ہتھیار، ہتھیار، ہتھیار۔۔۔؟

ظہیر اختر بیدری  پير 16 مارچ 2015
zaheer_akhter_beedri@yahoo.com

[email protected]

دنیا میں بے شمار صنعتیں کام کر رہی ہیں جو عموماً انسانوں کی بنیادی ضروریات کو پورا کرتی ہیں اور انھیں ایک بہتر اور پرامن اور پرمسرت زندگی گزارنے کے مواقع فراہم کرتی ہیں، ان صنعتوں سے انسانی زندگی کو کوئی خطرہ لاحق نہیں ہوتا۔ لیکن دنیا کی بڑی صنعتوں میں ایک بڑی اور انتہائی منافع بخش صنعت ’’اسلحہ سازی‘‘ کی صنعت ہے، اس صنعت کی ہر پروڈکٹ انسانوں کی جان لینے کا کام انجام دیتی ہے۔ اور بے شمار ملک اس صنعت میں خودکفیل ہونے کی جدوجہد کرتے نظر آتے ہیں۔ اسلحے کی صنعت میں اسلحے کے ہزاروں ماہرین اسلحے کو زیادہ سے زیادہ خطرناک بنانے کے لیے دن رات کام کر رہے ہیں۔

اس حوالے سے ایک دلچسپ اور حیرت انگیز بات یہ ہے کہ اسلحہ سازی کے ادارے ’’اسلحے کی نمائش‘‘ کا اہتمام کرتے ہیں اور دنیا بھر کے وہ ممالک جنھیں اسلحے کی ضرورت ہوتی ہے ان نمائشوں میں شرکت کر کے اپنی مرضی اور پسند کا اسلحہ خریدتے ہیں۔ میں جب بھی اسلحے کی نمائشوں کے حوالے سے پروپیگنڈے اور بیچنے والوں کی طرف سے اسلحے کی تعریف میں بیانات دیکھتا ہوں تو میرے ذہن میں ایک منطقی سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ہم لوگ انسان کہلانے کے مستحق ہیں؟ کیا اسلحہ انسان کی کوئی بنیادی ضرورت پوری کرتا ہے؟ کیا اسلحہ بھوکے کو روٹی، بیمار کو علاج فراہم کرتا ہے؟ کیا اسلحے کا تعلق زندگی کو بہتر بنانے اور زندگی کے تسلسل کو جاری رکھنے سے ہے؟ نہیں، نہیں، نہیں۔ بلکہ اسلحہ خواہ اس کی قسم کوئی ہو اسلحہ خواہ ہلکا ہو یا بھاری سب کا کام انسانوں کی جان لینا ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ اسلحے کا اور کوئی مصرف نہیں۔

اگر حقیقت یہی ہے تو پھر کیا دنیا کے دانشوروں، مفکروں، فلسفیوں، ادیبوں، شاعروں، فنکاروں نے اسلحہ سازی اور اسلحے کے استعمال کے خلاف کوئی منظم اور مربوط کوششیں کی ہیں؟ ایکسپریس میں میرا پہلا کالم اسلحے کی پیداوار اور اس کے نقصانات کے حوالے سے تھا اور میرے افسانوی مجموعے ’’ریگ زار‘‘ میں اسلحے کی تباہ کاریوں کے اور اسلحہ سازی کے خلاف کئی افسانے موجود ہیں، لیکن المیہ یہ ہے کہ ایسا ادب ایسی شاعری عوام تک رسائی حاصل کرنے سے محروم ہے۔

آج ایک بار پھر میں اسلحے اور اسلحے کی صنعتوں کی تباہ کاریوں کے خلاف اس لیے لکھ رہا ہوں کہ دو خبریں میرے سامنے ہیں ایک خبر کی سرخی ہے ’’سعودیہ اسلحے کا سب سے بڑا خریدار بن گیا، بھارت کا نمبر دوسرا ہے۔‘‘ اس خبر کی تفصیل میں بتایا گیا ہے کہ دنیا میں اسلحے کی خریداری میں سعودی عرب بھارت سے بھی بازی لے گیا۔ 2014ء میں سعودی عرب اسلحہ خریدنے والا دنیا کا سب سے بڑا ملک بن گیا۔ عالمی معیشت اور عالمی منڈی پر تحقیق کرنے والے ایک ادارے نے ’’ای ایچ ایس‘‘ اپنی ایک رپورٹ میں انکشاف کیا ہے کہ گزشتہ 6 برسوں کے دوران دنیا بھر کی اسلحے کی منڈیوں میں اسلحے کی تجارت میں تیزی سے اضافہ دیکھا جا رہا ہے۔ 2014ء میں اسلحے کی کل تجارت 64.4 ارب ڈالر ہوئی جس میں سب سے بڑا حصہ سعودی عرب کا رہا۔

رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ اسلحے کی تجارت میں ریکارڈ اضافے کی بڑی وجہ معاشی ترقی کرنے والے ملکوں کی جانب سے فوجی طیاروں کی مانگ میں اضافہ اور مشرق وسطیٰ اور ایشیائی بحرالکاہل کے خطے میں بڑھتی ہوئی کشیدگی ہے۔ 2013ء کی طرح 2014ء میں بھی امریکا اسلحہ فروخت کرنے والا سب سے بڑا ملک رہا۔ اس کے بعد روس، فرانس، برطانیہ اور جرمن اسلحہ فروخت کرنے والے بڑے ملک بن رہے۔ سعودی عرب کے اسلحے کی خریداری کے آرڈر کو دیکھتے ہوئے کہا جا سکتا ہے کہ 2015ء میں سعودی عرب کی خریداری کی لاگت 9.8 ارب ڈالر ہو جائے گی جو اسلحے کی تجارت کا 52 فیصد حصہ ہو گی رپورٹ کے مطابق مشرق وسطیٰ اسلحے کی سب سے بڑی علاقائی منڈی ہے اور آنے والے 10 برسوں میں اس علاقے میں اسلحے کی خریداری میں 12 سو فیصد اضافہ ہو جائے گا۔

اس حوالے سے آج کی دوسری بڑی خبر ہے ’’2150 کلومیٹر تک مار کرنے والے بیلیسٹک میزائل شاہین 3 کا کامیاب تجربہ‘‘ اس خبر کی تفصیل میں بتایا گیا ہے کہ یہ میزائل زمین سے زمین پر ہدف کو درست نشانہ بنانے اور ایٹمی اور روایتی ہتھیار لے جانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ پاکستان اور ہندوستان کے درمیان جو میزائل سازی کی دوڑ ہو رہی ہے اور پرتھوی اور غوری کو جس طرح طاقتور بنایا جا رہا ہے شاہین 3 اسی دوڑ کا حصہ ہے۔ اس حوالے سے ایک اور خبر ملاحظہ ہو ’’اسرائیل نے اپنے ایئر ڈیفنس سسٹم کی ناکامی کا اعتراف کر لیا۔ آئرن ڈوم‘‘ یہودی بستیوں کو تحفظ فراہم کرنے میں ناکام رہا۔

اشرف المخلوقات کا تمغہ سینے پر سجایا ہوا انسان ان خبروں کے پس منظر میں کیا اشرف المخلوقات کہلوانے کا مستحق ہو سکتا ہے؟ بلاشبہ انسان کے جانی تحفظ کے لیے ہتھیار کی ضرورت ہوتی ہے۔ پتھر کے دور کے انسان بھی اپنی جانوں کے تحفظ کے لیے پتھر کے ہتھیار بناتے تھے لیکن پتھر کے دور کے ننگ دھڑنگ انسانوں کو حیوانوں اور درندوں سے اپنی جانوں کو خطرہ تھا اور وہ درندوں سے اپنی جانوں کو بچانے کے لیے پتھر کے ہتھیار بناتے تھے انھیں اپنے جیسے انسانوں سے کوئی خطرہ نہ تھا۔

آج اکیسویں صدی کے انتہائی ترقی یافتہ انسان کو انسان ہی کی طرف سے خطرات لاحق ہیں اور وہ ان خطرات سے بچنے کے لیے اگنی، پرتھوی، غوری، شاہین میزائل بنا رہا ہے۔ ابتدائی انسانی دور میں قوم اور ملک کا کوئی تصور موجود نہیں تھا، آج کی مہذب دنیا میں قوم ملک کو روشناس کرایا گیا اور انسانوں کی نمایندہ ایک قوم و ملک کو دوسری قوم و ملک سے خطرات لاحق ہیں اور انھیں خطرات سے بچنے کے لیے آج کا ترقی یافتہ مہذب انسان جدید سے جدید ہتھیار تیار کر رہا ہے۔

عالمی اداروں کی سروے رپورٹس کے مطابق ہر سال لاکھوں انسان بھوک اور بیماری سے مر جاتے ہیں، لاکھوں بچے دودھ نہ ملنے کی وجہ سے اور لاکھوں حاملہ عورتیں زچگی کی سہولتیں میسر نہ ہونے اور ناقص غذا کی وجہ سے مر جاتی ہیں۔ اس المناک پس منظر میں اسلحے کی عالمی اور علاقائی منڈیوں کی تجارت میں ہزاروں فیصد اضافہ کیا ہمارے انسان ہونے پر ایک سوالیہ نشان نہیں بن رہا ہے؟

پہلی اور دوسری عالمی جنگوں میں کروڑوں انسان چیونٹیوں، مکوڑوں کی طرح مر گئے، کوریا اور ویت نام کی جنگوں میں عام لوگوں کی ہلاکتوں کا اندازہ اس حقیقت سے لگایا جا سکتا ہے کہ اس جنگ میں 59 ہزار امریکی فوجی مارے گئے۔ حالیہ عراق اور افغانستان کی جنگوں میں 20 لاکھ کے لگ بھگ بے گناہ انسان مارے گئے، پاکستان میں دہشت گردوں کے ہاتھوں مارے جانے والوں کی تعداد50 ہزار سے زیادہ ہے، یہ سب لوگ پتھر کے ہتھیاروں سے نہیں بلکہ آج کے مہذب انسانوں کے بنائے ہوئے جدید ہتھیاروں سے مارے گئے ہیں۔

امریکا دنیا بھر میں ہونے والی ہتھیاروں کی تجارت میں سرفہرست ہے، سعودی عرب دنیا بھر میں اسلحہ خریدنے والا سب سے بڑا ملک ہے، مشرق وسطیٰ اسلحے کی سب سے بڑی علاقائی منڈی ہے، کیا ان منڈیوں کا تعلق منڈی کی معیشت سے ہے؟ یہ ایسے سوال ہیں جن پر آج کے مہذب انسان کو سنجیدگی سے سوچنا چاہیے۔ ملک و قوم اور قومی مفادات کے نام پر جو خونیں کھیل صدیوں سے جاری ہے۔ کیا اس ہولناک کھیل کو یوں ہی جاری رہنا چاہیے؟ کیا اکیسویں صدی کا مہذب انسان اسلحے کی نمائش منعقد کر کے انسان اور اس کے مستقبل کو محفوظ بنا رہا ہے؟

اختلافات انسانوں کے درمیان اور قوموں کے درمیان ہوتے رہے ہیں، ہو رہے ہیں اور ہوتے رہیں گے۔ کیا اختلافات کو ہتھیاروں کے ذریعے ہی ختم کیا جا سکتا ہے یا پرامن بات چیت کے ذریعے بھی اختلافات دور کیے جا سکتے ہیں؟ اختلافات، تعصبات اور نفرتوں کی وجوہات کو ختم کیجیے۔ پھر نہ ہتھیاروں کی تیاری کی ضرورت ہو گی نہ تجارت کی۔ کاش، کاش، کاش آج کا ترقی یافتہ انسان اس سادہ سی حقیقت کو سمجھ لیتا؟ دنیا کے خطرناک ہتھیار کو صرف محبت سے ختم کیا جا سکتا ہے۔ کیا ہم جنگ اور نفرت کو محبت اور بھائی چارے سے ختم کرنے کے اہل ہیں؟

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔