فیشن انڈسٹری نے ماڈل آیان کے معاملے پر چپ سادھ لی

نمرہ ملک  پير 16 مارچ 2015
ماڈل ایان علی نے تحقیقاتی ادارے کے افسر کو بتایا کہ انھیں یہ رقم رحمن ملک کے بھائی خالد ملک نے دی تھی، ذرائع۔ فوٹو: آئی این پی/فائل

ماڈل ایان علی نے تحقیقاتی ادارے کے افسر کو بتایا کہ انھیں یہ رقم رحمن ملک کے بھائی خالد ملک نے دی تھی، ذرائع۔ فوٹو: آئی این پی/فائل

کراچی: بینظیر انٹرنیشنل ایئر پورٹ راولپنڈی پرہفتے کو دبئی جاتے ہوئے 5 لاکھ امریکی ڈالرلے جانے کے جرم میں حراست میں لی گئی معروف ماڈل آیان علی کے معاملے پرفیشن انڈسٹری نے چپ سادھ رکھی ہے۔

فیشن انڈسٹری کے حلقوں کا کہنا ہے کہ ابھی صرف الزام ہے لیکن اس کے پیچھے کا معمہ کیا ہے یہ وقت آنے پرہی پتہ لگے گا۔ قبل از وقت کچھ کہنا مناسب نہ ہوگا۔واضح رہے کہ اس سے قبل معروف پاکستان موسیقار راحت فتح علی خان کے ساتھ بھی بھارت میں منی لاڈرنگ کا واقعہ پیش آچکاہے جس کے بعدان کابھارت میں کام کرناممنوع قراردے دیاگیاتھا۔ ماڈل آیان علی فیشن کی دنیا میں آنے والے ان خوش نصیبوں میں سے ایک ہیں جو اس دنیا میں قدم رکھنے میں کامیاب ہو پاتے ہیں2010 میں آیان علی نے16 سال کی عمر میں ماڈلنگ کیریئرکا آغاز کیا،اور جلد ہی ہر فیشن ڈیزائنراور ملکی و بین الاقوامی برانڈ کی اولین ترجیح بن گئی، وہ مختلف برانڈ کی سفیر بھی بنیں۔

ماڈلنگ اور گلوکاری میں کود کو منوانے کی کوششیں کرنے والی آیا ن علی اس وقت سلاخوں کے پیچھے ہے لیکن آیان کے مداحوں کا کہنا ہے کہ آیان کو پھنسایا جارہا ہے اور جو بھی ہو ہم پہلے بھی آیان کے ساتھ تھے اور آج بھی ہیں۔علاوہ ازیں آن لائن کے مطابق ماڈل آیان علی کی5 لاکھ 6 ہزار 800 امریکی ڈالر دبئی لیجانے کی کوشش پر گرفتاری اور منی لانڈرنگ کا مقدمہ درج ہونے کے بعد سابق وزیرداخلہ رحمن ملک کے بھائی خالد ملک کیخلاف بھی تحقیقات کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔

ذرائع نے بتایا کہ ماڈل ایان علی نے تحقیقاتی ادارے کے افسر کو بتایا کہ انھیں یہ رقم رحمن ملک کے بھائی خالد ملک نے دی تھی۔ ذرائع کے مطابق ایان علی نے خالد ملک کے ساتھ دوستی کا بھی اعتراف کرلیا ہے۔عدالت نے ماڈل کو28 مارچ تک جوڈیشل ریمانڈ پر اڈیالہ جیل بھجوایا تھا اور اس کی ضمانت کی درخواست پر آج پیر کو کسٹم حکام سے جواب اور مقدمے کی تفصیل طلب کرلی ہے۔ دریں اثنا راولپنڈی سے نمائندہ ایکسپریس کے مطابق آیان علی نے ضمانت کیلیے سپیشل جج سے رجوع کرلیا۔

 

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔