اشتعال نہیں، تدبر کی ضرورت

ایڈیٹوریل  منگل 17 مارچ 2015
یہ صورتحال بھی منظرعام پر آئی ہے کہ حکومت نے مظاہروں کو کنٹرول کرنے کے لیے کبھی کوئی ٹھوس پالیسی نہیں اپنائی۔ فوٹو:فائل

یہ صورتحال بھی منظرعام پر آئی ہے کہ حکومت نے مظاہروں کو کنٹرول کرنے کے لیے کبھی کوئی ٹھوس پالیسی نہیں اپنائی۔ فوٹو:فائل

اتوار کو لاہور کے علاقے یوحنا آباد میں دو گرجاگھروں پر خودکش حملوں کے بعد ملک بھر میں مسیحی برادری کے مظاہروں اور احتجاج کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ اس سانحے پر پنجاب اور سندھ کی حکومتوں نے پیر کو سوگ منایا۔ وزیراعظم میاں محمد نواز شریف نے ایک بیان میں خودکش دھماکوں کی شدید مذمت کرتے ہوئے مسیحی برادری کو یقین دلایا کہ حکومت اس افسوسناک واقعے کو ریاست پاکستان پر حملہ سمجھتی ہے، یوحنا آباد کے واقعے کے بعد مسیحی برادری نے جس غم وغصے کا اظہار کیا ہے اس سے دہشت گردی کی لعنت سے نمٹنے کا حکومتی عزم مضبوط ہوا ہے۔

سوگوار مسیحی برادری کے نام اپنے پیغام میں وزیراعظم نے کہا کہ حکومت مسیحی برادری کے سوالات کا جواب ان کے ساتھ مل کر ڈھونڈے گی، مسیحی برادری نے بالخصوص سماجی شعبے میں مادرِ وطن کے لیے گراں قدر خدمات انجام دی ہیں، ہم انھیں اپنا وقار اور افتخار سمجھتے ہیں، حکومت ملک سے دہشت گردی اور انتہاپسندی کا خاتمہ کرے گی۔ وزیراعظم نے تمام صوبائی حکومتوں کو ہدایت کی کہ وہ سیکیورٹی انتظامات میں اضافہ کریں اور عوام کی جان و مال کا تحفظ یقینی بنانے کے لیے ہرممکن اقدامات کیے جائیں۔

یوحنا آباد میں دو گرجاگھروں پر حملوں میں تین پولیس اہلکاروں سمیت 16 افراد ہلاک اور 85 زخمی ہو گئے تھے۔ اس حملے کی ذمے داری کالعدم تحریک طالبان جماعت الاحرار نے قبول کر لی ہے، 22 ستمبر 2013ء کو پشاور میں چرچ پر ہونے والے حملے کی ذمے داری بھی تحریک طالبان نے قبول کی تھی۔ مبصرین کے مطابق اقلیتی برادری کی عبادت گاہوں پر حملوں کا مقصد ملک میں افراتفری اور انتشار پیدا کرنا ہے۔ پاکستان سمیت دنیا بھر کے رہنماؤں نے ان حملوں کی مذمت کی ہے۔

کیتھولک مسیحیوں کے روحانی پیشوا پوپ فرانسس نے بھی ان حملوں کی مذمت کرتے ہوئے دعا کی ہے کہ پاکستان میں امن و استحکام قائم ہو۔ ان حملوں کے بعد مسیحی برادری کے افراد سڑکوں پر نکل آئے اور مظاہرے شروع کر دیے اس دوران انھوں نے توڑ پھوڑ بھی کی۔ اس سانحے پر پورا ملک غمگین ہے اور حملے کی مذمت کر رہا ہے۔

پرامن احتجاج کرنا مسیحی برادری کا حق ہے لیکن اگر وہ طیش میں آ کر توڑپھوڑ کرتے ہیں، قومی اور عوامی املاک کو نقصان پہنچاتے ہیں تو اس سے ان کی حمایت میں ابھرنے والی عوامی ہمدردیاں پس منظر میں چلی جائیں گی۔ پولیس نے اس صورتحال میں خاموش تماشائی کا کردار ادا کیا اور مظاہرین کے خلاف کسی قسم کا کوئی ایکشن نہیں لیا جس سے مظاہرین توڑپھوڑ کا عمل کرتے رہے اور انھیں روکنے والا کوئی نہیں تھا،اس صورتحال کو دیکھتے ہوئے رینجرز کو طلب کر لیا گیا۔

اس بگڑتی ہوئی صورتحال میں وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی نے بھی اسی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ جو مظاہرین توڑپھوڑ کر رہے ہیں وہ دہشت گردوں کا ایجنڈا آگے بڑھا رہے ہیں۔ مسیحی رہنماؤں کو بھی آگے بڑھ کر مشتعل مظاہرین کو سمجھانا اور کنٹرول کرنا چاہیے ورنہ ان کی حمایت میں جو عوامی لہر اٹھی ہے وہ توڑپھوڑ کے اس عمل کو دیکھتے ہوئے دم توڑ دے گی۔ حکومت کو بھی مسیحی رہنماؤں کی مدد سے مظاہرین کو کنٹرول کرنے کی کوشش کرنی چاہیے اور ان سطور کے لکھے جانے تک یہ اطلاع ہے کہ حکومت اور مسیحی نمایندوں کے درمیان پرامن رہنے کے لیے مذاکرات کامیاب ہو گئے ہیں۔

مشاہدے میں آیا ہے کہ جب بھی کوئی سانحہ رونما ہوتا ہے تو حکومتی رہنما مذمتی بیان جاری اور حملہ آوروں کے خلاف کارروائی کی یقین دہانی کرا کے مشتعل مظاہرین کو وقتی طور پر منتشر تو کر دیتے ہیں مگر جب معاملات ٹھنڈے پڑتے ہیں تو وہ بھی اپنے وعدے بھول جاتے ہیں۔ ان کے اس تجاہلانہ طرزعمل سے عوام میں اشتعال پیدا ہوتا ہے اور جب بھی کوئی دوسرا سانحہ رونما ہوتا ہے تو عوامی اشتعال پہلے سے بھی زیادہ شدت سے ابھر کر سامنے آتا ہے اور عوام حکومتی رہنماؤں کے وعدوں پر یقین کرنے پر تیار نہیں ہوتے۔ حکومتی رہنماؤں کو بھی اپنے اس رویے پر نظرثانی کرنی چاہیے۔

یہ صورتحال بھی منظرعام پر آئی ہے کہ حکومت نے مظاہروں کو کنٹرول کرنے کے لیے کبھی کوئی ٹھوس پالیسی نہیں اپنائی گئی۔ پولیس اہلکار اور افسران گومگو کی کیفیت کا شکار رہتے ہیں کہ اگر وہ طاقت کے زور پر مظاہرین کو روکیں یا نہ روکیں تو ہر دو صورت میں معطلی کا خطرہ رہتا ہے۔ حکومت کو اس حوالے سے واضح پالیسی اپنانا ہو گی تاکہ پولیس اور انتظامیہ مظاہرین کو کنٹرول کر سکے۔ مبصرین کے مطابق کسی سازش کے تحت پاکستان میں امن و امان کی صورت حال خراب کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ پاکستان میں رہنے والی اقلیتوں کو ایک مخصوص ایجنڈے کے تحت نشانہ بنایا جا رہا ہے اور عوامی سطح پر ان کے خلاف کسی قسم کی نفرت موجود نہیں۔

یہ اقلیتیں بھی ہمیشہ پرامن رہیں اور ملکی ترقی میں اپنا کردار بخوبی ادا کیا اور کر رہی ہیں، ملکی تعمیر و ترقی میں ان کے کردار سے کسی کو انکار نہیں مگر اب گزشتہ چند برسوں سے ان اقلیتوں پر حملے کر کے انھیں ابھارا اور مشتعل کیا جا رہا ہے۔ اقلیتی برادری کے رہنماؤں کو بھی اس سازش کا ادراک کرنا چاہیے اور اگر خدانخواستہ دہشت گردی کا کوئی واقعہ رونما ہو جاتا ہے تو ایسی صورت میں مشتعل ہو کر توڑپھوڑ کرنے کے بجائے پرامن رہ کر اپنا احتجاج کرنا چاہیے کیونکہ اشتعال سے نہیں، تدبر سے دہشتگردوں اور ان کے سرپرستوں کے عزائم کو ناکام بنایا جا سکتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔