میں اُسے جان سے مار دینا چاہتی ہوں

شہباز علی خان  منگل 17 مارچ 2015
ایک دفعہ تو میرا دل چاہا کہ میں اُس کی بوٹیاں بوٹیاں کردوں۔

ایک دفعہ تو میرا دل چاہا کہ میں اُس کی بوٹیاں بوٹیاں کردوں۔

ایک دفعہ تو میرا دل چاہا کہ میں اس کی بوٹیاں بوٹیاں کردوں، میں اُسے جان سے مار دینا چاہتی تھی، لیکن مجھے کوئی طریقہ سمجھ نہیں آرہا تھا، میں گھنٹوں سوچتی رہتی اور پھر شام ڈھلتے ہی نیند کی گولیاں کھا کر بستر پر گرجاتی۔ مجھے نہ اپنا ہوش تھا اور نہ ہی اپنے دو بچوں کی فکر۔ وہ خود ہی صبح اُٹھ کر تیار ہوتے اور میں نیم بے ہوشی کی حالت میں آدھا پکا اور آدھا کچا ناشتہ انہیں کھلا کر اسکول بھیج دیتی۔ مجھے یقین نہیں آتا تھا کہ جس شخص پر میں نے اپنی زندگی کے اتنے سال قربان کر دئیے آج میں اس کے لئے غیر اہم ہوگئی؟ ناکارہ ہوگئی؟ پرانی ہوگئی؟

کہتا ہے کہ مجھے لباس پہننےکا ڈھنگ نہیں، اسے مجھ سے پیاز، لہسن، ادرک اور تیز گرم مصالحوں کی بو آتی ہے۔ میں نے کئی بار سمجھانے کی کوشش کی کہ گھر کے کام ختم ہی نہیں ہوتے پھر ہانڈی روٹی، صاف ستھرائی سے فارغ ہوتے ہی بچیوں کے اسکول سے آنے کا وقت ہوجاتا ہے، پھر شام میں انہیں اسکول کا کام کرانا اور پڑھانا ہوتا ہے، اب میں کیا کیا کروں؟

وکیل صاحب میں نے اسے کہہ دیا ہے کہ جب میں ایک بیوی تھی توسارے لاڈ چونچلے اپنی جگہ تھے، اب میں بیٹیوں کی ماں بھی ہوں۔ عورت اپنے وجود میں بہت سے کردار لئے اس دنیا میں آتی ہے اسے سب نبھانے ہوتے ہیں اور بچوں کی اچھی تعلیم و تربیت بھی تو عبادت ہے۔

اتنا کہہ کر وہ سانس لینے کے لئے رکی۔ میں وکیل کے چیمبر میں بیٹھا ہوا تھا جب یہ خاتون اپنے بھائی کے ساتھ اندر آئیں اور اس نے جو پہلا جملہ ادا کیا وہی یہی تھا کہ ’’اسے طلاق چاہیے‘‘۔ وکیل، ڈاکٹر اور کار مکینک میں بہت مماثلت پائی جاتی ہے، تینوں ہی آپ کو خوفزدہ بھی رکھتے ہیں اور ساتھ ساتھ یقین و بے یقینی کی کیفیت سے بھی دوچار کردیتے ہیں۔ ان کے احاطوں میں پہلا چکر کبھی بھی آخری چکر ثابت نہیں ہوتا، مگر جب بھی آپ ان کے دفتر سے روانہ ہوتے ہیں تو اسی طرح گلے ملتے ہیں جیسے آپ کے دکھ کا بس یہی آخری دن تھا، مگر کچھ دن بعد دوبارہ آپ ان کے آنگن میں بغیر موسیقی کے محوِ رقص ہوتے ہیں۔

اس وکیل کی جگہ اگر کوئی عام وکیل ہوتا تو فوراََ یہ کہہ کر اپنا گاہک پکا کرتا کہ جی یہ تو کوئی مسئلہ ہی نہیں ہے، ابھی طلاق ہوجائے گی، اچھا کیا آپ یہاں آگئی ہیں ورنہ قیامت آجاتی اور اب صد شکر کہ وہ گھڑیاں ٹل گئی ہیں اور اس طلاق کے بعد ہر سو سبزہ ہی سبزہ ہوگا، سکھ ہی سکھ ۔

مگر جب میرے دوست نے مصالحت کی بات کی اور مل بیٹھ کر کوئی حل نکالنے کی بات کی تو وہ خاتون ایک دم بھڑک اُٹھی اور پھر سے دبنگ انداز سے کہا؛

میں عام سے گھرانے کی بیٹی ہوں، جسے صرف سمجھوتہ اور صبر و برداشت سے زندگی گزارنے کی تربیت دی گئی ہے، میں اسی اُمید پر چلتی رہی کہ اب یہ ٹھیک ہوجائے گا، مگر یہ تو ساری حدیں ہی پھلانگتا گیا۔ گھر میں کمپیوٹر اور انٹرنیٹ آیا تو یہ فیس بک پر چپک گیا، پھر اس کا موبائل وائیبریشن پررہنے لگا تھا، ایک دن مجھے شک ہوا تو اس کی چوری پکڑی گئی، یہ کسی لڑکی سے باتیں کررہا تھا۔ میں نے وہ نمبر لیا اور اس چڑیل کو وہ کھری کھری سنائی کہ وہ تو بھاگ گئی اور یہ اُداس الو کی طرح پھڑپھڑاتا رہا ۔

پھر اپنے دوستوں کے ساتھ کسی تحریک کے دھرنے میں آنے جانے لگا، وہاں سے آنے کے بعد یہ باہر گلی میں گھنٹوں فون کان پر لگائے کونے کونے گھومتا رہتا۔ میں نے اس کے موبائل کا ڈیٹا لیا تو بھید کھلا کہ ملک بچانے کا نہیں بلکہ گھر بسانے کا چکر ہے۔ میں بچوں کے ساتھ اپنے ماں باپ کے گھر ہوں اور یہ اپنی اسی دنیا میں مگن ہے۔ میں کب تک اس پر چوکیداری کرتی رہوں؟ میں اس ٹیڑھی دم کو کب تک ہاتھ میں سیدھا پکڑ کر بیٹھی رہوں؟ اسے سب نے سمجھایا، میرے بھائیوں نے تو پھینٹی بھی لگائی، کچھ دن تو یہ راہ راست پر رہا پھر وہی کچھ شروع۔ میری تو اب بس ہوگئی ہے جی۔

دیکھا جائے تو اِس کی باتیں اپنی جگہ درست تھیں۔ میاں بیوی کا رشتہ بہت سے رنگوں کا مجموعہ ہوتا ہے، اگر ایک بھی رنگ پھیکا پڑجائے اور فریقین توجہ نہ دیں تو تصویر بدرنگ ہوجاتی ہے۔ عدالت کی راہداریوں میں آپ کو ایسے بہت سے کیسز دکھائی اور سنائی دیں گے اور ان میں دن بدن اضافہ لمحہ فکریہ بھی ہے کہ آخر معاشرہ کس سمت میں جارہا ہے؟ تمام رشتے اپنے محور سے ہٹتے جارہے ہیں۔ ایک طرف تو ملک میں موٹر ویز کی برسات ہورہی ہے اور اربوں ڈالرز کی آمد کی خوشخبریاں سنائی جارہی ہیں اور دوسری طرف انسان پستی کی طرف اسی تیزی سے گرتا جارہا ہے۔ ہمارے خاندانی نظام کی تو دنیا مثالیں دیتی ہے، لوگوں اب بھی وقت ہے سنبھل جاؤ۔ ورنہ وہ وقت دور نہیں جب یہ اعزاز بھی ہم سے چھین جائے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز  اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر،   مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف  کے ساتھ  [email protected]  پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جاسکتے ہیں۔

شہباز علی خان

شہباز علی خان

آپ انٹرنیشنل ریلیشنز میں ماسٹر ہیں، اور فری لانس رائٹر کے طور پر کام کرتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔