کوّے بنے دوست۔۔۔۔

ندیم سبحان  منگل 17 مارچ 2015
ذرائع ابلاغ اور انٹرنیٹ کی دنیا میں ان دنوں واشنگٹن میں رہنے والی آٹھ سالہ بچی کی کوؤں سے دوستی کے چرچے ہورہے ہیں۔ فوٹو: فائل

ذرائع ابلاغ اور انٹرنیٹ کی دنیا میں ان دنوں واشنگٹن میں رہنے والی آٹھ سالہ بچی کی کوؤں سے دوستی کے چرچے ہورہے ہیں۔ فوٹو: فائل

کتے اور انسان کی دوستی کی مثالیں مشہور ہیں مگر کیا کبھی آپ نے کوّے اور انسان کے درمیان دوستی کے بارے میں سنا ہے؟

عالمی ذرائع ابلاغ اور انٹرنیٹ کی دنیا میں ان دنوں واشنگٹن میں رہنے والی آٹھ سالہ بچی کی کوؤں سے دوستی کے چرچے ہورہے ہیں۔ گیبی مین اپنے گھر کے باغیچے میں آنے والے کوؤں کو کھانے پینے کی چیزیں ڈالتی ہے۔ اس مہربانی کے بدلے میں کوے پیاری سی بچی کو چمک دار موتی، بٹن، دھاتی ٹکڑے اور اسی نوع کی چھوٹی موٹی چیزیں لاکر دیتے ہیں۔

کوؤں کے لائے گئے تحفوں میں سب سے پیارا ایک دھاتی ٹکڑا ہے جس پر’’ best‘‘ درج ہے۔ اس کے علاوہ دل کی شکل کا ایک خوب صورت لاکٹ بھی ہے۔ ان تحفوں میں دو حصوں میں منقسم ایک آویزہ بھی ہے جس کے ٹکڑوں کو ملانے پر لفظ ’’friend ‘‘ بن جاتا ہے۔ ان تحفوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ کوے اس بچی سے کتنا پیار کرتے ہیں۔

کوا ایک بدصورت پرندہ ہے۔ غالباً یہی وجہ ہے کہ اسے کبھی انسانی پذیرائی حاصل نہیں رہی۔ بدصورت ہونے کے ساتھ ساتھ یہ سرکش اور ’ ڈھیٹ ‘ بھی ہوتا ہے۔ پھر اس کی کرخت آواز بھی سماعت پر گراں گزرتی ہے۔ اس تناظر میں گیبی اور کووں کے درمیان دوستی اور تحائف کا تبادلہ ایک غیرمعمولی بات ہے۔

http://www.express.pk/wp-content/uploads/2015/03/Crow.jpg

گیبی اور کووں کے درمیانی باہمی محبت کا رشتہ 2011ء میں استوار ہوا تھا جب وہ چار سال کی تھی۔ ایک روز اس سے نادانستگی میں کھانے پینے کی کچھ چیزیں باغیچے میں گر گئیں۔ درختوں پر بیٹھے ہوئے کوے ان چیزوں پر ٹوٹ پڑے۔ یہ منظر دیکھ کر گیبی کو احساس ہوا کہ کوے بھوکے تھے۔ چناں چہ اگلے روز سے اس نے اپنا لنچ انھیں کھلانا شروع کردیا۔ اس کے بعد یہ ہونے لگا کہ کوے ہر روز اس کی اسکول سے واپسی کے منتظر رہتے۔ گھر میں داخل ہونے کے بعد وہ اپنا لنچ باکس اٹھا کر باغیچے میں پہنچتی اور بچا کھچا لنچ اور باورچی خانے میں سے کھانے پینے کی چیزیں لاکر وہاں ڈال دیتی۔ کچھ دنوں کے بعد گیبی کی والدہ بھی اس کے ساتھ اس ’ کارِ خیر‘ میں شریک ہوگئیں۔ انھوں نے لکڑی کی دراز نما ایک چوکھٹا بنالیا تھا جس میں وہ کووں کے لیے خوراک ڈال دیتی تھیں۔ ایک علیٰحدہ برتن میں پانی بھی رکھا جاتا تھا۔

گیبی جب کووں کے لیے ’ لنچ‘ لیے باغیچے میں پہنچتی تو کوے اسے دیکھ کر قریب سے گزرتے بجلی کے تاروں پر بیٹھ جاتے۔ پھر گیبی کے پیچھے ہٹتے ہی ’ دسترخوان‘ کی جانب لپکتے۔ کچھ عرصے قبل کووں کو’ احساس‘ ہوا کہ انھیں بھی اس پیاری لڑکی کے لیے کچھ کرنا چاہیے جو روزانہ ان کی شکم سیری کا سامان کرتی ہے۔ چناں چہ وہ اپنی بساط کے مطابق چھوٹی موٹی اشیاء لانے لگے۔ شکم سیری کے بعد وہ یہ چیزیں گیبی کے لیے چھوڑ جاتے۔ ان چیزوں میں ٹوٹا ہوا بلب، بُندے، لیگو کا ایک ٹکڑا، پرانے اسکریو، سنگی ٹکڑے اور شیشے کے موتی شامل ہیں۔ گیبی نے یہ سب چیزیں بہت سنبھال کر رکھی ہیں۔ اس نے اپنی پسند کے اعتبار سے ان چیزوں کی درجہ بندی بھی کی ہے۔ گیبی کا خیال ہے کہ کوے اس کی پسند سے واقف ہیں۔ اسے نیلا رنگ اچھا لگتا ہے، لیگو اور چمکتی دمکتی چیزیں بھی اسے بھاتی ہیں۔

http://express.pk/wp-content/uploads/2015/03/Crow1.jpg

سائنس دانوں کے مطابق کوّے انتہائی ذہین اور چالاک مخلوق ہیں۔ خوراک حاصل کرنے کے لیے یہ پیچیدہ طریقے بھی اختیار کرسکتے ہیں۔ جو فرد انھیں خوراک مہیا کرتا ہے، بیشتر اوقات یہ اس کے ساتھ ایک مضبوط تعلق قائم کرلیتے ہیں۔ اسی طرح ان میں اپنے دشمنوں کو شناخت کرلینے کی قابلیت بھی ہوتی ہے۔ جو لوگ کووں کی طرف پتھر اُچھالتے ہیں یا کسی زخمی چڑیا کو ان سے بچانے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ برسوں گزرجانے کے باوجود بھی اس فرد کو یاد رکھتے ہیں، اور موقع ملتے ہی غول کی صورت میں اس پر حملہ آور ہوتے ہیں۔

کوے گیبی کو صرف تحائف ہی لاکر نہیں دیتے بلکہ ایک سچے دوست کی طرح ان کے نفع نقصان کا بھی خیال رکھتے ہیں۔ گیبی کی والدہ لزا بتاتی ہیں،’’ ایک روز میں گھر کے باہر کھڑی اطراف کی تصویریں کھینچ رہی تھی۔ دل بھر گیا تو گھر میں آگئی۔ کوئی ایک گھنٹے کے بعد مجھے یاد آیا کہ کیمرے کا لینس باہر ہی کہیں رہ گیا ہے۔ کافی دیر کی تلاش کے بعد بھی لینس نہیں ملا۔ میں سمجھی کوئی اٹھا کر لے گیا ہوگا۔ کچھ دیر کے بعد باغیچے میں جانا ہوا تو یکھا لینس کووں کے کھانے کی جگہ پر رکھا ہوا تھا۔ سی سی ٹی وی کیمرے کی فوٹیج دیکھنے پر پتا چلا کہ یہ کوّے کی مہربانی تھی۔ وہ لینس اپنی چونچ میں دبا کر لایا اور وہاں رکھ گیا۔‘‘

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔