پیٹرک ایگر…بے مثال کرکٹ فوٹو گرافر

نادر شاہ عادل  منگل 17 مارچ 2015

اقبال منیرکہنے کو توکرکٹ کمنٹیٹر منیر حسین کے صاحبزادے ہیں مگر اسے ہم ان کی کوالیفکیشن یا ذاتی حوالہ نہیں بنا سکتے کیونکہ ان کے اندر سے اٹھنے والے منفرد کرکٹ فوٹوگرافر کی کہانی نہ صرف دلچسپ اور طلسماتی ہے بلکہ ان نوجوان فوٹوگرافرز کے لیے قابل تقلید اور مشعل راہ بھی جوکرکٹ اور پرسنل موڈ پر مبنی فوٹوگرافی کو بے ساختہ فطری و تخلیقی آرٹ سمجھتے ہیں اور کیمرے سے ایسے شاٹ لیتے ہیں جن میں عکاسی کو انسانی مزاج ،طبیعت اور موڈ کی زنجیر بناکر پیش کیا جاتا ہے۔

اقبال منیر کے کریڈٹ پر دو منفرد با تصویر انگریزی کتابیں ہیں ۔ ایک An Eye on Imran  ہے جس کا پیش لفظ کرکٹ کمنٹیٹر چشتی مجاہد نے تحریر کیا۔ جب کہ دوسری کتابakistan World champions  P ہے۔ ان دونوں کتابوں میں پاکستان کرکٹ ٹیم کے ان سپر اسٹارز کو فوکس کیا گیا ہے جن کی فقیری میں  تونگری کے اتنے قصے مشہور ہوئے کہ ذکر شروع تو، تو داستان امیر حمزہ شرمندہ ہو جائے، یہ کھلاڑی اپنے سپریم لیڈر عمران کی ولولہ انگیز اور بے داغ قیادت میں 1992ء کا عالمی کرکٹ کپ جیت کر لائے تو ان کے قدم زمین پر نہیں ٹکتے تھے، وہ دیومالائی مخلوق بن چکے تھے، قومی ہیرو شمار ہوتے تھے، پرستار ان سے ملنے کو ترستے تھے، عمران سے شادی تو پاکستانی لڑکیوں کا  قومی جنون بن چکا تھا۔

اسی دور میں اقبال منیر نے ان کے آف دی فیلڈ سنگل پوز اور گروپ اتارے جب کہ عام فوٹوگرافر کے لیے کسی تقریب یا خصوصی موقع پر ان سپر اسٹارز کی تصویر لینا آسان نہ تھا، اقبال منیر کو میں نے ’’اخبار وطن‘‘ میں فوٹوگرافر کی حیثیت میں نہیں دیکھا، وہ حساسیت کا پیکر بنے اداس سوچ میں ڈوبے ہوئے رہتے تھے۔

وہ خاموشی سے فاروق عثمان اور افضل حسین  کی عکاسی اور ان کے ’’شٹر اور اپرچر‘‘ کے درمیان ایک چشم تماشائی رکھتے ہوئے ملتے  تھے اور منیر صاحب کو بھی اس کا پتا نہیں لگ سکا کہ دنیائے کرکٹ کے نابغہ روزگار برطانوی کرکٹ فوٹوگرافر پیٹرک ایگر کے نقش قدم پر چلنے کی تیاری کون کر رہا ہے۔ فاروق عثمان ایک بڑے ہمہ جہت فوٹوگرافر ہیں اور عکاسی کے جس معیار کی خوشہ چینی اقبال نے ابتدا میں کی اس کا سہرا فاروق عثمان کے سر ہے ، وہ استاد  تھے، افضل حسین سے اقبال نے فوٹوگرافی کی اے بی سی سیکھی۔

تاہم عکاسی کے ان کے معیار کو تصویر بنا دیکھے چشم تصور میں نہیں لایا جاسکتا، اس وقت ملک کے ممتازکرکٹ فوٹوگرافرز میں اقبال منیر یوں مختلف ہیں کہ انھوں  نے یہ دونوں کتابیں کسی اخبار سے بحیثیت اسپورٹس  فوٹوگرافر وابستہ ہوتے ہوئے مکمل نہیں کیں، وہ شوقِ گل بوسی میں عکاس بنے ، اپنے جنون ، جستجو اور اس ایک واقعے کے بعد اس میدان میں داخل ہوئے جس نے ان کی زندگی بدل ڈالی۔ اب وہ ایک اسپورٹس کنسلٹنگ فرم کے سربراہ  ہیں۔ مگر پیٹرک ایگر کا کیا رشتہ اورکیا تعلق اس ساری داستان آرائی سے…..؟

آئیے پچھلی تاریخوں میں چلتے ہیں ۔80ء کا زمانہ ہے، اقبال منیر جس کے چہرے کے ایک جانب غیر معمولی سوجن ہے، اندرونی سوزش ہے، منیر حسین اور ان کے اہل خانہ اس درد کو محسوس کرتے رہے ہیں، ان کا لندن کے مورگن اسپتال سے آپریشن کراچکے ہیں ، دوسری بارپلاسٹک سرجری کے ماہر ڈاکٹر فیض محمد خان ان کا مڈ ایسٹ میں بھی علاج کرچکے ہیں، مگر زخم پیچھا نہیں چھوڑ رہا،  اب وہ عمرہ کے لیے ڈاکٹر جعفر کے ہمراہ  جدہ روانہ ہوتے ہیں، عمرہ کی ادائیگی کے بعد مکہ اور مدینہ کا  سفر جاری ہے کہ دوران نماز حالت سجدہ میں اس کا زخم پھٹ جاتا ہے۔

جس کی وجہ سے پورا چہرہ لہو سے تر ہوجاتا ہے، اسی نازک حالت میں ان کی کراچی واپسی ہوتی ہے، منیر حسین کا فون مجھے  کراچی پریس کلب میں ملتا ہے، منیر صاحب مجھے اس واقعے کا بتاتے ہیں اور فوری طور پر دفتر پہنچنے کی ہدایت کرتے ہیں، اتفاق سے اس وقت میں مشہور مزاح نگار ابراہیم جلیس کے بیٹے شہریار جلیس سے مصروف گفتگو تھا ، میں  نے ان سے اقبال منیر کی حالت کا ذکر کرتے ہوئے  رخصت ہونے  کی اجازت مانگی تو انھوں نے کھڑے ہوکر مجھے روکتے ہوئے کہا کہ منیر بھائی سے کہیں کہ  لندن نہ بھیجیں ، اقبال کو فوری طور پر امریکا لے جائیں۔

ایسے پیچیدہ آپریشن یا سرجری میں لندن امریکا سے 50 سال پیچھے ہے، میں نے وہیں سے فون کر کے شہریارکی بات کرادی اور منیر صاحب امریکا جانے کی تیاریاں کرنے لگے، سابق  کرکٹر آصف اقبال کے بھائی ڈاکٹر شاہد اقبال تک بات پہنچائی ،انھوں  نے ہیوسٹن کے اسپتالوں  سے فوری رابطے کیے،ادھر منیر حسین، ان کی اہلیہ ، اقبال منیر اور اختر منیر ویزہ لینے کے لیے امریکن قونصلیٹ پہنچے، اختر منیرکو ویزہ نہ مل سکا ،تاہم تینوں امریکا روانہ ہوگئے۔

وہاں اسپتال میں 14 گھنٹے کا آپریشن ہوا، ایک نرس نے اقبال منیرکی امی سے کہا کہ وہ سامنے والے کمرے میں چلی جائیں وہاں قرآن (مجید) رکھا ہے ، مسز منیر حسین  نے قرآن شریف کی تلاوت شروع کی ،اقبال  منیرکہتے ہیں کہ میں نے ابو سے کہا کہ ڈاکٹروں کی ٹیم سے اس سرجری کی فوٹوگرافی کی اجازت   لے لیں ، چنانچہ ٹرانسپیرنسیاں تک بنوا لی گئیں۔ آپریشن کامیاب رہا، اور بیماری کے  اسٹرائک بیک کی آج تک  نوبت نہیں آئی ۔ اب پیٹرک ایگر کا ذکر مناسب ہوگا۔

ہوا یوں کہ لندن علاج کے لیے اقبال منیر گئے تو منیر صاحب پیٹرک ایگر سے ملاقات میں اقبال منیر کو ساتھ  لے گئے، جب کہ کسی سے معاہدے کے تحت پیٹرک کسی اور جریدہ کو ٹرانسپیرنسیز نہیں دے سکتے تھے، لیکن اقبال کے چہرے کے زخم اور اس کے علاج کی بابت سن کر وہ اور ان کی اہلیہ نے انسانی ہمدردی کا بے مثال مظاہرہ کیا اور نہ صرف ٹرانسپیرنسیاں دینے کا نیا معاہدہ کیا بلکہ اقبال منیرکو  اپنی کرکٹ تصویروں اور ٹرانسپیرنسیز کا گفٹ پیش کردیا۔ یہی وہ تحفہ تھا جس نے اقبال منیر کو پیٹرک ایگر جیسا  باکمال فوٹوگرافر بننے کے اضطراب  میں مبتلا کردیا۔ میں  نے ایگر کی ٹرانسپیرنسیاں خود دیکھی ہیں۔

ہمارے یہاں 35 ایم ایم یا 120 کی ٹرانسپیرنسیز تھیں جو اب متروک ہوچکی ہیں، مگر ایگر کی ایک ٹرانسپیرنسی چوڑی انسانی ہتھیلی کے برابر تھی۔ اس آنجہانی نے 18 اکتوبر2011 کو کرکٹ فوٹوگرافی سے ریٹائرمنٹ لے لی۔ اس نے 325 ٹیسٹ کورکیے۔ جن میں98 ایشز سیریزکے ہیں ۔ پیٹرک کا کہنا ہے کہ اگر کمپرومائز کیا تو فوٹوگرافر کبھی کوالٹی پکچر یا ٹرانسپیرنسی نہیں دے سکتا۔ آپ اچھے کرکٹ فوٹوگرافر بن نہیں سکتے اگرکرکٹرز سے آپ کی دوستی نہیں۔

کرکٹ فوٹوگرافر کو وسیع الذہن ہونا چاہیے۔ شین وارن کی اسپن بولنگ کو میں نے ہمیشہ مووی  کے طور پر دیکھا۔ سنا ہے کہ عمران خان اپنی ذاتی فوٹوگرافی کے لیے پیٹرک ایگر کے منتظر رہے۔ مبصر سمیر چوہدری نے پیٹرک ایگرکو کرکٹ کا بصری شاعر قرار دیا ہے۔ معروف قلمکار عافیہ سلام نے اقبال منیرکی جدوجہد پر جریدہ ’’نیوز لائن‘‘ میں بہت دلفریب نقشہ کھینچا  تھا۔’’این آئی آن عمران‘‘ پر تبصرہ کرتے ہوئے ان کا تاثر تھا کہ انتہائی محتاط اور پریس سے ریزرو رہنے والے عمران خان کی کھلی ڈھلی نجی فوٹوگرافی در حقیقت شیر کے کچھار میں داخل ہونے کے مترادف تھا۔

اقبال منیر کا نرالا پروجیکٹ انگریزی ماہنامہ Glamour کا تہلکہ خیز اجرا تھا۔ اس کارخیر میں ان کی معاونت سینئر صحافی ثمینہ جعفری نے کی جو اقبال منیر سے گلیمر  کی تیاریوں کے دوران رشتہ ازدواج میں منسلک ہوئیں، وہ ماضی کے ممتاز سیاسی مبصر ، براڈکاسٹر اور  تجزیہ کار اے بی ایس جعفری کے خانوادے سے ہیں ، اور خوبصورت میگزین  Women’s Own کی ایڈیٹر رہ چکی ہیں۔

گلیمر نے دو بڑے ایونٹ کور کیے ایک تو پاکستان کرکٹ ٹیم کے سپراسٹارکے کارواں کو ایک حسین و جمیل بگھی میں سوار کرا  کے شہر میں گھمایا ، ساحل سمندر اور دیگر ڈپارٹمنٹل اسٹورز پر یہ ہیروز گھومے پھرے، شاپنگ کی ، ان کی خوبصورت کوریج جریدے کی زینت بنی  اور انفرادی طور پرکرکٹرز کے ذاتی پوز  نت نئے زاویوں سے کھینچے گئے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔