور رواں ہے۔

سیدشبیراحمد کی قائم کردہ ’’قرآن آسان تحریک‘‘ نے قرآن مجید کے تراجم مختلف سائز میں شائع کئے ہیں۔ کامل، دوجلدوںمیں، تین جلدوں میں، سٹینڈرڈ سائز،حمائل سائز، پاکٹ سائز، جہیزایڈیشن، اور تیس پاروں کی صورت میں الگ الگ بھی۔ تیرہ مختلف سورتیں ایک جلد میں، نماز، حرزاعظم، قرآنی ومسنون دعائوں سمیت احادیث اور فہم اسلام سے متعلق دیگرمتعدد اردو اور انگلش کتب بھی اسی اندازمیں شائع ہوچکی ہیں۔ طباعت سے لے کر پیشکش تک بہترین معیار کو ملحوظ خاطر رکھاگیاہے۔ملنے کا پتہ: قرآن آسان تحریک، 50، لوئرمال نزد MAOکالج لاہور۔

دوا، غذا اور شفا
مصنف:ڈاکٹرآصف محمود جاہ
قیمت:130روپے
ناشر:نیشنل بک فائونڈیشن اسلام آباد

پاکستان دنیا کے ان ممالک میں شامل ہیں جہاں انسانی صحت شدیدبحرانوں سے دوچارہے۔ ہرپاکستانی بیک وقت کئی بیماریوں کے ہتھے چڑھا ہواہے۔

ایسے میں یہاں صحت کی سہولتیں پورے اخلاص کے ساتھ عام کرنے کی ضرورت تھی دنیا کی تمام حکومتیں اپنی اقوام کو دنیا کی سب سے صحت مند اقوام بناناچاہتی ہیںلیکن افسوس ناک امریہ ہے کہ ہمارے یہاں بیماریاں اور بیماریاں پھیلانے والے آزاد ہیں لیکن علاج معالجہ انتہائی مشکل۔ معالجین کی عظیم اکثریت مریضوں سے اس بات کا انتقام لیتی ہے کہ ان معالجین نے مہنگی فیس دے کر تعلیم حاصل کی تھی، اور اب انھیں اپنا مستقبل سنوارنا ہے۔ یہاں کی حکومتیں بھی اس لوٹ مار میں برابر کی شریک ہیں۔

اگریہ کہاجائے کہ پاکستان کے طبی مراکز مقتل بن چکے ہیں، تو غلط نہ ہوگا۔ اس تناظر میں اگر کسی معاشرے میں کچھ لوگ نہایت اخلاص کے ساتھ شعورِ صحت پھیلانے اور مریضوں کی بیماریوں سے جان چھڑانے میں کوشاں ہوں ، تو وہی اس معاشرے کا اثاثہ ہوتے ہیں۔ ڈاکٹر آصف محمود جاہ بھی ایسے لوگوں میں شامل ہیں۔

وہ جتنے اچھے انسان ہیں، اتنے ہی اچھے معالج ہیں اور اتنے ہی اچھے مصنف۔ پڑھنے والے اس کا اندازہ زیرنظرکتاب سے بھی کرلیں جس میں70سے زائد بیماریوں کے بارے انتہائی آسان اندازلیکن تمام ضروری تفصیل کے ساتھ رہنمائی کی گئی ہے۔ ہربیماری کے باب میں پہلے مفید ایلوپیتھک ادویات تحریرکی گئی ہیں، ساتھ ہی ان کے مضراثرات سے خبردار بھی کیاگیاہے، دوا کی نوعیت اور ضرورت کی اہمیت، بیماری کے اسباب، احتیاطی تدابیر بھی درج کی گئی ہیں۔

ساتھ ہی ساتھ اس کے آسان اور متبادل علاج بھی تحریر کئے گئے ہیں۔ ڈاکٹرصاحب نے کتاب میں دوائوں کے مضراثرات، ان سے نمٹنے کی تدابیر، درد دور کرنے والی دوائوں پر الگ سے باب باندھے ہیں۔آخر میں شہد، صدقہ اور دعا کے انسانی صحت پر اثرات بھی تفصیل سے بیان کئے ہیں، قدرتی علاج کے 100 نسخے بھی شامل ہیں۔ یہ کتاب ہرگھر کی نہیں ہرفرد کی ضرورت ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔