ہم اتنے بھی برے نہیں

سالار سلیمان  پير 16 مارچ 2015
 بلا جواز تنقید کی بجائے نتقید برائے تعمیر کے رحجان کو معاشرے میں متعارف کروائیں۔ فوٹو فائل

بلا جواز تنقید کی بجائے نتقید برائے تعمیر کے رحجان کو معاشرے میں متعارف کروائیں۔ فوٹو فائل

اعجاز مہاروی میرے عزیز دوست ہیں، اعلیٰ ترین عہدوں پر ’بس‘ کے بعد اب وہ ایک قومی اخبار سے منسلک ہیں۔ گزشتہ دنوں اُن کے ساتھ کھانے کی میز پرپاکستان میں امن و امان کی صورتحال پر بات چیت ہوئی۔ میں نے اپنی معصومیت میں ان کے پوچھ لیا کہ ہر چوراہے ہر گلی میں چور ڈاکو موجود ہیں لیکن پولیس کا کہیں نام و نشان نہیں۔ آخر یہ مسئلہ کیا ہے اور اس کو حل کیسے کیا جاسکتا ہے؟

مہاروی صاحب نے سامنے پڑا ہوا چائے کا کپ اٹھایا، چسکی لی، اپنی میز پر سے سگریٹ کے پیکٹ سے سگریٹ نکال کر سلگایا اور فضا میں دھوئیں کے مرغولے بنا کر سنجیدہ لہجے میں کہنے لگے، منطقی بات کریں یا بحث؟ میں نے عرض کی کہ حضور منطقی بات کرلیں۔ مسکرا کر کہنے لگے کہ ہمارا سسٹم خراب ہے اور ہم یہ سسٹم ٹھیک نہیں کرنا چاہتے ہیں۔ یہ سسٹم مجھے، تمہیں چاہے سوٹ کرے نہ کرے، لیکن یہ سسٹم ہماری اشرافیہ کو بہت سوٹ کرتا ہے اور ہماری اشرافیہ وہ اشرافیہ ہے جس کو ارمانی کے سوٹ کی قیمت معلوم ہوگی لیکن محلے کے دکان میں موجود ایک کلو چینی کی قیمت معلوم نہیں ہوگی۔

میں نے روایتی انداز میں کہا کہ پولیس کو ہم کبھی ٹھیک نہیں کرسکتے۔ جواب میں انہوں نے کہا کہ ہماری پولیس کئی دہائیوں سے سیاسی ہے، ہر حلقے میں ایم این اے یا ایم پی اے کی پسند کا ایس ایچ او تعینات کیا جاتا ہے اور پھر ایس ایچ او سمیت سارے تھانے کی پولیس اُس کی جیب میں ہوتی ہے۔ اگر ایس ایچ او علاقے کا بادشاہ مان لیا جائے تو پھر اُس سیاسی نمائندے کو علاقے کا شہنشاہ مان لینا بہتر ہوگا۔ دنیا میں جہاں پر لاء اینڈ آرڈر کی صورتحال اچھی ہے وہاں پر پولیس غیر سیاسی ہے اور اس کو یہ اختیارات حاصل ہوتے ہیں کہ وہ صدر اور وزیراعظم تک کے خلاف کارروائی کرسکیں، لیکن یہاں تو ایم این اے کے سالے کے پی اے سے بھی تفتیش کرنا ہو تو ایک غیر قانونی رائج سسٹم سے گزرنا پڑتاہے اور اگر سیاسی پہلوان چاہیں گے تو ہی تفتیش آگے بڑھے گی وگرنہ نہیں۔

مہاروی صاحب نے کرسی پر پہلو بدلا، سگریٹ کی راکھ کو ایش ٹرے میں جھاڑا اور بولے کہ ہمارے ملک میں ریسرچ کا فقدان ہے۔ پاکستان پھر بھی شاید بہت سے ممالک سے بہتر ہے۔ بس سسٹم کو تھوڑا سا ٹھیک کرنے کی ضرورت ہے۔ حکومت اِس ضمن میں لگی ہوئی ہے اور شاید کامیاب ہو بھی جائے لیکن اُس کیلئے اشرافیہ کو حقائق سمجھ کر اُن سے سمجھوتا کرنا ہوگا، ورنہ شہباز شریف صحیح کہتے ہیں کہ خونی انقاب بھی آسکتا ہے ۔انہوں نے بتایا کہ ایک ریسرچ کے مطابق شمالی کوریا اور جنوبی امریکہ میں قتل کی شرح سب سے زیادہ ہے یعنی ایک لاکھ کی آبادی کے لحاظ سے 94.4 فیصد، افریقہ میں 12.5 فیصد جبکہ یورپ میں 3 فیصد۔ ایشیاء میں یہ شرح 2.6 فیصد ہے یعنی دیگر برِاعظموں کے کل مجموعوں سے بہت کم ہے۔

انہوں نے بتایا کہ امریکہ میں پولیس 7 لاکھ 8 ہزار 569 کی تعداد میں موجود ہے یعنی ایک لاکھ کی آبادی کیلئے کل 233 پولیس اہلکار ہیں۔ اس کے باوجود صرف 2012ء میں کل 14827 افراد قتل ہوئے اور یہ شرح 4.7 فیصد بنتی ہے۔ مصر میں کل 12 لاکھ 40 ہزار پولیس اہلکار ہیں۔ ایک لاکھ کی آبادی کے تناسب سے یہ تعداد 1493 بنتی ہے جبکہ 2011ء میں وہاں پر 2703 قتل ہوئے جس کی شرح 3.4 فیصد ہے۔ اسی طرح سے روس میں پولیس 1ل اکھ 550 ہے اور وہاں پر 2013ء میں 13120 لوگوں کو قتل کیا گیا جس سے کہ اس کی شرح 9.2 فیصد ہے ۔ ترکی میں ایک لاکھ 484 افراد قتل ہوئے ہیں جس کی شرح 2.6 ہے۔ میکسیکو میں ایک سال میں 26 ہزار ایک سو 37 افراد قتل ہوئے ہیں یعنی وہاں پر یہ شرح 21.5 فیصد ہے۔ ہمسایہ ملک بھارت میں 15 لاکھ 85 ہزار پولیس اہلکار ہیں جب کہ وہاں پر قتل کی شرح 8فیصد ہے ۔

انہوں نے سگریٹ کو ایش ٹرے میں بجھایا، چائے کی پیالی ختم کی، اپنی عینک کو درست کرتے ہوئے مجھے دیکھا اور کہا کہ اب آپ پاکستان کو دیکھیں۔ نومبر 2013ء تک قانون نافذ کرنے والے اداروں پر 233 ارب روپے خرچ ہوچکے تھے۔ 384 شہریوں پر ایک پولیس والا تعینات ہے۔ پاکستان میں کل لاکھ 95 ہزار 6 سو 99  پولیس اہلکار ہیں۔ پنجاب میں 1,80,000، سندھ میں 1,05,234 ہزار، کے پی کے میں 65,000، بلوچستان میں 36,000 اور فیڈرل پولیس 1,09,465 ہے۔ اس لحاظ ایک پولیس اہلکار کتنے شہریوں پر تعینات ہے اس کا آپ خود اندازہ لگا سکتے ہیں۔ اب اگر اس پولیس کو مزید تقسیم کریں اور وی آئی پی سکیورٹی اور انویسٹی گیشن کے اہلکاروں کو نکال دیں تو کیا بچے گا؟

پاکستان میں ایک لاکھ کی آبادی پر قتل کی شرح 7.6 فیصد ہے۔ آپ دوسرے الفاظ میں یہ کہہ سکتے ہیں کہ پاکستان کا فرسودہ سسٹم بہت سے ممالک کے فرسودہ سسٹم سے بہتر ہے۔ میں یہ نہیں کہہ رہا ہوں کہ پاکستان کے سسٹم میں ’سب اچھا‘ ہے۔ یقیناً اس میں بہتری آنی چاہئے لیکن میں یہ کہ رہا ہوں کہ بلا جواز تنقید کے بجائے تنقید برائے تعمیر کے رحجان کو معاشرے میں متعارف کروائیں۔ اس ضمن میں حکومت کو بھی انا کے مسائل سے جان چھڑوانی چاہئے ۔

ساتھ ہی پولیس کا بھی غیر سیاسی ہونا بہت ضروری ہے، سسٹم کی خرابی کی ایک بہت بڑی وجہ بھی شاید یہی ہے کہ آج پولیس میں سیاسی اثرو رسوخ چلتا ہے۔ ہمیں اور میڈیا کو وہ پولیس نظر آتی ہے جو رشوت لیتی ہے، تھانے میں ظلم کرتی ہے، مجرموں کا ساتھ دیتی ہے اور سسٹم کو سپورٹ کرتی ہے۔ ہمیں وہ پولیس کیوں نظر نہیں آتی جو کہ اپنے فرض کیلئے اپنی جان بھی قربان کر دیتی ہے؟ جس کیلئے وزیراعلیٰ سے لیکر وزیر اعظم تک کے پاس دو بول کا وقت نہیں؟ جس کے سپاہی سے لیکر افسر تک کی ایک گمنام قبر بنتی ہے اور اس کے لواحقین کو امداد کے نام پر چند لاکھ روپے دے کر ٹال دیا جاتا ہے؟ مانتا ہوں کہ یہ آٹے میں نمک کے برابر ہے لیکن ہے تو سہی۔ ان کو ہیرو کیوں نہیں بنایا جاتا؟ اِن پر کوئی پروگرام کیوں نہیں ہوتا؟ ان پر کیوں نہیں آرٹیکل چھپتے؟

اشرافیہ کو بھی چاہئے کہ اپنی سکیورٹی کا انتظام خود کرے، اس طرح معاشرے میں روزگار جنم لے گا، ہنر بھی پیدا ہوگا اور پولیس بھی اپنے وہ کام کرسکے گی جس کیلئے اس فورس کی تشکیل ہوئی ہے۔ اب یہ ہم پر ہے کہ آنے والے سالوں میں ہم اِس شرح کو 12 فیصد کرتے ہیں یا 2 فیصد۔ معاشرے میں مثبت پہلو کو پروان چڑھا کر ترقی کرتے ہیں یا پھر اِس گلستان کو جہنم بنانا ہے۔ ابھی بھی وقت ہمارے پاس ہے اور فیصلہ بھی ہمیں ہی کرنا ہے ۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز  اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر،   مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف  کے ساتھ  [email protected]  پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جاسکتے ہیں۔

سالار سلیمان

سالار سلیمان

بلاگر ایک صحافی اور کالم نگار ہیں۔ آپ سے ٹویٹر آئی ڈی پر @salaarsuleyman پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔