پابندی کے باوجود استعمال شدہ ٹائرز کی درآمد واسمگلنگ عروج پر پہنچ گئی

بزنس رپورٹر  پير 16 مارچ 2015
انڈسٹری کے مطابق ٹائروں کی اسمگلنگ سے پاکستانی معیشت کو ڈیوٹی اور ٹیکسوں کی مد میں سالانہ 15سے 17ارب روپے نقصان کا سامنا ہے۔ فوٹو: فائل

انڈسٹری کے مطابق ٹائروں کی اسمگلنگ سے پاکستانی معیشت کو ڈیوٹی اور ٹیکسوں کی مد میں سالانہ 15سے 17ارب روپے نقصان کا سامنا ہے۔ فوٹو: فائل

کراچی: نئے ٹائروں کے بعد اب پاکستان میں پابندی کے باوجود استعمال شدہ ٹائروں کی درآمد اور اسمگلنگ بھی عروج پر پہنچ چکی ہے۔

مغربی ممالک سے بڑے پیمانے پر موسم سرما کے استعمال شدہ ٹائرز افغانستان کے ذریعے پاکستانی مارکیٹ میں پھیلائے جارہے ہیں جو ملک کی معیشت کے ساتھ صارفین کی سلامتی کے لیے بھی خطرہ بن رہے ہیں۔ ٹائر انڈسٹری کے ذرائع کے مطابق افغان ٹرانزٹ ٹریڈ کی آڑ میں مغربی ممالک بشمول یورپ اور جاپان سے بڑے پیمانے پر موسم سرما کے استعمال شدہ ٹائر پاکستان لائے جارہے ہیں۔ یورپی ممالک اور جاپان میں چھ ماہ کے موسم سرما میں سرد موسم کے لیے بنائے گئے خصوصی ٹائر استعمال کیے جاتے ہیں جو موسم گرما کی آمد کے بعد اتار کر رکھ دیے جاتے ہیں، ان ملکوں میں موسم بدلنے کے ساتھ ہی دو مرتبہ گاڑیوں کی فٹنس چیک کی جاتی ہے جس میں ٹائروں کو خصوصی اہمیت دی جاتی ہے.

موسم سرما میں استعمال کیے گئے ٹائر موسم گرما میں استعمال نہیں ہوسکتے اس لیے زیادہ تر لوگ موسم سرما کے استعمال شدہ ٹائر متروک کرکے کباڑے میں پھینک دیتے ہیں، استعمال شدہ اشیا کی عالمی تجارت کرنے والی کمپنیاں ان ٹائروں کو جمع کرکے تیسری دنیا کے ملکوں کو ایکسپورٹ کردیتی ہیں۔ یورپ کے بہت سے ممالک اپنا کباڑا تیسری دنیا کے ملکوں میں ٹھکانے لگانے والی کمپنیوں کو مالی مراعات بھی فراہم کرتے ہیں۔ موسم سرما کے یہ ٹائرز پاکستان لاکر فروخت کیے جارہے ہیں موسم سرما کے ٹائر پاکستان کی گرمی کا موسم جھیلنے کی صلاحیت نہیں رکھتے اور نتیجے میں گاڑیوں کے حادثات اور بریک فیل ہونے سے قیمتی جانی اور املاک کے نقصان کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

پاکستان میں استعمال شدہ ٹائروں کی درآمد پر پابندی عائد ہے اور صرف توانائی کے حصول کے لیے اسکریپ ٹائر کٹی ہوئی حالت میں درآمد کرنے کی اجازت ہے تاہم افغان ٹرانزٹ کی آڑ میں استعمال شدہ ٹائر کراچی، پنڈی اور لاہور کی مارکیٹ میں پھیلائے جارہے ہیں۔ اکثر دکانوں پر استعمال شدہ ٹائروں کو نئی شکل دے کر نئے ٹائر کے نام پر فروخت کیا جاتا ہے۔ اسمگل ہونے کی وجہ سے ان ٹائروں پر دکانداروں کو زیادہ مارجن اور ادھار کی سہولت بھی فراہم کی جاتی ہے جس کے لالچ میں دکاندار گاہکوں کو حقیقت بیان کرنے کے بجائے استعمال شدہ ٹائر فروخت کرنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ پاکستان میں استعمال شدہ ٹائر کوئٹہ چمن اور پشاور میں لنڈی کوتل کے راستے درآمد کیے جاتے ہیں۔ نئے اسمگل ٹائر فروخت کرنے والے ڈیلرز ہی استعمال شدہ موسم سرما کے ٹائر پاکستان میں پھیلانے کا کاروبار کررہے ہیں۔

انڈسٹری کے ماہرین کا کہنا ہے کہ مغربی ملکوں میں موسم سرما میں استعمال ہونے والے ٹائرز پاکستانی سخت موسم میں اپنی پکڑ کھودیتے ہیں جس سے حادثات کا خطرہ بنا رہتا ہے۔ مغربی ملکوں میں سرد موسم کے لیے بنائے گئے ٹائرز 9ڈگری سینٹی گریڈ سے زائد درجہ حرارت کے لیے موزوں نہیں ہیں لیکن پاکستان میں تپتی ہوئی گرمی میں یہ ٹائرز نہ صرف گاڑیاں چلانے والوں بلکہ سڑک پر چلنے والے پیدل راہگیروں اور دوسری گاڑیوں کے لیے بھی خطرہ بنے ہوئے ہیں۔ انڈسٹری کے مطابق ٹائروں کی اسمگلنگ سے پاکستانی معیشت کو ڈیوٹی اور ٹیکسوں کی مد میں سالانہ 15سے 17ارب روپے نقصان کا سامنا ہے اور اب موسم سرما کے ٹائرز عوام کی سلامتی کے لیے خطرہ بن گئے ہیں۔

 

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔