مصری خاتون 43 برس تک مرد کا روپ دھار کر اپنے گھر کی کفالت کرتی رہیں

ویب ڈیسک  بدھ 18 مارچ 2015
مجھے سڑکوں پر بھیک مانگنے سے زیادہ سخت محنت والے کام پسند تھے تاکہ میں اپنی بیٹی اور اس کے بچوں کے لئے پیسے کما سکوں، سیسا ابوداؤح  فوٹو: العربیہ ڈاٹ نیٹ

مجھے سڑکوں پر بھیک مانگنے سے زیادہ سخت محنت والے کام پسند تھے تاکہ میں اپنی بیٹی اور اس کے بچوں کے لئے پیسے کما سکوں، سیسا ابوداؤح فوٹو: العربیہ ڈاٹ نیٹ

قاہرہ: مصر میں خاتون نے شوہرکی وفات کے بعد 43 سال تک مرد کا روپ دھار کر اپنی بیٹی کی کفالت کرکے منفرد مثال قائم کردی جس پر انہیں مصری حکومت نے خراج تحسین پیش کرتے ہوئے ’’مثالی ماں‘‘ قرار دیا اور انہیں سالوں تک انتھک محنت کرنے پر ’’کفیل عورت‘‘ کا ایوارڈ دیا جارہا ہے۔

العربیہ ڈاٹ نیٹ کے مطابق سیسا ابو داؤح کے شوہر شادی کے کچھ عرصے بعد ہی چل بسے، جب ان کی بیٹی پیدا ہوئیں تو ان کے پاس کوئی ذریعہ معاش نہیں تھا، اپنا اور بیٹی کا پیٹ پالنے کے لئے سیسا کو گھر سے باہر نکلنا پڑا لیکن جلد ہی انہیں پتہ چل گیا کہ اس معاشرے میں اکیلی عورت کا کیا مقام ہے اور اس صورت حال نے اسے مرد کا روپ دھارنے پر مجبور کردیا تاکہ وہ اپنی بیٹی کے لئے روزی کما سکیں۔ اس دوران وہ کئی برسوں تک اینٹوں کے بھٹے پر مزدوری اور جوتے پالش کرنے جیسے کام کرتی رہیں۔

بیٹی جوان ہوئی توسیسا نے اس کے ہاتھ پیلے کردیئےاور یہ سوچ کر گھر بیٹھ گئیں کہ مشقت کے دن اب تمام ہوئے لیکن انہیں کیا پتہ تھا کہ ان کی آزمائش ابھی ختم نہیں ہوئی، بیٹی کی شادی کو کچھ عرصہ ہوا تھا کہ اس کا شوہر بھی بیماری کے باعث کمانے کے لائق نہ رہا، جس پر سیسا کو ایک مرتبہ پھر میدان میں اترنا پڑا کیونکہ اب اس پر صرف بیٹی اور داماد کی کفالت کی ذمہ داری ہی نہیں بلکہ اپنے نواسوں کا بوجھ بھی آن پڑا تھا۔

سیسا ابو داؤح کا کہنا ہے کہ انہیں سڑکوں پر بھیک مانگنے سے زیادہ مزدوری اور جوتے پالش کرنا پسند تھے تاکہ وہ اپنی بیٹی اور اس کے بچوں کے لئے رزق حلال کما سکیں، اسی وجہ سے انہوں نے خود کو مردوں کی بری نظروں اور روایات کی بھینٹ چڑھنے سے بچانے کے لئے ایک مرد کا روپ دھارنے کا فیصلہ کیا اور مردانہ کپڑے پہن کر مردوں کے شانہ بشانہ کام کرنے لگی۔ مصر کی حکومت نے بلند کردار اور باہمت سیسا کو ’’مثالی ماں‘‘ قرار دیتے ہوئے ’’کفیل عورت‘‘ کے اعزاز سے نوازنے کا اعلان کیا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔