50 فیصد فنڈز خوردبرد ہونے کے باعث شہر میں نکاسی آب کا نظام تباہ ہوگیا

سید اشرف علی  بدھ 18 مارچ 2015
بیشتر علاقوں میں گٹرابل رہے ہیں سیوریج لائنیں ٹوٹ گئیں،ٹھیکوں میں صرف 3 فیصد منافع ملتا ہے، واٹر بورڈ کے افسران اورعملے کو60 فیصد کمیشن دیتے ہیں، ٹھیکیدار۔ فوٹو: فائل

بیشتر علاقوں میں گٹرابل رہے ہیں سیوریج لائنیں ٹوٹ گئیں،ٹھیکوں میں صرف 3 فیصد منافع ملتا ہے، واٹر بورڈ کے افسران اورعملے کو60 فیصد کمیشن دیتے ہیں، ٹھیکیدار۔ فوٹو: فائل

کراچی: ادارہ فراہمی و نکاسی آب کے افسران اور عملے نے 3 سال کے دوران کرپشن کے تمام ریکارڈ توڑ دیے ہیں اور نکاسی آب کیلیے مختص فنڈز کا70 فیصد کرپشن و ٹیکسز کی نذر ہوجاتا ہے۔

تفصیلات کے مطابق ادارہ فراہمی و نکاسی آب کراچی نے رواں مالی سال کیلیے گٹروں کی مرمت کیلیے 45 ملین اور سیوریج لائنوں کی صفائی کیلیے 22 ملین روپے مختص کیے ہیں جبکہ فراہمی آب اور نکاسی کی لائنوں کی مرمت کیلیے صرف 371 ملین روپے مختص کیے ہیں، ذرائع نے بتایا ہے کہ شہری حکومت کے دور میں معاملہ اس کے برعکس تھا 70فیصد فنڈز تعمیر و مرمت پر لگتے تھے اور صرف 30 فیصد کرپشن ہوتی تھی، ٹھیکیداروں سے کمیشن وصول کرنے میں واٹر بورڈ کا انفرااسٹرکچر اور پلاننگ کا محکمہ3 فیصد، محکمہ ٹینڈر ایک فیصد، محکمہ فنانس 2 فیصد، انٹرنل آڈٹ نصف فیصد، بلنگ ڈپارٹمنٹ ڈیڑھ فیصد، بجٹ آفس نصف فیصد، آڈٹ آفس 2 فیصد، ریونیو چیک ڈپارٹمنٹ 25 فیصد اور دیگر محکمے13فیصد حصہ وصول کررہے ہیں۔

تعمیر و مرمت اور سپلائی کے کاموں پر جنرل سیلز ٹیکس 16 فیصد اور انکم ٹیکس6 فیصد لگتا ہے، جنرل سیلز ٹیکس نان رجسٹرڈ ٹھیکیداروں سے 16فیصد اور رجسٹرڈ ٹھیکیداروں سے 5 فیصد لیا جاتا ہے، ٹھیکیداروں نے بتایا ہے کہ جنرل سیلز ٹیکس کی کٹوتی منصوبے کی لاگت سے ہوتی ہے جبکہ 6 فیصد انکم ٹیکس ہمارے منافع سے منہا کیا جاتا ہے اور ہمیں صرف 3 فیصد منافع ہوتا ہے جبکہ واٹر بورڈ کے افسران اور عملے کو 55 سے 60 فیصد کمیشن دینا پڑتا ہے، واٹر بورڈ میں اس وقت نکاسی کی لائنوں کی صفائی کیلیے بانسوں کی شدید قلت ہے۔

رواں مالی سال میں 2 کروڑ 20 لاکھ روپے بانسوں کی ترسیل کیلیے رکھے گئے ہیں تاہم فنڈز کا بڑا حصہ کرپشن کی نذر ہوجانے کے باعث بیشتر یونین کونسلوں میں کئی ماہ سے بانس ناپید ہیں، بانسوں کی قلت سے نکاسی آب کی چوک لائنوں کی صفائی نہیں ہورہی ہے اور بیشتر علاقوں میں گٹر ابل رہے ہیں ، کئی علاقوں میںگٹر ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں جبکہ ہزاروں گٹروں سے ڈھکن غائب ہیں۔

رواں مالی سال میں گٹروں کی مرمت اور ڈھکنوں کیلیے 4 کروڑ 45 لاکھ روپے فنڈز مختص کیے گئے تھے، یہاں بھی رشوت ستانی کے باعث شہریوں کی شکایات پر گٹروں کی مرمت اور گٹروں کے ڈھکنوں کی فراہمی نہیں ہورہی ، واٹر بورڈ کے قائم مقام ڈی ایم ڈی ٹیکنیکل سروسز جمیل اختر نے کہا ہے کہ واٹر بورڈ میں کرپشن نہیں ہورہی ، دستیاب فنڈز سے نکاسی آب کی لائنوں کی مرمت، گٹر کھولنے کے بانس اور گٹروں کے ڈھکن ضلعی دفاتر کو فراہم کیے جارہے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔