خود ساختہ نمایندے

آفتاب احمد خانزادہ  بدھ 18 مارچ 2015

سولہویں صدی کے آغاز میں یورپ سیکولرازم سے روشناس ہوا، جس کے تحت پہلے سائنس پھر عمومی علم پھر سیاست، طاقت اور آخر میں کلچر آتا ہے جس کے ذریعے انھوں نے مذہبی انتہا پسندی سے چھٹکارا حاصل کر لیا، یوں سیکولر یونیورسٹی وجود میں آئی پھر سیکولر قوم یا ملک اور پھر سیکولر معاشرہ ۔

یہ دراصل ان کی ناکامی تھی جو زمین پر خود کو خدا کا نمایندہ قرار دیتے تھے اور جنہوں نے عقل و دانش پر پابندی عائد کر رکھی تھی جنہوں نے سوچ پر پہرے بٹھا رکھے تھے جو اپنے علاوہ کسی اور کو مذہب پر سوچ و بچار کا حق نہیں دیتے تھے اور جو صرف اپنے آپ کو حق اور باقی سب کو باطل سمجھتے تھے اور یہ ان لوگوں کی کامیابی تھی جو عقل کی حکمرانی پر یقین رکھتے تھے جو سوچو اور فکر کرو کے پجاری تھے پھر اس کے بعد آہستہ آہستہ پوری دنیا کے لوگ ان زنجیروں سے آزاد ہوتے چلے گئے جو انھیں مذہب کے نام پر پہنائی گئی تھیں۔

دوسری طرف جب ہم آج اپنے معاشرے پر نظریں دوڑاتے ہیں تو ہم پر وحشت ناک انکشاف ہوتا ہے کہ ہمارے معاشرے میں وہی سب کچھ ہو رہا ہے جو صدیوں قبل یورپ میں ہوتا تھا۔ آج ہمارے معاشرے میں بھی خدا کے خود ساختہ نمایندے گلی گلی میں پھر رہے ہیں جو مذہب کے ٹھیکیدار بنے ہوئے ہیں جو اختلاف پر موت کے پروانے جاری کر دیتے ہیں جو جنت اور دوزخ میں داخلے کے آرڈر لیے لیے پھرتے ہیں جو اپنی زبان سے نکلے ہر لفظ کو قانون کا درجہ دیتے ہیں۔

جو اپنے علاوہ باقیوں کو مسلمان ماننے کے لیے تیار ہی نہیں جو خود ہی مدعی ہیں خود ہی منصف ہیں خود ہی جلاد ہیں اور خو د ہی عدالت ہیں انھیں تعلیم کے نام پر جہالت پھیلانے کے لیے لامحدود اختیارات حاصل ہیں۔ ان کے پاس حوروں کا بہکاوا سب سے بڑا ہتھیار ہے منکر نکیر کے خوفناک قبری سوال نامے ہر وقت ان کی جیبوں میں موجود ہوتے ہیں۔ ایڈمنڈبرک کے الفاظ ہیں ’’کوئی جذبہ خوف سے زیادہ کسی دماغ کی عقل کی طاقت استعمال کرنے کی صلاحیت مفلوج نہیں کرتا۔‘‘

مذہبی انتہاپسند ہمیں جس خوف خدا کی ترغیب دیتے ہیں اس نے ہمیں منطق اور عقلیت کی طرف سے اندھا کر دیا ہے انتہاپسند خدا کی محبت، رحمتوں اور نعمتوں کو پیش نظر نہیں رکھتے۔ اس کے بجائے وہ آخرت میں عذاب کے خوف کی مسلسل تکرار کرتے ہیں جس کی وجہ سے ہم فکر و سوچ کی جانب نہیں جا سکتے جہاں عقل ہو گی وہاں انتہاپسندی نہیں ہو سکتی اور جہاں انتہاپسندی ہو گی وہاں عقل کا وجود نہیں ہو سکتا۔ اسی انتہاپسندی کی وجہ سے ہم مادی، معاشرتی تنزلی اور سماجی ثقافتی اور فکری طور پر رجعت پسندی کا شکار ہیں اور یہ ہی رجعت پسندی ہماری سماجی، سیاسی، معاشی، سائنسی ترقی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔

آئیں ہم ذرا اپنی 1400 سالہ تاریخ پر نظریں دوڑائیں تو ہم پر ایک خو شگوار زمانے کا انکشاف ہو گا جس میں مسلمان معاشی، سماجی، سیاسی، سائنسی ترقی میں دیگر قوموں کے مقابلے میں عروج پر تھے۔ اس وقت ہمارے معاشروں میں مذہبی انتہاپسندی، رجعت پسندی کو غلبہ حاصل نہیں تھا اس وقت معاشروں پرعقل کی حکمرانی قائم تھی۔

اسے ہماری بدقسمتی ہی کہا جائے گا کہ آج ہمارے معاشرے میں عقل چھپتی پھرتی ہے اور رجعت پسند، بوسید ہ خیالات دندناتے پھرتے ہیں لگتا ہے مولانا رومی نے ہمارے بارے میں ہی کہا تھا کہ ’’سجدہ رقص کرنے کی جگہ نہیں لیکن میں نے جہالت کو وہاں ناچتے ہوئے دیکھاہے۔‘‘ دنیا میں کوئی اور ملک ایسا نہیں ہے جسے ایسی الجھن درپیش ہے جیسی ہمیں۔ ایک طرف تو ہمیں مذہبی انتہاپسندی اور دہشت گردی کا سامنا ہے تو دوسری طرف ہم بے اختیاری، غربت، افلاس، کرپشن اور لوٹ مار کی آگ میں جھلس رہے ہیں۔

سوال پیدا ہوتا ہے کہ ہماری فکری خانقائیں اور عملی خانوادے کیوں بے چراغ ہیں۔ اس کے چراغ کیوں اجڑے پڑے ہیں کیوں عقل دوستوں کا کال پڑا ہوا ہے اور کیوں عقل دشمن دندناتے پھرتے ہیں آخر ہم کیوں اتنے بانجھ ہو چکے ہیں آج ہر جگہ رجعت پسند کیوں گھات لگائے بیٹھے رہتے ہیں کہ جہاں عقل و دانش کا کوئی چراغ جلے جھپٹ کر اس پر حملہ کر دیں کیوں آج جہالت کی تاریک کمین گاہیں آباد ہیں، کیوں ان میں اتنی چہل پہل ہے اور فکری خانقائیں کیوں اتنی اجڑی پڑی ہیں کہ انسان کا گزر ہو جائے تو اس پر وحشت اور دہشت طاری ہو جائے کیوں آج عقلیت پرستی، روشن خیالی کو کفر و بدعت سے تعبیر کیا ہوا ہے۔

کیوں ہمارے ذہنوں پر جہالت کا عذاب نازل ہو گیا ہے کیوں ہم عقل کو عقیدے کے زیر اثر رکھنے پر بضد ہیں کیوں اہل دانش و مفکر ین کو ملزم و جرم قرار دیا جا رہا ہے کیوں مخصوص لوگ ہمیں مسلمان ماننے کے لیے تیار نہیں ہیں کیوں ہماری عبادت کو شک کی نگاہوں سے دیکھا جاتا ہے۔ کیا مسجدوں، امام بارگاہوں، گرجا گھروں، معبدوں، مندروں میں خدا کی عبادت کرنے والے اسے پکارنے والے غلط ہو سکتے ہیں۔ کیا خدا کے سامنے اپنا ماتھا ٹیکنے والے گمراہ ہو سکتے ہیں کیا بدعتی ہو سکتے ہیں۔ کیا کافر ہو سکتے ہیں؟

آج ہمارے حالات پر دستوفسکی کے ناول The Possessed کاایک منظر یاد آ جاتا ہے ’’اس عالم میں کہ پکڑ دھکڑ اور محاسبے کا سلسلہ جاری ہے اور بے دینوں کو دہکتی ہوئی آگ کے شعلوں میں پھینکا جا رہا ہے۔

حضرت عیسیٰ زمین پر تشریف لاتے ہیں وہ تشدد کے طریقوں کی کھلی مذمت کرتے ہیں۔ اس کے جواب میں دین سے انحراف کا الزام لگا کر خود انھیں محتسب اعلیٰ کے آگے پیش کیا جاتا ہے۔ ان سے کہا جاتا ہے کہ اپنا دفاع کر نے کے لیے دلائل پیش کریں۔ حضرت عیسیٰ کہتے ہیں کہ تم مجھے نہیں جانتے میں ہی مسیحی مذہب کا بانی ہوں۔ محتسب اعلیٰ اس بات پر مناسب تعظیم بجا لاتا ہے اور ان کا شکریہ ادا کرتا ہے لیکن ساتھ ہی انھیں متنبہ کرتا ہے کہ مسیحیت کے معنی اب وہ ہیں جسے مسیحی کلیسا درست سمجھتا ہے ۔‘‘ والیٹر نے کہا تھا مذہبی تعصب جرم ہے اور اس کا علاج رواداری ہے ۔

مذہبی جنون تین طریقوں سے عدم رواداری کو جنم دیتا ہے، پہلی بات یہ کہ وہ دعویٰ کرتا ہے کہ میرا مذہب مطلق، مکمل اور آخری سچائی ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ میرے مذہبی عقیدے سے باہر سارے لوگ باطل، طاغوت اور قابل نفرت ہیں اور تیسری بات یہ کہ متذکرہ وجوہات کی بنیاد پر یہ لوگ دشمنوں کی صف میں شامل ہیں۔

یاد رہے ہم خود بھی اسی مرض مذہبی جنون کا بری طرح شکار ہیں عظیم فلسفی اپیکٹیٹس نے کہا تھا ’’ہمیں اپنے جسم سے ورم پھوڑے اور رسولیاں دور کر نے کی نسبت اپنے ذہن سے غلط خیالات خارج کرنے کی زیادہ فکر و کوشش کرنی چاہیے۔‘‘ اپیکٹیٹس کی کہی گئی بات میں ہمارے تمام مسائل اور عذابوں کا حل موجود ہے۔ بس دیکھنا یہ ہے کہ ہم اس بات کو کتنی جلدی سمجھتے ہیں ۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔