آلودگی بڑھانے کے سیمینار

ڈاکٹر نوید اقبال انصاری  پير 16 مارچ 2015
apro_ku@yahoo.com

[email protected]

گزشتہ ہفتے راقم کو کراچی اور آلودگی کے حوالے سے ایک سیمینار میں شرکت کا موقع ملا۔ اس سیمینار کا اہتمام ایک این جی او کی جانب سے فائیو اسٹار ہوٹل میں کیا گیا تھا۔ سیمینار میں جامعہ کراچی کے انوائرمینٹل اسٹڈیز سینٹر کے نوجوان اسسٹنٹ پروفیسر نے کراچی میں بڑھتی ہوئی آلودگی کی جانب توجہ دلائی اور اپنے پی ایچ ڈی کے مقالہ کی تحقیق کے حوالے سے بھی آگہی فراہم کی۔

ان کا موقف تھا کہ یوں تو بڑا شہر ہونے کے ناتے کراچی میں کئی طرح سے آلودگی میں اضافہ ہورہا ہے تاہم سمندر کے کنارے آباد اس شہر میں ’’مینگروز‘‘ کے آبی پودے بھی متاثر ہورہے ہیں اور اس کے نتیجے میں مچھلیوں کی افزائش بھی متاثر ہورہی ہے۔ سمندر کے کنارے مختلف اداروں کی تعمیر اور رہائش کے لیے جگہ کے حصول نے ان پودوں کو خاص کر نقصان پہنچایا ہے۔

یوں تو اس سیمینار میں اور بھی بہت سے پہلوؤں سے حاضرین کو معلومات و آگہی فراہم کی گئی لیکن راقم کو محسوس ہوا کہ شاید یہ سیمینار بھی اس کے سوا کسی اور مقصد کے حصول میں کامیاب نہ ہوگا کہ صبح اخبارات میں مقررین کی تصاویر اور خبریں شایع ہوجائیں۔ یہ بات میں اس لیے محسوس کررہا تھا کہ سیمینار تو آلودگی کے خاتمے میں مدد دینے کے مقصد کے تحت منعقد کیا جارہا تھا اور باتیں بھی خوب دھواں دار ہورہی تھیں لیکن عملاً تو خود سیمینار بھی آلودگی کا باعث بن رہا تھا۔ چنانچہ جب سیمینار ختم ہوا اور مہمان اسٹیج سے نیچے تشریف لائے تو راقم کا سامنا کینپ کے ایک اہم عہدیدار سے ہوا جو اسلام آباد سے تشریف لائے تھے اور انھوں نے ایٹمی بجلی کی پیدوار سے متعلق اظہار خیال بھی کیا تھا۔

اس موقع پر کلمہ حق کہنے اور اپنی اصلاح کے لیے راقم نے ان معزز مہمان سے سوال کرلیا کہ ہم تو آلودگی کو ختم کرنے، اسے کم کرنے کے لیے یہاں اکٹھے ہوئے ہیں اور آج کے اس سیمینار کا بنیادی مقصد بھی یہی ہے لیکن میں اس فائیو اسٹار ہوٹل کے اس ہال میں دیکھ رہا ہوں کہ کم و بیش چار عدد تو بڑے بڑے فانوس لگے ہوئے ہیں جن میں درجنوں بلب روشن ہیں جوکہ انرجی سیور بھی نہیں ہے پھر دیگر لائٹس بھی ضرورت سے کہیں زیادہ یہاں روشن ہے، کیا آپ کے خیال میں یہ تمام آلودگی میں اضافہ نہیں کررہے ہیں؟ یہ معزز مہمان منہ سے تو کچھ نہ بولے مگر مسکرا کر اقرار کے انداز میں گردن ہلانے لگے، میں نے پھر ان سے سوال کیا کہ کیا یہ اچھا نہ ہوتا کہ آلودگی کے خلاف ہم اپنا سیمینار کسی کھلی سرسبز و شاداب جگہ پر منعقد کرتے تاکہ کم ازکم دوران سیمینار تو ہم خود آلودگی کے اضافے کا باعث نہ بنتے؟

میں نے پھر ایک اور سوال ان سے کر ڈالا کہ میں تو سماجی علوم کا طالب علم ہوں، آپ تو سائنس کی معلومات مجھ سے کہیں زیادہ رکھتے ہیں۔ ذرا یہ فرمائیے کہ ایک ہزار سی سی کی گاڑی فیول زیادہ خرچ کرتی ہے اور آلودگی زیادہ بڑھاتی ہے یا لینڈ کروزر، پجیرو اور دیگر مرسڈیز؟ جب انھوں نے تسلیم کرلیا کہ ایک ہزار سی سی کی گاڑی فیول بھی کم خرچ کرتی ہے اور آلودگی بھی دیگر بیان کردہ گاڑیوں سے کہیں کم آلودگی کا باعث ہوتی ہے تو راقم نے پھر سوال کیا کہ اس سیمینار میں شریک ہم میں سے کتنے مقررین اور حاضرین کسی ہزار سی سی ایف ایکس یا مہران کار میں سوار ہوکر یہاں شرکت کے لیے آئے ہوں گے؟ شاید ایک بھی نہیں؟

یہ معزز مہمان میرے دیگر سوالوں کی طرح اس سوال پر بھی معنی خیز انداز میں مسکرانے لگے۔ میں نے عرض کیا، کیا ہی اچھا ہوتا کہ آج کے سیمینار میں ہم سب اس بات کا عہد کرتے کہ آیندہ سے ہزار سی سی گاڑی سے بڑی میں سفر نہیں کریںگے اور آیندہ اپنا سیمینار کسی ’’ماحول دوست‘‘ جگہ پر منعقد کریںگے کہ جہاں ہزاروں واٹ کے بلب یوں گھنٹوں روشن ہوکر آلودگی میں اضافہ نہ کریں۔

قارئین بات یہ ہے کہ ہم لوگ اپنی انا پرست اور شاہانہ زندگی کو خیر باد نہیں کہنا چاہتے، ہاں خوبصورت گفتگو اور اسٹیج پر دھواں دار تقاریر ضرور کرلیتے ہیں۔ اس سیمینار کا ذکر جو یہاں کیا گیا ہے، اس میں کئی معروف سیاسی و سماجی شخصیات بطور مہمان شریک تھیں۔ جو اپنا سفر بڑی اور ہیوی انرجی خرچ کرنے والی گاڑیوں میں تنہا سفر ہی نہیں کرتے بلکہ ان کے ساتھ حفاظت کے لیے گارڈ بھی دوسری گاڑیوں میں پٹرول پھونک کر اس شہر، ملک اور کائنات کا گلہ گھونٹ رہے ہیں لیکن شاید اس کا احساس نہیں یا احساس کرنا ہی نہیں چاہتے کہ اس کے لیے قربانی دینا پڑتی ہے۔

کیا ہم کسی بڑے نقصان سے قبل غور کریںگے کہ ہمارے سائنسدان آنے والے برے وقت سے کس طرح آگاہ کررہے ہیں؟ ان نقصانات کے بارے میں کیا کہہ رہے ہیں، کہنے والے تو کہہ رہے ہیں کہ پاکستان میں قدرتی آفات کا نوے فیصد سبب ماحولیاتی تبدیلیاں ہیں جو زمین پر حضرت انسان (خاص ترقی یافتہ ممالک) کی جانب سے پیدا کردہ آلودگی کے باعث ہے اور ایک اندازے کے مطابق پاکستان کو اس سے سالانہ 14 بلین امریکی ڈالر کا نقصان پہنچتا ہے۔

جو ہمارے کل جی ڈی پی کا تقریباً پانچ فیصد بنتا ہے۔ سمندر ٹھٹھہ اور بدین کی 35 لاکھ ایکڑ زرعی زمین نگل چکا ہے، ہزاروں گاؤں ویران ہوچکے ہیں، گاؤں والے کراچی کے ریڑھی گوٹھ اور ابراہیم حیدری کے علاقوں میں آباد ہورہے ہیں۔ خود ہماری سینیٹ کی سائنس و ٹیکنالوجی کی قائمہ کمیٹی کے ممبر ڈاکٹر کریم خواجہ کہتے ہیں کہ 2050-60 تک سمندر ٹھٹھہ، بدین اور کراچی کا حشر نشر کرسکتا ہے۔

سوال یہ بھی ہے کہ میں اور آپ کیا کرسکتے ہیں؟ بہت کچھ، جی ہاں! دودھ والے کی دکان کو دیکھیے، سنار کو دیکھیے، شاپنگ سینٹر میں دکانوں کو دیکھیے، ہزاروں واٹ کے بلب ضرورت سے کہیں زیادہ روشن کررکھے ہیں کہ مال چکا چوند نظر آئے اور گاہک متاثر ہوکر زیادہ خریداری کرے۔ غور کیجیے یہ تمام اگر اپنے اپنے روشن کیے گئے بلبوں کی تعداد نصف کردیں تو تب بھی ان کی دکانیں روشن رہیں گے اور مال بھی فروخت ہوگا، لیکن آلودگی بھی نصف ہوجائے گی اور بجلی کی لوڈ شیڈنگ بھی بڑی حد تک کم ہوجائے گی۔

راقم کی سرکاری اداروں میں بیٹھے اہم ذمے داروں اور خاص کر بڑے بڑے رہائشی پروجیکٹ بنانے والوں سے بھی گزارش ہے کہ خدارا اس دھرتی کو نقصان نہ پہنچائیں، اونچی اونچی عمارتوں کے بجائے روشن اور کھلی عمارتیں اور صحن والی رہائش گاہ تیار کریں تاکہ انرجی کا استعمال بھی کم سے کم ہو اور فضا بھی خوشگوار رہے! آئیے غور کریں!

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔