دوسرے شاعروں کو پڑھا ہوتا تو منفرد شاعر نہ بنتا

حسان خالد  جمعرات 19 مارچ 2015
سرائیکی کے ہر دل عزیز شاعر شاکر شجاع آبادی سے مکالمہ۔ فوٹو: فائل

سرائیکی کے ہر دل عزیز شاعر شاکر شجاع آبادی سے مکالمہ۔ فوٹو: فائل

وہ موجودہ دور کے سرائیکی کے سب سے بڑے شاعر ہیں۔ کوئی انہیں سرائیکی زبان کا فیض احمد فیض کہتا ہے، تو کسی نے انہیں شاعر اعظم کا خطاب دے رکھا ہے۔ لیکن وہ خود کہتے ہیں، ’’میں فیض احمد فیض ہوں نہ کوئی دوسرا شاعر۔ میں شاکر شجاع آبادی ہوں۔ میری گزارش ہے کہ مجھے صرف شاکر شجاع آبادی کہا جائے۔ میں شاعر اعظم بھی نہیں ہوں۔ میری شاعری کا سفر جاری ہے۔ تاہم میری خواہش ضرور ہے کہ میں شاعر اعظم بھی بنوں۔‘‘

آج سے 30 برس قبل جب انہوں نے شاعری کا آغاز کیا تو دوست احباب کہتے تھے، ’’ہزاروں شاعر آئے اور چلے گئے۔ تم بھی ان کی بھیڑ میں گم ہو جاؤ گے اور کسی کو تمھارا نام بھی یاد نہیں ہو گا۔‘‘ شاکر شجاع آبادی اس وقت کو یاد کرتے ہوئے بتاتے ہیں، ’’یہ بات کہنے والوں میں میرا سگا بھانجا بھی شامل تھا، جس کا نام ماسٹر ظفر جاوید ہے۔ میں ان دوستوں کو اس وقت بھی کہتا تھا کہ دیکھنا ایک دن معروف شاعر بنوں گا۔ آج وہ لوگ میری شہرت دیکھ کر بہت خوش ہیں اور یہ باتیں یاد کرتے ہیں۔‘‘

ان کے خاندان میں پہلے کسی نے شاعری نہیں کی۔ انہوں نے کسی شاعر کی شاعری پڑھی بھی نہیں تھی۔ ریڈیو پر کچھ شعراء کا کلام سنا ہوا تھا۔ وہ کہتے ہیں، ’’اگر میں نے دوسرے شعراء کو پڑھا ہوتا، میں منفرد شاعر نہ ہوتا۔ میری انفرادیت کی وجہ شاید یہی ہے کہ میری شاعری میرے ذاتی غور و فکر، مشاہدے، تجربے اور تخیل کی پیداوار ہے۔‘‘ شاکر شجاع آبادی فطری شاعر ہیں، جنہیں قدرت نے شاعری کی بے بہا صلاحیتیں دے کر اس دنیا میں بھیجا ہے۔ وہ کہتے ہیں، ’’اس میں کوئی شک نہیں کہ شاعری کی صلاحیت مجھے قدرت کی طرف سے ودیعت ہوئی ہے۔ لیکن میں نے اشعار موزوں کرنے کے لئے اپنا خون پسینہ بہایا ہے۔ میں نے دن رات محنت کر کے اللہ تعالیٰ کی عطا کی ہوئی نعمت کا بھرپور استعمال کیا ہے۔ اگر میں اللہ تعالیٰ کی عطا کی قدر نہ کرتا، خطاوار اور ناشکرگزار ہوتا۔‘‘

شاکر شجاع آبادی کی شاعری میں محبت کے لطیف جذبات بھی ملتے ہیں اور ظلم کے خلاف بغاوت کا درس بھی۔ وہ چاہتے ہیں کہ لوگ ہاتھ پر ہاتھ دھر کر نہ بیٹھے رہیں، بلکہ جہد مسلسل سے اپنی تقدیر خود بنائیں۔ وہ لسانی اور علاقائی تعصب کی بھرپور مذمت کرتے ہیں۔ کہتے ہیں، ’’مجھ میں کسی قسم کا تعصب نہیں ہے۔ میں نے اپنی شاعری میں ٹھیٹھ سرائیکی الفاظ کے بجائے آسان عام فہم الفاظ استعمال کیے ہیں، تاکہ دوسری زبانیں بولنے والے بھی میری شاعری سمجھ سکیں۔ زبانیں سب اچھی ہوتی ہیں، لیکن مادری زبان میٹھی ہوتی ہے۔ میں نے سرائیکی کے علاوہ دوسری زبانوں میں بھی شاعری کی ہے، میری سب لوگوں سے درخواست ہے کہ وہ ہر قسم کے تعصب سے چھٹکارہ حاصل کریں۔‘‘

شاکر شجاع آبادی کہتے ہیں،’’میں ظلم اور انتہا پسندی کے خلاف ہوں، میری ہمدردی مظلوم کے ساتھ ہے، چاہے اس کا کسی بھی طبقے یا عقیدے سے تعلق ہو۔ میں مختلف مذاہب اور فرقوں سے تعلق رکھنے والے لوگوں کا احترام کرتا ہوں۔ کوئی بھی شخص اپنا نقصان نہیں چاہتا، جس کو جو صحیح لگتا ہے، وہ وہی عقیدہ اختیار کرتا ہے۔ میں انہیں روکنے والا کون ہوتا ہوں۔ میں اس لئے مسلمان نہیں ہوں کہ میں مسلم گھرانے میں پیدا ہوا ہوں، میں نے تحقیق اور غوروفکر کے بعد اس دین کو اختیار کیا ہے۔‘‘

محبت کے بارے میں ان کا کہنا ہے،’’محبت ضروری جذبہ ہے، یہ ہر بندہ کرتا ہے۔ میں سمجھتا ہوں پیار، محبت اور عشق میں فرق ہے۔ پیار ہر پیاری چیز سے ہو سکتا ہے اور کیا بھی جاتا ہے۔ محبت ایک فرد کے ساتھ ہوتی ہے۔ محبت کی نہیں جاتی بلکہ ہو جاتی ہے، جس سے محبت ہو جائے، آدمی چاہتا ہے کہ وہ بھی اس سے محبت کرے۔ جبکہ عشق، محبت اور وفا تو کرتا ہے، لیکن اس کے جواب میں محبت اور وفا نہیں مانگتا۔ میں ہرجائی ہوں، میں نے کئی بار محبت کی ہے۔ لیکن بچپن میں کی جانے والی محبت اب بھی دل میں زندہ ہے۔‘‘

شاکر شجاع آبادی کے مطابق،’’وارث شاہؒ، بلھے شاہؒ، خواجہ غلام فریدؒ، پیر مہر علی شاہؒ اور سلطان باہوؒ یہ سب بہت بڑے بزرگ اور مبلغ تھے، تصوف میں ان کا بڑا نام ہے، مگر شاعری کی حیثیت ثانوی ہے۔ ہو سکتا ہے لوگوں کو میری یہ رائے اچھی نہ لگے۔ ان بزرگوں کے عقیدت مند زیادہ تر ان کا کلام پڑھتے ہیں۔ میاں محمد بخشؒ کے کچھ اشعار اچھے ہیں۔ گولڑہ شریف کے پیر نصیر الدین نصیرؒ کو اچھا شاعر سمجھتا ہوں۔ ان سے ملاقات تو نہیں ہوئی، لیکن میں نے ٹی وی پر ان کا کلام سنا ہے۔ وہ بھی میری شاعری کو پسند کرتے تھے، انہوں نے مختلف لوگوں کے ذریعے مجھے سلام بھی بھجوائے۔‘‘

وہ سرائیکیوں کی پسماندگی کا ذمہ دار ان کی اپنی غفلت، اور تعلیم کی کمی کو ٹھہراتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں: ’’ہمارے ہاں خاص طور پر لڑکیوں کو اچھی تعلیم دلانے کا رجحان نہیں ہے۔ میں سمجھتا ہوں لڑکے اور لڑکیاں، دونوں کی تعلیم پر بھرپور توجہ دینے کی ضرورت ہے، دونوں میں کوئی امتیاز نہیں برتنا چاہیے۔ تب ہی ہم اس پسماندگی سے باہر نکل سکتے ہیں۔‘‘

سرائیکی صوبہ کے متعلق کہتے ہیں،’’نیا صوبہ ہمارے ہاں بسنے والے سرائیکیوں اور غیرسرائیکیوں کی یکساں ضرورت ہے۔ انتظامی بنیاد پر پنجاب میں ایک اور صوبہ بنانا چاہیے، جس کا نام ’’سرائیکستان‘‘ ہو۔ بلوچستان، پنجاب اور سندھ میں بھی دوسری قومیتوں کے لوگ رہتے ہیں، ان کے یہ نام ہو سکتے ہیں، تو ہمارے علاقے پر مشتمل نئے صوبے کا نام ’’سرائیکستان‘‘ کیوں نہیں ہو سکتا۔ اس کا دارالحکومت ملتان اور بہاولپور کے درمیان کسی جگہ بنایا جا سکتا ہے۔ بہرحال نئے صوبے کا انتظامی مرکز جو بھی ہو، یہ بننا ضرور چاہیے۔‘‘

ان کے شاگرد بے شمار ہیں، انہیں سب کے نام بھی یاد نہیں۔ عزیز ترین شاگردوں میں نذر فرید بودلہ کا نام لیتے ہیں، جو بزم شاکر پاکستان نامی تنظیم کے چیئرمین بھی ہیں، یہ تنظیم مقامی شعراء کو متعارف کرانے کے لئے مختلف پروگراموں کا انعقاد کرتی ہے۔ شاکر شجاع آبادی کی علالت اور معاشی مسائل کی وجہ سے ان کے بچوں کی تعلیم تعطل کا شکار رہتی ہے۔ وہ چاہتے ہیں کہ بچوں کو ان کے نام کی محتاجی نہ ہو، بلکہ وہ اپنا نام خود پیدا کریں۔ کھانے میں انہیں ساگ پسند ہے، پھل وہ اچھا لگتا ہے جو آسانی سے کھا سکیں۔ کرکٹ کے شیدائی ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ ہسپتال میں ان کے کمرے میں ٹی وی لگوا دیا جائے، تاکہ ورلڈکپ کے باقی ماندہ میچ دیکھیں اور حالات حاضرہ سے باخبر رہ سکیں۔ ان کی یہ خواہش آگے پہنچائی گئی، جس پر فوری طور پر ہامی بھرنے کے باوجود تاحال عمل نہیں ہوا۔

تو کیا ہم اپنے شاعر کو یہ چھوٹی چھوٹی خوشیاں اور آسانیاں بھی مہیا نہیں کر سکتے۔ یہ شاعر تو عوام کے دلوں میں زندہ ہے اور زندہ رہے گا، حکومت کو بھی چاہیے کہ وہ اس شاعر کی صحیح معنوں میں خدمت کر کے اپنے زندہ ہونے کا ثبوت دے۔ شاعر، جس نے پسماندہ اور مجبور لوگوں کے جذبوں کی سچی ترجمانی کی ہے، کیا وہ اس بات کا بھی مستحق نہیں ہے کہ اس کا بیرون ملک علاج کرایا جائے۔ کیا زندگی کے اس مرحلے پر بھی تھوڑی سی آسودگی اس کے حصے میں نہیں آئے گی؟ یہ ہم سب کے لئے سوچنے کا مقام ہے۔ شاعر نے کہا تھا:

جیویں عمر نبھی ہے شاکر دی، ہک منٹ نبھا پتا لگ ویندے

(جیسے شاکر نے پوری زندگی گزاری ہے، اس طرح چند گھڑیاں ہی بِتا کر دیکھ لو، تمھیں معلوم ہو جائے گا کہ یہ کتنی مشکل زندگی ہے۔)

بیماری اور علاج کا احوال

شاکر شجاع آبادی کو Dystonia کا عارضہ لاحق ہے، جس میں جسم کے کچھ اعضاء کی حرکات و سکنات پر کنٹرول ختم ہو جاتا ہے۔ ڈاکٹروں نے علاج کے لئے انہیں لاہور جنرل ہسپتال کے شعبہ نیورو سرجری میں ریفر کیا تھا۔ وہ تقریباً دو ہفتے سے اس ہسپتال میں زیر علاج ہیں۔ فی الحال ادویات کا سلسلہ چل رہا ہے، جس کے بعد آپریشن کا مرحلہ آئے گا۔ ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ آپریشن کے بعد بھی بہتری کا امکان 40 سے 50 فیصد ہے، اس کے علاوہ دماغ کے آپریشن سے صورتحال بگڑ بھی سکتی ہے۔ ڈاکٹروں کی کوشش ہے کہ ادویات سے ہی ان کی حالت میں بہتری آ جائے اور آپریشن کی نوبت نہ آئے۔ ڈاکٹروں کے مطابق اطمینان کی بات یہ ہے کہ اس بیماری کے باوجود شاکر شجاع آبادی ذہنی طور پر چاق و چوبند ہیں۔

شاکر شجاع آبادی خود بھی یہی کہتے ہیں کہ ادویات سے ہی ان کی طبعیت سنبھل جائے تو اس سے اچھی کوئی بات نہیں۔ لیکن وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ گذشتہ دو ہفتے سے ادویات کے استعمال کے باوجود انہیں ذرہ برابر افاقہ محسوس نہیں ہو رہا۔ انہیں بہاولپور کے ڈاکٹرز نے بتایا ہے کہ امریکہ میں اس بیماری کا علاج موجود ہے۔ شاکر شجاع آبادی کہتے ہیں، ’’میری بس اتنی درخواست ہے کہ اگر میڈیکل بورڈ یہ سمجھتا ہے کہ میرا علاج امریکہ میں احسن طریقے سے ہو سکتا ہے تو مجھے اس رپورٹ کے ساتھ امریکہ ریفر کر دیا جائے۔

حکومت اخراجات برداشت نہیں کرسکتی، تو میرے دوست اجتماعی طور پر امریکہ میں علاج کے اخراجات برداشت کر لیں گے۔ مجھے حکومت سے کوئی شکایت نہیں ہوگئی۔‘‘شاکر شجاع آبادی بات کو اچھی طرح سن اور سمجھ لیتے ہیں، لیکن ان کو بولنے میں دشواری ہوتی ہے۔ ان کے صاحبزادے نوید شاکر اور شاگرد نذر فرید بودلہ ان کا جواب سن کر آگے پہنچاتے ہیں۔ اگر وہ جواب سے مطمئن ہوں تو خاموش رہتے ہیں، ورنہ نفی میں سر ہلاتے ہوئے کاغذ پر مارکر سے لکھ کر اپنا مافی الضمیرسمجھاتے ہیں۔

لاہور جنرل ہسپتال میں علاج کیلئے انہیں پنجاب حکومت اور ایک پرائیوٹ ڈونر کا تعاون حاصل ہے۔ ان کی عیادت کرنے والے حکومت پنجاب کے نمائندوں میں زعیم قادری، خواجہ سعد رفیق اور سیکرٹری ہیلتھ شامل ہیں۔ ان کی خبرگیری کیلئے معروف صحافی ضیاء شاہد اور معروف اینکرپرسن سہیل وڑائچ بھی تشریف لائے۔ شاکر شجاع آبادی کہتے ہیں، ’’شجاع آباد سے کسی سیاستدان نے فون پر بھی میری خیریت دریافت نہیں کی، لیکن ان سیاستدانوں نے مقامی طور پر جھوٹی خبریں چھپوائی ہیں کہ وہ میری خیر خبر رکھ رہے ہیں اور مجھ سے رابطے میں ہیں، حالانکہ ایسی کوئی بات نہیں۔‘‘

شاکر شجاع آبادی لاہور جنرل ہسپتال کے وارڈ 17، کمرہ نمبر 11میں زیر علاج ہیں۔ ان کی خیریت دریافت کرنے کے لئے ان کے بیٹوں نوید شاکر (0305-3560127) اور ولیدشاکر (0305-6973651) سے رابطہ کیا جا سکتا ہے۔

http://express.pk/wp-content/uploads/2015/03/Shakir.jpg

سفر زیست

1958ء میں پیدا ہونے والے شاکر شجاع آبادی کا اصل نام محمد شفیع ہے۔ پیدائش کے کچھ دنوں بعد ہی ٹائیفائیڈ بخار میں مبتلا ہو گئے اور پھر آئندہ زندگی میں انہیں صحت کے مختلف مسائل کا سامنا رہا۔ پرائمری تک تعلیم حاصل کرنے کے بعد وہ فکر معاش میں غلطاں ہو گئے۔ انہوں نے مختلف اوقات میں دکانداری کی، سبزی بیچی اور چوکیداری کے فرائض بھی سرانجام دئیے۔ گائیکی کا شوق رکھنے والے شاکر شجاع آبادی کو جب اس میدان میں خاطرخواہ کامیابی حاصل نہ ہوئی، تو انہوں نے اپنے اندر چھپے شاعر کو دریافت کیا۔ 1986ء میں بحیثیت شاعر وہ عوامی سطح پر متعارف ہوئے، جب انہوں نے ایک مشاعرے میں اپنے اشعار پڑھے۔ اس کے بعد مختلف مشاعروں میں بھرپور پذیرائی کا سلسلہ چل نکلا، اور 90ء کی دہائی کے آغاز تک وہ سرائیکی شاعری کی جانی پہچانی آواز بن چکے تھے۔

1994ء میں بچپن سے لاحق بیماری شدید صورت اختیار کر گئی، جس کی وجہ سے بولنے اور جسم کی حرکات و سکنات میں دشواری کا سامنا کرنا پڑا۔ تاہم اس کے بعد بھی وہ مشاعروں میں شرکت کرتے رہے، جہاں ان کے شاگرد، ان کی شاعری کو پڑھ یا گا کر سناتے تھے۔ 2004ء میں فالج کی وجہ سے ان کے جسم کا ایک حصہ مفلوج ہو گیا، جس کی وجہ سے مشاعروں میں شرکت کا سلسلہ بتدریج ختم ہو گیا ہے۔

شاکر شجاع آبادی کی شادی1991ء میں ہوئی۔ ان کے ہاں تین بیٹیاں اور دو بیٹے نوید شاکر، ولید شاکر پیدا ہوئے۔ ایک بیٹی کا انتقال ہو گیا ہے۔ سرائیکی کے علاوہ انہوں نے پنجابی، میواتی، رانگڑی اور اردو میں شاعری کی۔ ان کے درجن بھر چھوٹے بڑے شعری مجموعے منظر عام پر آ چکے ہیں، جن میں سے چند کے نام یہ ہیں: پیلے پتر، لہو دا عرق، پتھر موم، منافقاں توں خدا بچاوے، گلاب سارے تمھیں مبارک۔ 2007ء میں حکومت پاکستان کی طرف سے ’پرائیڈ آف پرفارمنس‘ سے نوازا گیا۔ اس کے علاوہ مختلف پلیٹ فارمز سے انہیں درجنوں اعزازات مل چکے ہیں۔ ہر گزرتے دن کے ساتھ ان کی شاعری کی مقبولیت میں اضافہ ہو رہا ہے۔ ان کی شاعری نے مختلف قومیتوں اور طبقوں کے لوگوں کو یکساں طور پر متاثر کیا ہے۔ ان کے مداحوں میں عوام و خواص دونوں شامل ہیں، جو دنیا بھر میں پھیلے ہوئے ہیں۔

شجاع آبادی کیسے بنے؟

شاکر میرا تخلص ہے۔ میری پیدائش لودھراں کے ساتھ واقع ایک گاؤں میں ہوئی۔ شجاع آباد کی بستی مٹھو کے ساتھ ایک گاؤں سے میں نے پرائمری تک تعلیم حاصل کی۔ اس کے بعد ہم شجاع آباد میں ہی راجہ رام، ظریف شہید اسٹیشن کے علاقے میں نقل مکانی کر گئے۔ جب شاعر کی حیثیت سے میری مقبولیت بڑھنے لگی تو بستی مٹھو اور راجہ رام دونوں علاقوں کے لوگوں میں جھگڑا شروع ہو گیا۔ دونوں طرف کے لوگ اصرار کرنے لگے کہ میں اپنے نام کی نسبت ان کے علاقے سے جوڑوں۔ اس پر میں نے لوگوں کو سمجھایا کہ دونوں علاقے تحصیل شجاع آباد میں آتے ہیں، اس لیے میں اپنے نام کے ساتھ شجاع آبادی لکھا کروں گا۔ اس فیصلے سے دونوں علاقوں سے تعلق رکھنے والے دوست احباب مطمئن ہو گئے۔

سجھاول: شاعری کی نئی صنف

میں نے غزل، دوہڑا، قطع، کافی اور گیت کی شعری اصناف میں طبع آزمائی کی ہے۔ ذاتی طور پر غزل زیادہ پسند ہے۔ اس کے علاوہ میں نے شاعری میں ایک نئی صنف ’’سجھاول‘‘ بھی متعارف کرائی ہے، جو جاپان کی ’’ہائیکو‘‘ کے بعد شاعری میں تازہ ترین صنف ہے۔ مجھے خوشی ہے کہ اب شاعری میں تازہ ترین صنف متعارف کرانے کا اعزاز پاکستان کے پاس ہے۔ یہ صنف عوام میں بہت مقبول ہے۔ دوسرے شعراء نے بھی اس پر طبع آزمائی کی ہے۔ سجھاول کا ایک نمونہ یہ ہے:

سجھ ابھرے تاں روٹی منگن، روندے روندے دیگر ڈھلے
ماں شودی پئی لارے لالا، بال سماوے ٹالھی تلے

ناں کوئی کوٹھا ناں کوئی چھپری، لگے پالا بھاہ نہ بلے
رات انھاں دی کیویں نبھسی، سوچ وچار اچ چیتا رلے

دیگر ڈھلے ٹالھی تلے، بھاہ ناں بلے، چیتا رلے
بُکھے بال دے سامنے شاکر، شالا اٹا کوئی ناں ملے

(ترجمہ: سورج طلوع ہونے کے ساتھ ہی بچے روٹی مانگنا شروع کرتے ہیں اور روتے روتے غروب آفتاب کا وقت ہو جاتا ہے۔ بیچاری ماں بچوں کو جھوٹے دلاسے دے دے کر شیشم کے درخت کے نیچے سلانے کی کوشش کرتی ہے۔ کوئی کمرہ ہے، نہ جھونپڑی۔ سردی لگتی ہے، لیکن جلانے کے لئے آگ تک میسر نہیں۔ ایسے میں رات کیسے گزرے گی، یہ پریشانی دماغ کو کھائے جاتی ہے۔ شیشم کے درخت کے نیچے دن ڈھل رہا ہے، آگ بھی نہیں جل رہی، اور یہ فکرمندیاں دماغ کو چاٹ رہی ہیں۔ بھوکے بچوں کے سامنے شاکر، اللہ کرے کوئی بھی آٹا نہ گوندھے۔)

کچھ کرکٹ کے بارے میں

کرکٹ میں نے کھیلی تو نہیں، لیکن دیکھنے کا بہت شوق ہے۔ پہلے ہاکی پسند تھی، لیکن جب سے اس کھیل میں ہماری ٹیم زوال کا شکار ہوئی ہے، میں نے اسے دیکھنا چھوڑ دیا۔ ہر ملک کی ٹیم میں میرے فیورٹ کھلاڑی موجود ہیں۔ انضمام الحق میرے پسندیدہ کرکٹر ہیں۔ موجودہ کھلاڑیوں میں مصباح الحق پسند ہیں، لوگ ان کے بارے میں جو مرضی کہیں، لیکن میں انہیں سمجھ دار کپتان سمجھتا ہوں۔ سرفراز احمد اگر کسی میچ میں پرفارم نہیں کرتے، تب بھی انہیں مستقل طور پر ٹیم کا حصہ ہونا چاہیے۔

سابق کھلاڑیوں میں سے مجھے وسیم اکرم، عمران خان، عامر سہیل، سعید انور اور بالخصوص عبدالرزاق پسند ہیں۔ میری آفریدی سے گزارش ہے کہ وہ ون ڈے میں تیز ترین سنچری کا گنوایا ہوا اپنا ریکارڈ دوبارہ حاصل کریں۔ رانا نویدالحسن، عمران نذیر، محمد عامر اور سلمان بٹ کو بھی ٹیم میں دوبارہ موقع دینا چاہیے، تاکہ یہ ٹیلنٹ ضائع نہ ہو۔ دوسری ٹیموں کے کھلاڑیوں میں ویرات کوہلی، سنگاکارا، براوؤ، کولنگ وڈ، محموداللہ، ویٹوری، بریٹ لی، ڈی کاک اور گرانٹ فلاور پسندہیں۔

گلوکاری اور سینمابینی

میں گلوکار بننا چاہتا تھا، لیکن اس میدان میں مجھے کامیابی حاصل نہ ہوئی۔ کلاسیکل گائیکی سننے کا بہت شوق تھا۔ ریڈیو پر اس حوالے سے پروگرام سنا کرتا تھا۔ منی بیگم کی گلوکاری پسند تھی۔ سرائیکی گلوکاروں میں مجھے ایک غیر معروف گلوکار اشرف خان پسند ہیں، جن کا تعلق کروڑ پکا سے ہے۔ منصور ملنگی کے بعد انہوں نے مجھے متاثر کیا ہے۔

کسی زمانے میں، میں نے ایک سرائیکی ڈرامے میں بھی کام کیا تھا، لیکن یہ بہت پرانی بات ہے۔ بہاولپور میں کام کے دوران میں اکثر فلمیں دیکھنے سینما جایا کرتا تھا۔ پہلی فلم وحید مراد کی ’’سالگرہ‘‘ دیکھی۔ سلمی آغا کی فلم ’’نکاح‘‘ بھی یاد ہے۔ پاکستانی آرٹسٹوں میں وحید مراد، محمد علی، ندیم، جاوید شیخ، شبنم، زیبا وغیرہ پسند ہیں۔ بالی وڈ میں امیتابھ بچن میرے پسندیدہ اداکار ہیں۔ ہندوستانی اداکارائیں بھی پسند ہیں، لیکن مجھے ان کے نام یاد نہیں۔

غزل

فکر دا سجھ اُبھردا ہے سُچیندیں شام تھی ویندی
خیالاں وچ سکون اجکل گُلیندیں شام تھی ویندی

انھاں دے بال ساری رات روندن بکھ توں سمدے نی
جنھاں دی کہیں دے بالاں کوں کھڈیندیں شام تھی ویندی

او جہڑا لیڈر اہدا ہا لٹیروں کوں سزا ڈیساں
لٹیریاں دے مخالف کوں لٹیندیں شام تھی ویندی

کڈاہیں تاں اے ڈکھ ٹلسن کڈی تاں سکھ دے ساہ ولسن
پلا خالی خیالاں دے پکیندیں شام تھی ویندی

غریباں دی دعا یارب خبر نی کن کریندا ہیں
سدا ہنجواں دی تسبی کوں پھریندیں شام تھی ویندی

میڈا رازق رعایت کر نمازاں رات دیاں کر ڈے
جو روٹی شام دی پوری کریندیں شام تھی ویندی

میں شاکر بکھ دا ماریاں ہاں مگر حاتم توں گھٹ کائنی
قلم خیرات میڈی ہے چلیندیں شام تھی ویندی

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔