ہمارے خود ساختہ مفروضے

زاہدہ حنا  بدھ 18 مارچ 2015
zahedahina@gmail.com

[email protected]

دنیا کے بہت سے ملک ایسے ہیں جن کی تاریخ صدیوں اورکچھ کی ہزاروں برس پر پھیلی ہوئی ہے۔ وہ اپنے شاندار ماضی پر ناز کرتے ہیں اور درمیان میں اگر زوال کی چند صدیاں آجائیں تو ان پرکف افسوس نہیں ملتے بلکہ زوال کے ان دنوں سے اپنی خامیوں کا حساب لگاتے ہیں۔ اس بات کو اگر نگاہ میں رکھیں اور پاکستان کی تاریخ پر نظر کریں تو اس کے قیام کو صرف 68برس ہوئے ہیں۔

ان برسوں کے دوران ہم نے پا یا بہت کم اور کھو یا بہت زیادہ۔ اس مرحلے پر اپنی غلطیوں کو تسلیم کرنے کے بجائے ہم نے دوسروں کو دوش دیا اور ایک مستقل جھنجھلاہٹ کا شکار ہو گئے۔یہی وجہ ہے کہ ہمیں اپنے ارگرد وہ لوگ بڑی تعداد میں نظر آتے ہیں جو ناراض ہیں اور اپنی اس کیفیت کا بر ملا اظہار کرتے ہیں۔

ایک سیاسی جماعت کے سر براہ تمام زندگی کھیل کے میدان میں شہرت، دولت اور عزت سمیٹتے رہے۔ کھیل سے ریٹائر ہوئے تو اس یقین کے ساتھ سیاست کے میدان میں اترے کہ ان کے قدم رکھتے ہی 30,20اور40یا50برسوں سے سیاست کرنے والے سر تسلیم خم کریں گے اور الٹے قدموں اپنے اپنے گھروں کو لوٹ جائیں گے، پھر وہ ہوں گے اور ملک کا اعلیٰ ترین منصب ان کے سامنے ہاتھ باندھے کھڑا ہو گا۔

تاہم جب انھیں اندازہ ہوا کہ یہ وہ کھیل نہیں جہاں چوکے اور چھکے مار کر شہرت کمائی جاسکتی ہے تو وہ غصے سے بے حال ہوگئے۔ اس کے بعد سب ہی نے دیکھا کہ ملک میں کیا شوروغوغا بپا ہوا اور چند مہینوں کے اندر ہماری معیشت اور ساکھ کو کتنا شدید نقصان پہنچا۔ اس دوران ہم نے سیاست دانوں کی کیا دُرگت بنتے نہ دیکھی۔ یہی کہا گیا کہ یہ لوگ ملک کو لوٹ کر کھا گئے۔انھوں نے اربوں کھربوں کی جائیدادیں مغرب میں بنالیں۔ یہ الزامات جب ثابت نہ کیے جاسکے تو کہا گیا کہ ایک مہیب سازش ہو رہی ہے جس کے ذریعے ملک کے حصے بخرے کر دیے جائیں گے۔

ایسے ہی خدا جانے کتنے بیانیے ہم سب سن چکے۔  حسرت رہی کہ کبھی یہ بھی کہا جائے کہ ملک میں کچھ اچھا کام ہورہا ہے۔ مشکل یہ ہے کہ جب تک تک چیخ چیخ کر یہ نہ کہا جائے کہ برسراقتدار لوگ فریب دے رہے ہیں تو کوئی ٹی وی پروگرام نہ دیکھے گا۔ لوگوں کی مایوسی کو غصے میں نہ بدلا جائے‘ اس وقت تک کوئی نہ اینکر پرسن کی طرف متوجہ ہوگا‘ نہ سازش کی بات کرنے والوں کو اپنی مقبولیت میں اضافہ محسوس ہوگا۔ وقت گزرنے کے ساتھ ہماری یہ کیفیت سنگین تر ہوتی جا رہی ہے۔

وجہ اس کی بالکل صاف ہے۔ ہم اپنی غلطیوں کا ادراک اور اس کا اعتراف نہیں کرتے اور اس تلخ حقیقت کو تسلیم کرنے سے گریزاں رہتے ہیں کہ ہم غلط بھی ہوسکتے ہیں۔ دنیا آگے بڑھ رہی ہے۔ آس پاس کے ملک تیزی سے ماضی کی اپنی پالیسیوں پر نظرثانی کر کے انھیں تبدیل کر رہے ہیں۔ تنازعات کو حل کیا جارہا ہے۔ جو تنازعات پرانے اور مشکل ہیں یا جن پر ماضی کی حکومتوں نے انتہائی غیر لچک دار موقف اپنایا ہوا تھا اور جن کے فوری حل کی کوئی امید نہیں‘ انھیں پس پشت ڈال کر باہمی مفاد میں تجارت، سرمایہ کاری اور تعاون کو فروغ دیا جا رہا ہے۔

امریکا کے صدر بارک اوباما نے حال ہی میں ہندوستان کا ایک اور دورہ کیا۔ اس اہم دورے میں دونوں ملکوں کے درمیان اہم تجارتی اور اسٹرٹیجک معاہدے ہوئے۔ ہم نے روایتی طور پر بعض معاہدوں پر اپنے تحفظات کاا ظہارکیا اور اعلیٰ سطحی ملاقاتوں یا رابطوں میں امریکا کو اس بارے میں آگاہ بھی کیا۔

یہ بالکل ممکن ہے کہ امریکا ہمارے پڑوسی ملک پر زیادہ مہربان ہو یا اس پر عنایات کی برسات کی جارہی ہو اور ایسا کرم ہم پر بالکل نہ ہورہا ہو۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ اس صورتحال پر ہمیں کیا احتجاجی رد عمل کا مظاہرہ کرنا چاہیے یا اس امر پر غور کرنا چاہیے کہ ہمارے پڑوسی پر اس مہربانی اور عنایت کی وجہ کیا ہے؟ کیا ہم کو یہ بات ذہن میں نہیں رکھنی چاہیے کہ گزشتہ 60برس تک امریکا نے ہندوستان پر زیادہ توجہ نہیں دی تھی اس کی وجہ بھی تھی۔ ہندوستان تاریخی طور پر امریکا سے زیادہ ماضی کے سوویت یونین کی جانب زیادہ جھکاؤ رکھتا تھا۔

اس سے زیادہ اہم بات یہ تھی کہ ہندوستان کی معیشت میں بیرونی شراکت داری کے مواقعے بھی کم تھے۔ اس نے جب معیشت کے دروازے بیرونی دنیا کے لیے کھولے تب امریکا نے اس کی جانب دیکھنا شروع کیا۔ پچھلے 25برسوں کے دوران جب ہم آمریت کے شکنجے میں جکڑے ہوئے تھے، جہادیوں اور دہشت گردوں کی مہمان نوازیوں میں مصروف تھے تو ہندوستان غیرمعمولی تیزی کے ساتھ ترقی کی منازل طے کررہا تھا۔

ایک طرف ہم تھے جہاں اچھے اور برے دہشت گردوں کے موضوع پر بحث جاری تھی، اس امر پر مباحثے ہورہے تھے کہ آمریت اچھی ہے یا جمہوریت یا پھر اس نکتے پر فصاحت اور بلاغت کے دریا بہائے جارہے تھے کہ امریکا جو افغانستان میں’’پھنس‘‘ چکا ہے وہاں اس کی ناک کس طرح رگڑی جائے۔ بُرا لگے تو معاف فرمائیے گا کہ جب ہم یہاں ان موضوعات پر بڑی جانفشانی سے بحث ومباحثے میں مصروف تھے تو پڑوسی ملک میں اس نکتے پر بحث ہورہی تھی کہ چین کے ساتھ ماضی کی تلخیوں کو کیسے کم کیا جائے، امریکا کے ساتھ معاملات کو کیا شکل دی جائے، سالانہ پیداوار میں اضافے کے لیے کیا اقدامات کیے جائیں اور ملک کے اندر کھربوں روپے کے خرچ سے بڑی بڑی شاہراہیں، موٹرویز اور انفرااسٹرکچر کس طور جلد از جلد تعمیر کیاجائے۔

ان تمام باتوں کا نتیجہ یہ نکلا کہ آج امریکا اور ہندوستان باہمی معاشی مفاد کے دائرے میں اپنے سیاسی تعلقات کو مستحکم کررہے ہیں۔ دونوں ملکوں کو اپنے اپنے مفادات کا بھرپور ادراک ہے۔ امریکا جانتا ہے کہ اُسے ہندوستان کے کروڑوں خریداروں کی منڈی تک رسائی حاصل ہوگئی تو اس کی معیشت کساد بازاری سے باہر نکل آئے گی۔

اس لیے زیادہ وقت ضایع کیے بغیر آگے بڑھنا چاہیے۔ امریکی صدر کا مختصر عرصے کے دوران دو بار ہندوستان کا دورہ کرنا امریکا کی غیرمعمولی سنجیدگی کا مظہر ہے۔ ہم اپنی آنکھوں پر پٹیاں باندھ کر صرف یہی سوچ رہے ہیں کہ ہمارے خلاف بھیانک سازش تیار کی جارہی ہے یا پھر یہ گلہ اور شکایت ہے کہ امریکا نے اپنا مفاد پورا ہونے کے بعد ہم سے نگاہیں پھیر لی ہیں۔

ہمیں حقائق کی دنیا میں واپس آنا پڑے گا۔ ماضی میں ہم سے جو غلطیاں ہوئیں، ہم نے ربع صدی سے زیادہ کا انتہائی قیمتی وقت جس بے دردی سے برباد کیا‘ اب اس غلطی کا جواز تلاش کرنے کے بجائے ہمیں مستقبل کی طرف دیکھنا ہوگا۔ حقائق کو جھٹلانا اور مفروضوں کا سہارا لینا اپنے خلاف بھیانک سازش کے مترادف ہے۔

امریکا سے جب ’’ہندوستان نوازی‘‘ کی سرکاری سطح پر شکایت کی جاتی ہے تو وہ بڑے نرم لفظوں میں ہمیں بتاتے ہیں کہ آپ پریشان کیوں ہوتے ہیں۔ ہندوستان سے ہمارے تعلقات کی نوعیت الگ ہے اور آپ سے الگ۔ ہم دونوں میں سے کسی ملک کی قیمت پر دوسرے ملک سے تعلقات نہیں رکھتے۔ اطلاعات ہیں کہ مودی حکومت نے بھی جب امریکیوں سے پاکستان کے بارے میں بعض پالیسیوں کو تبدیل کرنے کی خواہش کا اظہار کیا تو انھیں بھی ایسا ہی جواب دیا گیا تھا۔

ہم ماضی کی نفسیات سے باہر نکلیں تو ہمیں معلوم ہوگا کہ آج ملکوں کے باہمی رشتے نظریات پر نہیں بلکہ اقتصادیات پر استوار ہوتے ہیں۔ اگر پچھلے 25برسوں میں ہندوستان نے تیزرفتار معاشی ترقی کے ذریعے 40کروڑ سے زیادہ صاحب حیثیت صارفین کو پیدا کیا ہے تو پھر کیا مغرب اورکیا مشرق، ہر جانب کے ملک اس کی طرف رخ کریں گے۔

وہاں جانا، کاروبار کرنا سراسر فائدے کا سودا ہے۔ ہندوستان کے برعکس ہم اپنی کارکردگی کا تجزیہ کریں تو یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ گزرے ہوئے 25برسوں میں ہم نے مڈل کلاس طبقہ پیدا نہیں بلکہ ختم کیا ہے۔ غربت کی لکیر سے نیچے پہلے 22فیصد اور اب 52فیصد لوگ زندگی بسر کرتے ہیں۔ توانائی خرچ کرنے میں ہم سب سے آگے اور اسے بچانے یا پیدا کرنے میں ہم سب سے پیچھے ہیں۔ ہمارے یہاں جس طاقت ور کا دل چاہے وہ آئین کو روند ڈالتا ہے اور ہم اس اقدام پر اسے داد دیتے ہیں۔

جو اربوں کماتے ہیں وہ ٹیکس نہیں دیتے۔ کچھ عرصے پہلے تک دہشت گرد ہر طرف دندناتے تھے، ان کی حمایت کرنے والوں میں بڑے بڑے نام شامل تھے۔ ملک اب کچھ سنبھلا ہے ورنہ دیوالیہ ہونے کے قریب پہنچ چکا تھا۔

غیرملکیوں کی بات چھوڑیں ‘ اپنے ملک میں ہم خود محفوظ نہیں۔ کرکٹ کھیلنے ہم دبئی جائیں، کاروباری ملاقاتیں بھی دبئی میں ہوں، چین جیسے ملک کا سربراہ ہمارے یہاں آنے کا ارادہ کرے تو دارالحکومت اسلام آباد پر چڑھائی کر کے اس کا دورہ منسوخ کرا دیا جائے۔ ایسے حالات میں یہ سمجھنا کہ امریکا اور یورپ کے سربراہ ہمارے یہاں آئیں گے اور ہم پر عنایت کی بارش کریں گے خام خیالی کے سوااورکیا ہے؟

دانش مندی کا تقاضہ ہے کہ جتنا جلد ممکن ہوسکے ہم سازش کے خود ساختہ مفروضوں سے نجات حاصل کر کے حقیقت پسندی کی دنیا میں واپس آجائیں۔ ہر معاملے میں ’’سازش‘‘ کے بجائے اسباب اپنے غلط اور خراب حالات میں ڈھونڈیں اور غلطیوں کے اعتراف کی جرأت پیدا کریں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔