شعوری ارتقا اور انسانی حقوق کی جدوجہد

ڈاکٹر فوزیہ صدیقی  منگل 17 مارچ 2015

انسانی تہذیب نے جیسے جیسے شعورکی منزلیں طے کیں، زندگی کے ہر شعبے میں اصول وقوانین وضع کیے گئے۔ معاملات زندگی کے لیے کچھ طے شدہ اصولوں پر عملدرآمد کیا گیا۔ کہیں یہ اصول انسانوں نے عقلی دلیل کی بنیاد پر خود وضع کیے اور عمرانی اصول کہلائے اور کہیں یہ اصول آسمانی صحیفوں کی بنیاد پر طے کیے گئے۔

مہذب معاشرہ خواہ وہ خودساختہ عمرانی اصولوں کی بنیاد پر قائم ہو یا مقدس تعلیمات سے اخذکردہ معاشرتی اصول و قوانین کی بنیاد پر قائم ہو، ہر دو صورتوں میں بنیادی انسانی حقوق کو اولین اہمیت دی گئی ہے۔ گو قدیم مصری، یونانی، عربی اور ہندی تمدن نے انسانی حقوق کے معاملے میں بہت وسعت قلبی کا مظاہرہ نہیں کیا لیکن جدید تہذیب نے انسانوں کے بنیادی حقوق کے تحفظ کو جدید ریاست کی بنیادی ذمے داری قرار دیا ہے۔

جدید تہذیب کے شعوری ارتقاء کا یہ سفر تقریباً 800 سال پر محیط ہے۔ 1615 میں انگلستان میں مشہورِ زمانہ میگنا کارٹا کے ضبط تحریر میں لائے جانے کے بعد سے کہ جس میں جرم کی شفاف تحقیق اور صفائی پیش کرنے کے حق کو تسلیم کیا گیا، یہ ارتقائی سفر آگے بڑھتا ہے۔ 1628 میں انگلش پارلیمنٹ میں حقوق کا مسودہ پیش کیا گیا، جس میں ملزم کو حبسِ بے جا کے خلاف دادرسی جیسے قوانین وضع کیے گئے۔

امریکا کی تاج برطانیہ سے آزادی کے بعد 1787 میںامریکی آئین اور 1791 میں انسانی حقوق کا بل ایک اہم دستاویز ثابت ہوا۔ اسی طرح انقلابِ فرانس کے بعد 1789 میں ’’اعلامیہ برائے حقوقِ آدمی اور شہری حقوق‘‘ ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔ بالآخر آج اقوامِ عالم ایک طویل سفر طے کرنے کے بعد انسانی حقوق کے ایک جامع مسودے ’’عالمی منشور برائے حقوق انسانی‘‘ پر متفق ہیں جسے دسمبر 1948 میں منظور کیا گیا۔

اسی منشور کے سائے تلے آج دنیا بھر میں قائم ’’مہذب‘‘ معاشرہ ہونے کی دعویدار تمام ریاستیں، اپنے آئین میں انسان کے بنیادی حقوق کی بات کرتی ہیں۔ لیکن کیا اس حقیقت سے انکار ممکن ہے کہ دنیا بھر کے ’’مہذب‘‘ معاشروں میں عملی طور پر انسانی حقوق کی پاسداری نہیں کی جاتی ہے یا باالفاظ دیگر ان کے دہرے معیارات ہیں۔ ستم ظریفی دیکھیے کہ ان مہذب اقوام کے ہاتھوں امن ہو یا جنگ ہر جگہ انسان کے بنیادی حقوق پامال ہوتے نظر آتے ہیں۔

مغرب کا سرمایہ دارانہ نظام ہو یا مشرق کا کمیونسٹ معاشرہ یا ترقی پذیر ممالک کے مخلوط نظام، ہر جگہ عام انسان کے حقوق داؤ پر لگے ہوئے ہیں۔ کیونکہ اقوامِ عالم کے یہ منشور اپنے اندر بظاہر تمام تر باریک بینی کے باوجود کوئی قوت نافذہ نہیں رکھتے۔ اس کے برعکس اسلام نے جو انسانی حقوق کا چارٹر 14 سو پہلے پیش کیا اس کو اخلاقیات اور تعزیرات دونوں کے ذریعے عملی قوت فراہم کی۔

یقیناً یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ وہ اقوام عالم جو آج ترقی یافتہ اور مہذب کہلاتی ہیں اور ’’عالمی منشور برائے حقوق انسانی‘‘ کی علمبردار ہیں ان کی تاریخ معصوم انسانوں کے خون سے رنگین ہے۔ جس کا مشاہدہ کرکے انسانی حقوق تو کیا انسانیت بھی سوالیہ نشان بن جاتی ہے۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ آج کے ترقی یافتہ ممالک اقوام متحدہ کے منشور کو صرف ایک معیار سمجھتے ہیں اور عملی طور پر اس کا نفاذ نہیں کرتے ہیں۔

بہرحال ان تمام معاشروں میں ہمیشہ ایسے اہل فکر و دانش موجود رہے ہیں جنھوں نے رنگ و نسل سے بالاتر ہو کر ہمیشہ ظلم کے خلاف آواز بلند کی اور انسانوں کو ان کے بنیادی حقوق فراہم کرنے کی جدوجہد پر زور دیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج انسانی شعور ارتقاء کے عمل سے گزر کر اس نتیجے پر پہنچ چکا ہے کہ انسانی معاشرہ اگر انسانوں کے بنیادی حقوق کا تحفظ نہیں کرسکتا تو پھر حضرت انسان کے لیے اس دنیا میں امن و آشتی کے ساتھ رہنا ممکن نہیں ہے۔

جنگ عظیم اول، دوم میں جس وسیع پیمانے پر انسانی حقوق کی پامالی ہوئی اس پر ہزاروں ناول اور افسانے لکھے جاچکے ہیں اور سیکڑوں فلمیں پردہ سیمیں پر جلوہ گر ہوچکی ہیں کہ بربریت کی بدترین مثالیں قائم کرنے والے اس وقت کے مہذب ترین لوگ تھے۔ لیکن اگر ان اقوام نے جنگوں سے سبق حاصل کرلیا ہوتا تو شاید دنیا امن کا گہوارا بن چکی ہوتی۔

ویتنام، بوسنیا، چیچنیا، افغانستان، عراق، کشمیر، شام و فلسطین کی سرزمین پر جو خون ہولی کھیلی گئی اس نے ثابت کیا کہ انسانی حقوق کے تحفظ کا دعویٰ صرف کتابوں، سیمیناروں، تقاریر اور اعلامیوں تک محدود ہے۔ اور دنیا بین الاقوامی سرمایہ داروں، اسلحہ ساز اداروں اور کثیرالاقوامی کمپنیوں کے ہاتھوں میں گروی رکھی ہوئی ہے جس کے نتیجے میں آج بھی لا کھوں افراد کی زندگیاں خطرے میں ہیں اور دنیا ایک طویل اور وسیع جنگ کی طرف بڑھتی جارہی ہے۔

یہ استحصالی قوتیں ہر آنے والے وقت میں ایک نیابت تراشتی ہیں تاکہ دنیا کو ایک نئی کشمکش درپیش ہو اور ظلم کے ایک نئے دور کا آغاز ہو۔ درحقیقت ظلم اور ناانصافی اس چین ری ایکشن ((Chain Reaction کی مانند ہوتے ہیں جس کے نتیجے میں تباہی کے اثرات ضرب ہوتے چلے جاتے ہیں۔

جب کہ انصاف کی فراہمی اور انسانی حقوق کے تحفظ کی جدوجہد کی مثال اس بھاری پانی ((Heavy Water کی طرح ہے جو تباہی کے اس عمل کو روکتے اور سست کردیتے ہیں۔ اب جس معاشرے میں ظلم زیادہ اور حقوق کا تحفظ کم ہوگا یقیناً اس معاشرے میں ہر طرف تباہی پھیلے گی۔ اور وہ لوگ بھی جو بظاہر ظلم کے حامی نہیں ہیں وہ بھی ظلم اور ناانصافی کی چکی میں پس جائیں گے۔

لیکن کیا حقوق کے تحفظ کی یہ جنگ صرف کسی ایک مخصوص طبقے کی ذمے داری ہے۔ آج ہر طرف سیاسی بنیاد پر حقوق کی بات کی جاتی ہے۔ سیاسی جماعتیں، مزدوروں، کسانوں، تاجروں، طلبا، نوجوانوں اور خواتین کی حقوق کی بات کرتی ہے۔ معاشرے کا ایک کثیر حصہ یہ سمجھتا ہے کہ یہ انسانی حقوق کی جدوجہد شاید سیاسی جماعت کے پلیٹ فارم ہی سے ممکن ہے۔

یا شاید یہ سیاسی جماعت کی ذمے داری ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ انسانوں کے بنیادی حقوق کے لیے آواز بلند کرنا ہر شہری کی ذمے داری ہے اور اس کے لیے کسی سیاسی پلیٹ فارم کا ہونا لازمی نہیں ہے۔ جس طرح سانس لینا ضروری ہے اسی طرح ایک شہری کے بنیادی حقوق کے لیے آواز بلند کرنا ضروری ہے، خواہ وہ کسی طبقے سے تعلق رکھتا ہو۔

جب تک معاشرے میں انسانی حقوق کے تحفظ کی جنگ جاری رہے گی، معاشرہ زندگی سے بھرپور نظر آئے گا اور زندہ لوگوں کا معاشرہ کہلائے گا اور جب یہ جدوجہد معدوم ہوجائے گی تو معاشرہ بھی ایک قبرستان کی مانند مردہ لوگوں کا معاشرہ کہلائے گا۔ بلاشبہ معاشرے میں انسانی حقوق کے تحفظ کی جدوجہد ہی بقا اور سلامتی کی ضامن ہے۔

انسانی تہذیب نے جیسے جیسے شعورکی منزلیں طے کیں، زندگی کے ہر شعبے میں اصول وقوانین وضع کیے گئے۔ معاملات زندگی کے لیے کچھ طے شدہ اصولوں پر عملدرآمد کیا گیا۔ کہیں یہ اصول انسانوں نے عقلی دلیل کی بنیاد پر خود وضع کیے اور عمرانی اصول کہلائے اور کہیں یہ اصول آسمانی صحیفوں کی بنیاد پر طے کیے گئے۔

مہذب معاشرہ خواہ وہ خودساختہ عمرانی اصولوں کی بنیاد پر قائم ہو یا مقدس تعلیمات سے اخذکردہ معاشرتی اصول و قوانین کی بنیاد پر قائم ہو، ہر دو صورتوں میں بنیادی انسانی حقوق کو اولین اہمیت دی گئی ہے۔ گو قدیم مصری، یونانی، عربی اور ہندی تمدن نے انسانی حقوق کے معاملے میں بہت وسعت قلبی کا مظاہرہ نہیں کیا لیکن جدید تہذیب نے انسانوں کے بنیادی حقوق کے تحفظ کو جدید ریاست کی بنیادی ذمے داری قرار دیا ہے۔

جدید تہذیب کے شعوری ارتقاء کا یہ سفر تقریباً 800 سال پر محیط ہے۔ 1615 میں انگلستان میں مشہورِ زمانہ میگنا کارٹا کے ضبط تحریر میں لائے جانے کے بعد سے کہ جس میں جرم کی شفاف تحقیق اور صفائی پیش کرنے کے حق کو تسلیم کیا گیا، یہ ارتقائی سفر آگے بڑھتا ہے۔ 1628 میں انگلش پارلیمنٹ میں حقوق کا مسودہ پیش کیا گیا، جس میں ملزم کو حبسِ بے جا کے خلاف دادرسی جیسے قوانین وضع کیے گئے۔

امریکا کی تاج برطانیہ سے آزادی کے بعد 1787 میں امریکی آئین اور 1791 میں انسانی حقوق کا بل ایک اہم دستاویز ثابت ہوا۔ اسی طرح انقلابِ فرانس کے بعد 1789 میں ’’اعلامیہ برائے حقوقِ آدمی اور شہری حقوق‘‘ ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔

بالآخر آج اقوامِ عالم ایک طویل سفر طے کرنے کے بعد انسانی حقوق کے ایک جامع مسودے ’’عالمی منشور برائے حقوق انسانی‘‘ پر متفق ہیں جسے دسمبر 1948 میں منظور کیا گیا۔ اسی منشور کے سائے تلے آج دنیا بھر میں قائم ’’مہذب‘‘ معاشرہ ہونے کی دعویدار تمام ریاستیں، اپنے آئین میں انسان کے بنیادی حقوق کی بات کرتی ہیں۔

لیکن کیا اس حقیقت سے انکار ممکن ہے کہ دنیا بھر کے ’’مہذب‘‘ معاشروں میں عملی طور پر انسانی حقوق کی پاسداری نہیں کی جاتی ہے یا باالفاظ دیگر ان کے دہرے معیارات ہیں۔ ستم ظریفی دیکھیے کہ ان مہذب اقوام کے ہاتھوں امن ہو یا جنگ ہر جگہ انسان کے بنیادی حقوق پامال ہوتے نظر آتے ہیں۔

مغرب کا سرمایہ دارانہ نظام ہو یا مشرق کا کمیونسٹ معاشرہ یا ترقی پذیر ممالک کے مخلوط نظام، ہر جگہ عام انسان کے حقوق داؤ پر لگے ہوئے ہیں۔ کیونکہ اقوامِ عالم کے یہ منشور اپنے اندر بظاہر تمام تر باریک بینی کے باوجود کوئی قوت نافذہ نہیں رکھتے۔ اس کے برعکس اسلام نے جو انسانی حقوق کا چارٹر 14 سو پہلے پیش کیا اس کو اخلاقیات اور تعزیرات دونوں کے ذریعے عملی قوت فراہم کی۔

یقیناً یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ وہ اقوام عالم جو آج ترقی یافتہ اور مہذب کہلاتی ہیں اور ’’عالمی منشور برائے حقوق انسانی‘‘ کی علمبردار ہیں ان کی تاریخ معصوم انسانوں کے خون سے رنگین ہے۔ جس کا مشاہدہ کرکے انسانی حقوق تو کیا انسانیت بھی سوالیہ نشان بن جاتی ہے۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ آج کے ترقی یافتہ ممالک اقوام متحدہ کے منشور کو صرف ایک معیار سمجھتے ہیں اور عملی طور پر اس کا نفاذ نہیں کرتے ہیں۔

بہرحال ان تمام معاشروں میں ہمیشہ ایسے اہل فکر و دانش موجود رہے ہیں جنھوں نے رنگ و نسل سے بالاتر ہو کر ہمیشہ ظلم کے خلاف آواز بلند کی اور انسانوں کو ان کے بنیادی حقوق فراہم کرنے کی جدوجہد پر زور دیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج انسانی شعور ارتقاء کے عمل سے گزر کر اس نتیجے پر پہنچ چکا ہے کہ انسانی معاشرہ اگر انسانوں کے بنیادی حقوق کا تحفظ نہیں کرسکتا تو پھر حضرت انسان کے لیے اس دنیا میں امن و آشتی کے ساتھ رہنا ممکن نہیں ہے۔

جنگ عظیم اول، دوم میں جس وسیع پیمانے پر انسانی حقوق کی پامالی ہوئی اس پر ہزاروں ناول اور افسانے لکھے جاچکے ہیں اور سیکڑوں فلمیں پردہ سیمیں پر جلوہ گر ہوچکی ہیں کہ بربریت کی بدترین مثالیں قائم کرنے والے اس وقت کے مہذب ترین لوگ تھے۔ لیکن اگر ان اقوام نے جنگوں سے سبق حاصل کرلیا ہوتا تو شاید دنیا امن کا گہوارا بن چکی ہوتی۔

ویتنام، بوسنیا، چیچنیا، افغانستان، عراق، کشمیر، شام و فلسطین کی سرزمین پر جو خون ہولی کھیلی گئی اس نے ثابت کیا کہ انسانی حقوق کے تحفظ کا دعویٰ صرف کتابوں، سیمیناروں، تقاریر اور اعلامیوں تک محدود ہے۔ اور دنیا بین الاقوامی سرمایہ داروں، اسلحہ ساز اداروں اور کثیرالاقوامی کمپنیوں کے ہاتھوں میں گروی رکھی ہوئی ہے جس کے نتیجے میں آج بھی لا کھوں افراد کی زندگیاں خطرے میں ہیں اور دنیا ایک طویل اور وسیع جنگ کی طرف بڑھتی جارہی ہے۔

یہ استحصالی قوتیں ہر آنے والے وقت میں ایک نیابت تراشتی ہیں تاکہ دنیا کو ایک نئی کشمکش درپیش ہو اور ظلم کے ایک نئے دور کا آغاز ہو۔ درحقیقت ظلم اور ناانصافی اس چین ری ایکشن ((Chain Reaction کی مانند ہوتے ہیں جس کے نتیجے میں تباہی کے اثرات ضرب ہوتے چلے جاتے ہیں۔

جب کہ انصاف کی فراہمی اور انسانی حقوق کے تحفظ کی جدوجہد کی مثال اس بھاری پانی ((Heavy Water کی طرح ہے جو تباہی کے اس عمل کو روکتے اور سست کردیتے ہیں۔ اب جس معاشرے میں ظلم زیادہ اور حقوق کا تحفظ کم ہوگا یقیناً اس معاشرے میں ہر طرف تباہی پھیلے گی۔ اور وہ لوگ بھی جو بظاہر ظلم کے حامی نہیں ہیں وہ بھی ظلم اور ناانصافی کی چکی میں پس جائیں گے۔

لیکن کیا حقوق کے تحفظ کی یہ جنگ صرف کسی ایک مخصوص طبقے کی ذمے داری ہے۔ آج ہر طرف سیاسی بنیاد پر حقوق کی بات کی جاتی ہے۔ سیاسی جماعتیں، مزدوروں، کسانوں، تاجروں، طلبا، نوجوانوں اور خواتین کی حقوق کی بات کرتی ہے۔ معاشرے کا ایک کثیر حصہ یہ سمجھتا ہے کہ یہ انسانی حقوق کی جدوجہد شاید سیاسی جماعت کے پلیٹ فارم ہی سے ممکن ہے۔

یا شاید یہ سیاسی جماعت کی ذمے داری ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ انسانوں کے بنیادی حقوق کے لیے آواز بلند کرنا ہر شہری کی ذمے داری ہے اور اس کے لیے کسی سیاسی پلیٹ فارم کا ہونا لازمی نہیں ہے۔ جس طرح سانس لینا ضروری ہے اسی طرح ایک شہری کے بنیادی حقوق کے لیے آواز بلند کرنا ضروری ہے، خواہ وہ کسی طبقے سے تعلق رکھتا ہو۔

جب تک معاشرے میں انسانی حقوق کے تحفظ کی جنگ جاری رہے گی، معاشرہ زندگی سے بھرپور نظر آئے گا اور زندہ لوگوں کا معاشرہ کہلائے گا اور جب یہ جدوجہد معدوم ہوجائے گی تو معاشرہ بھی ایک قبرستان کی مانند مردہ لوگوں کا معاشرہ کہلائے گا۔ بلاشبہ معاشرے میں انسانی حقوق کے تحفظ کی جدوجہد ہی بقا اور سلامتی کی ضامن ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔