پاسبان عقل کی چھٹی کے بعد کا کالم

سعد اللہ جان برق  بدھ 18 مارچ 2015
barq@email.com

[email protected]

نجانے کیوں آج ہمارا جی چاہتا ہے کہ علامہ اقبال کا کہا مانتے ہوئے ’’پاسبان عقل‘‘ کو ایک طرف باندھ کر دل کو کھلا چھوڑ دیں کہ جا جہاں جی چاہے چر اور منہ ماری کر۔ چاہو تو دوڑو ادھر ادھر کھیلو کودو اور کسی سانڈ کی طرح دم کو اوپر اٹھا کر نتھنوں سے بھوں پھاں کرتے ہوئے یہاں وہاں سنگ ماری کرتے ہوئے اچھلو کودو۔

ویسے یہ تو ہم نے محض تکلفاً ’’جانے کیوں‘‘ کی تمہید باندھ دی ورنہ ہمیں اچھی طرح پتہ ہے کہ کیوں؟ یہ جو یہاں وہاں بلکہ ’’ہیاں ہواں‘‘ ہو رہا ہے، بولا جارہا ہے ،کیا کرایا جارہا ہے، دیکھا دکھایا جارہا ہے، اس میں ’’پاسبان عقل‘‘ کے پاس ایک انچ موٹی لوہے کی رسی ہی کیوں نہ ہو وہ ’’دل‘‘ کو بے مہار ہونے سے نہیں روک سکتا۔ ذرا ادھر ادھر دیکھیے، سنیے پڑھیے اور سمجھیے، کتنے بڑے بڑے تماشے کس بے شرمی سے چل رہے ہیں، وہ محبوب خزاں کے بقول

سب سمجھتے ہیں اور سب چپ ہیں
کوئی کہتا نہیں کہ تم سے کہیں

ایسے میں ہمیں اپنے ہی ایک قول زریں کے مطابق کہ اگر اس دور میں بھی کوئی پاگل نہیں ہوتا تو وہ واقعی پاگل ہے ۔ خود کو پاگل ہونے سے بچانے کے لیے پاگل ہونا از بس ضروری ہے اور اس پاگل پن کی ابتدا ہم ایک انڈین آئٹم سانگ سے کر رہے ہیں۔

اب پاگل ہونے سے بچنے کے لیے پاگل ہوئے ہیں تو کچھ بھی کر سکتے ہیں۔ یہ آئٹم سانگ ریکھا بھردواج نے فلم گلال کے لیے گایا ہے اور گانے کو جس منظر کے ساتھ فلمایا گیا ہے، وہ بھی ہم نے دیکھا ہے لیکن اسے گولی مار دیتے ہیں پاگل جو ہیں ورنہ وہ منظر بھی ’’ہے دیکھنے کی چیز اسے بار بار دیکھ‘‘ کے زمرے میں آتا ہے لیکن

جہاں میں ہو غم و شادی بہم ہمیں کیا کام؟
خدا نے ہم کو دیا ہے وہ دل کہ شاد نہیں

اس لیے اپنی توجہ گانے کے بولوں پر مرکوز کیے دیتے ہیں کیونکہ یہ ’’ثبوت‘‘ تو ہمیں دینا ہے کہ ہم پاگل نہیں ہیں اور یہ ثبوت صرف خود کو پاگل ثابت کر کے ہی دیا جا سکتا ہے، ویسے اگر آپ ابھی تک پاگل نہیں ہوئے ہیں تو جلدی سے ہو جایئے کیونکہ آیندہ شاید یہ موقع بھی نہ ملے، وہ تو خدا کا ہم پر بڑا کرم ہے کہ ہمارے ’’مواقع‘‘ پیدا کرنے والے لیڈر مواقع پیدا کرنے میں ماہر ہیں ورنہ دوسرے ممالک میں اتنے مواقع کہاں، چاہے وہ پاگل ہونے کے مواقع ہی کیوں نہ ہوں، اور بزرگوں نے بھی کہہ رکھا ہے کہ

عاقل مشو کہ تا تو غم دیگراں خوری
دیوانہ باش تا غم تو دیگراں خورند

یعنی ہوشیار مت ہو ورنہ دوسروں کے غم کھانے میں خلاص ہو جاؤ گے بلکہ پاگل ہو جاؤ تاکہ دوسرے تمہارا غم کھائیں اور یہ مواقع ہمارے لیڈروں نے کافی بست و بسیار دیے ہوئے ہیں ۔آپ کسی بھی جگہ کچھ بھی دیکھ کر سن کر اور سوچ کر پاگل ہو سکتے ہیں یا اپنے پاگل نہ ہونے کا پکا پکا ثبوت دے سکتے ہیں، ویسے بھی

دیوانہ ہے دنیا میں جو دیوانہ نہیں ہے
عاقل وہی ہوتا ہے جو عاقل نہیں ہوتا

پاگل پن کی یہی تو خوبی یا خامی ہے کہ آدمی جدھر چل پڑا چل پڑا ، وہ اصل بات یعنی ریکھا بھردواج کا گانا تو بیچ ہی میں رہ گیا، خیر کوئی بات نہیں تب نہ سہی اب سہی، گانے کے بول ہیں

رانا جی غصے میں آئے
ایسوں بل کھائے
اگیا برسائے
گھبرائے مارو چین

یہ تو بے چاری نے ’’رانا جی‘‘ کے غصے میں آنے کی خبر دی ہے۔ اب رانا جی کون ہے، یہ بات آگے چل کر واضح ہو گی۔ آپ خود ہی اس رانا جی کو پہچان لیں گے، یہاں اس کے غصے کی کچھ کیفیت بیان ہوئی ہے کہ

جیسے دور دیس کے ٹاور میں گھس جائے ایرو پلین
جیسے سرعام عراق میں جا کر جم گئے انکل فین

واہ کیا بات ہے، جی چاہتا ہے جا کر اس شاعر کے چرن چھوئیں، اپنے ’’رانا جی‘‘ کے غصے کے لیے کیا مثالیں تلاش کی ہیں۔ ہم تو خیر خود پاگل پن کے الزام سے بچنے کے لیے پاگل ہو چکے ہیں لیکن آپ تو ہوشیار ہیں نا، اس لیے دور دیس کے ٹاور میں ایرو پلین کے گھس جانے کا تو آپ کو علم ہی ہو گا، ہاں وہی جس سے ایک نئے کیلنڈر کی ابتداء ہوئی ہے یعنی قبل نائن الیون اور بعد از نائن الیون جیسے قبل مسیح اور بعد از مسیح ۔ خیر آگے سنیے،

رانا جی میری سوتن کو گھر لے آئے
پوچھے تو بولے کہ فرینڈ ہماری ہے ہائے

اس بظاہرے بے معنی سی باتوں پر وہ ہوشیار لوگ بلکہ دانشور تو ’’غور‘‘ نہیں کر پائیں گے جو چائے کی پیالی میں نہ صرف طوفان لاتے ہیں بلکہ اس میں بڑے بڑے ’’ٹائی ٹانک‘‘ بھی ڈبو دیتے ہیں البتہ وہ پاگل ضرور غور حوض کر سکتے ہیں جو پاگل ہو کر پاگل ہونے سے بچے ہوئے ہیں، اس میں ’’رانا جی‘‘ تو بڑا ہی کثیر المعنی نام ہے لیکن ’’سوتن‘‘ کو گھر لے آئے بھی کچھ کم سمندروں بھرا ’’کوزہ‘‘ نہیں ہے اور پھر سوتن کو ’’بیوی‘‘ کے سامنے فرینڈ ہماری پر بھی خاصا غور کیا جا سکتا ہے۔

’’رانا جی‘‘ کو امریکا، سوتن کو پاکستان فرض کر لینے کا قرینہ بھی اس سے نکل سکتا ہے۔ رانا جی کو جنرل مشرف فرض کر کے سوتن کو فرینڈ بنا کر ’’گھر‘‘ لے آنے کی بات بھی نکل سکتی ہے، رانا جی اسی بات پر تو غصے میں آئے تھے کہ پاکستان کو ’’طالبان‘‘ کے فرینڈ شپ کا دعویٰ تھا ۔ اب آگے سنیے،

رانا نے ٹھنڈا چکھ کو یو کولا
بولے نہ مانے ہائے کوکا کولا

نہایت باوثوق پاگلوں سے ہمیں پتہ چلا ہے کہ امریکا کی دونوں پارٹیاں دراصل دونوں سرمایہ داروں کی ملکیت ہیں۔ مطلب یہ کہ آزاد ترین دیس کی آزاد ترین حکومت، سینیٹ کانگریس اور جمہوریت ویسے ہی آزاد ہیں جیسے پاکستان۔

اس نے اپنا بنا کے چھوڑ دیا
کیا اسیری ہے کیا رہائی ہے

گانے میں بھی اور بھی عجائبات باقی ہیں بلکہ عجائبات کے ساتھ غرائبات بھی ہیں، مثلاً

رانا جی بو موروں کی بستی میں ہے چور دانے
کیونکہ یہ دل مانگے ’’مور‘‘

پتہ نہیں کہ اس شاعر نے سوچ سمجھ کر اتنے بڑے ’’دجلوں‘‘ کو قطرے میں دیکھا ہے یا یونہی پاگلوں کی طرح پاگل پن میں عقل مندی کی بات کر گیا، سب سے پہلے تو اس میں ’’مور‘‘ کا استعمال دیکھیے جو ایک ہندی پرندہ ہے اور جو جنگل میں بے چارا ناچ ناچ کر تھک جاتا ہے اور اپنی دم اٹھا کر لوگوں کو تماشے دکھاتا ہے۔

یہ سوچے بغیر کہ دم کی خوب صورتی کے باوجود خود کو ننگا کر رہا ہے، اس موروں کی بستی میں ’’چور‘‘ تھا یا نہیں لیکن رانا جی کو یقین تھا کہ ’’چور‘‘ اپنی دم دکھانے والے اور جنگل میں ناچتے موروں کی بستی میں ہی چھپا ہوا ہے، اس لیے صاف کہہ دیا کہ ’’یہ دل مانگے مور‘‘ یہاں لفظ وہی ’’مور‘‘ ہی ہے لیکن ’’مانگے مور‘‘ اور ’’ڈو مور‘‘ سے زبان بھی بدل گئی اور مقصد بھی کہ بس بہت ہو گیا دم پھیلا کر ناچنے کا کام ۔۔۔ اور ہندی ’’مور‘‘ بننے کا۔ اب ذرا انگریزی ’’مور‘‘ بر آجاؤ ورنہ ۔۔۔۔ اور پھر اچانک ایک اور مصرعہ تو سب کچھ واضح کر جاتا ہے کہ

جیسے افغانستان کا بناباد کے بھیا بج گیا رے بین

بین کا مطلب ظاہر ہے کہ بینڈ ہے اور افغانستان کا جو بینڈ بنا ’’باد‘‘ کے بج گیا اس کی گونج ابھی تک سنائی دے رہی ہے، کہتے ہیں کہ سولہ ارب سال پہلے کائنات میں جو دھماکا بگ بینگ ہوا تھا، اس کی گونج اب بھی خلا میں سنائی دے رہی ہے، اس لیے افغانستان کا جو بینڈ بج گیا وہ بھی ’’بناباد‘‘ کے یعنی ان آلات موسیقی کے بغیر جو ہوا کی پھونک سے بجائی جاتی ہیں یعنی صرف ان آلات پر مشتمل بینڈ جو ضرب لگا کر بجایا جاتا ہے، ہو سکتا ہے کہ آپ بور ہو گئے ہوں کیونکہ ممکن ہے ۔

آپ پاگل نہ ہوں لیکن یہ سوچ کر معاف کر دیجیے کہ چونکہ ہم اس وقت پاگل پن کے الزام سے بچنے کے لیے پاگل ہوئے ہیں اور علامہ اقبال کے فرمودہ کے مطابق دل کی گردن سے پاسبان عقل کی رسی کھول کر دور پھینک چکے ہیں، اس لیے ایسی ایسی ہی باتیں منہ سے نکل رہی ہیں جو پتہ نہیں باتیں ہیں بھی یا نہیں

بک رہا ہوں جنوں میں کیا کیا کچھ
کچھ نہ سمجھے خدا کرے کوئی

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔