ہمارا ادب آج بھی ترقی پسند سوچ کے زیر اثر ہے

اقبال خورشید  جمعرات 19 مارچ 2015
افسانہ نگار، نقاد اور سہ ماہی ’’روشنائی‘‘ کے مدیر، احمد زین الدین کی کہانی۔ فوٹو: فائل

افسانہ نگار، نقاد اور سہ ماہی ’’روشنائی‘‘ کے مدیر، احمد زین الدین کی کہانی۔ فوٹو: فائل

’’میری کہانی معاشرے میں پھیلے سوالوں کا جواب تلاش کرنے کی کوشش ہے۔ سوال، جو میری روح کو مضطرب رکھتے ہیں۔ دُکھ کی چادر اوڑھے جو کچھ دیکھا، اُسے قارئین کو دِکھانے کی سعی کرتا ہوں۔‘‘

یہاں پہنچ کر وقفہ لیا۔ کچھ لمحے تفکر میں گزرے۔ پھر کہا،’’غور و فکر کے درمیان ایک لمحہ ایسا بھی آتا ہے، جب خیال بولنے لگتا ہے، کہانی خود کو بیان کرنے لگتی ہے۔ یہ کیفیت بے ساختہ ہوتی ہے۔ اس لمحے کو گرفت میں لانا تخلیق کار کا کمال ہے۔ ہر رائٹر کی طرح یہ کیفیت مجھ پر بھی بارہا طاری ہوئی۔ جب کبھی یہ لمحہ گرفت میں آیا، کہانی تخلیق ہوئی ہے۔‘‘

یہ ستھری نکھری باتیں احمد زین الدین کی ہیں۔ افسانہ نگاری اُن کا بنیادی حوالہ، مگر نمایاں ترین کارنامہ سہ ماہی ’’روشنائی‘‘ ٹھہرے گا۔ 2001 میں پیشہ ورانہ ذمے داریوں سے نمٹ چکے، تو یہ سلسلہ شروع کیا۔ ہر پرچے میں گوشے کی طرح ڈالی۔ مقصد معتبر شخصیات کو اُن کی حیات میں خراج تحسین پیش کرنا تھا۔ مواد کے حصول میں مشکلات، مالی مسائل؛ رکاوٹیں تو کئی آئیں، پر ہمت نہیں ہاری۔ 60 شمارے آچکے ہیں۔ 61 ویں کی آمد آمد ہے۔ یہ افسانہ نمبر ہوگا۔ گذشتہ چند ماہ سے امراض نے گھیر رکھا ہے، سو معروف افسانہ نگار، اے خیام آخری مراحل میں اِس نمبر کی دیکھ ریکھ کر رہے ہیں۔ کہتے ہیں،’’سہ ماہی ’روشنائی‘ کے اجرا کا مقصد ادب کی خدمت کرنا اور لکھنے والوں کی راہ نمائی تھی۔ جب تک زندہ ہوں، پرچا نکلتا رہے گا۔‘‘

ادب میں وہ ترقی پسند نظریے کے قائل ہیں۔ یقین ہے کہ ادب بنا کسی نظریے کے تخلیق نہیں کیا جاسکتا۔ زور دے کر کہتے ہیں؛ ہمارا ادب آج بھی ترقی پسند سوچ کے زیر اثر ہے۔ تنقید کے میدان میں بھی اِسی مکتبۂ فکر سے رشتہ۔ جدیدیت اور مابعد جدیدیت نے اُن کے بہ قول، اردو پر دیر پا اثرات مرتب نہیں کیے۔

کچھ بات کتابوں کی ہوجائے: ’’دریچے میں سجی حیرانی‘‘ افسانوی مجموعہ۔ سن اشاعت؛97ء۔ انتساب بڑے بھائی، محی الدین صدیقی اور شریک حیات، حمیدہ خاتون کے نام۔ ’’رنگ شناسائی‘‘ تنقید اور شخصی خاکوں کا مجموعہ۔ 2007 میں ’’کہانیوں کی کہکشاں‘‘ منظرعام پر آئی۔ یہ جنوبی ایشیا اور دیگر زبانوں کے ہم عصر ادیبوں کی کہانیوں کے تراجم پر مشتمل ہے۔ ’’حرفِ پذیرائی‘‘ تنقیدی مضامین کا مجموعہ۔ سن اشاعت؛ 2009۔ ’’چہرہ چہرہ کہانیاں‘‘ خاکوں پر مشتمل۔ ’’اظہار کے زاویے‘‘ فکائیہ اور متفرق مضامین۔ ’’دھند میں لپٹے خواب‘‘ افسانوں کا تازہ مجموعہ۔ کتاب ’’حیرانی کی منزلیں‘‘ ان سے متعلق لکھے مضامین کا احاطہ کرتی ہے، جسے شفیق احمد شفیق اور مشتاق اعظمی نے مرتب کیا۔ پبلشر بھی ہیں۔ اُن کے ادارے ’’زین پبلی کیشنز‘‘ کے تحت اب تک تیس کُتب شایع ہو چکی ہیں۔

صحافت بھی ایک حوالہ۔ ڈھاکا کے زمانے میں روزنامہ ’’پاسبان‘‘ میں جُزوقتی سب ایڈیٹر رہے۔ وہاں ریڈیو پاکستان میں بہ طور نیوزریڈر اور مترجم وقت گزرا۔ فلمی ہفت روزہ ’’چترالی‘‘ سے بھی وابستہ رہے۔ اِس اخبار کے لیے سوفیا لارین اور کرسٹن کیلر کی سوانح عمری کا ترجمہ کیا۔ ’’حرف بہ حرف‘‘ کے زیرعنوان کالم لکھے۔ روزنامہ ’’وطن، ڈھاکا‘‘ سے بھی ناتا رہا۔ کراچی آنے کے بعد روزنامہ ’’سویرا‘‘ میں چند ماہ کام کیا۔

مطالعے کی لت بچپن میں پڑی۔ لکھنے کا آغاز جماعت نہم میں کیا۔ کالج کے زمانے میں کہانیاں لکھنی شروع کر دی تھیں۔ ڈھاکا میں افسانہ نگار، شہزاد اختر اور شاعر اور ڈرامانویس، عبدالحمید سوز حیدرآبادی سے ملاقات ہوئی۔ ترقی پسندی تینوں کے مزاج کے قریب۔ گو جدیدیت کا چرچا تھا، مگر وہ خاموشی سے اپنا کام کرتے رہے۔ ’’گوشۂ ادب‘‘ نامی ایک چھوٹی سی ادبی انجمن بھی قائم کی۔ پہلی کہانی لاہور سے نکلنے والے ماہ نامے ’’نصرت‘‘ میں شایع ہوئی۔ پھر تو ایک سلسلہ چل نکلا۔ ’’لیل و نہار‘‘ میں چیزیں چھپتی رہیں۔ آنے والے دنوں میں معروف صحافی اور جدید فکر کے نمایندہ شاعر، صلاح الدین محمد کی ’’انجمن ادب‘‘ اور ’’حلقۂ ارباب ذوق، ڈھاکا‘‘ کی نشستوں میں پابندی سے شرکت کی۔ کراچی آنے کے بعد ’’حلقۂ آہنگ نو‘‘، ’’دبستان حرا‘‘ اور ’’فکشن گروپ‘‘ سے وابستگی رہی۔ مشرقی پاکستان کے زمانے میں زیادہ کہانیاں لکھیں۔ سقوطِ ڈھاکا کے بعد تقریباً دس سال ذہنی جمود رہا۔

سنتے ہیں، اُن کے مجموعے ’’دریچے میں سجی حیرانی‘‘ کی اشاعت کے بعد چند حلقوں نے ’’نثر میں شاعری‘‘ کرنے کا الزام عاید کیا تھا۔ اِس ضمن میں کہنا تھا،’’میرے مجموعے کی ایک دو کہانیاں میری دلی کیفیات کی ترجمانی کرتی تھیں، میرے ٹوٹے ہوئے دل کی بپتا تھیں۔ شاید اِسی بنا پر دوستوں نے یہ الزام لگایا۔ دیکھیں، اچھے افسانوی ادب کے ڈانڈے شاعری سے مل جاتے ہیں، اور یوں فکشن کی آفاقیت ابھرتی ہے۔‘‘

گروہ بندیاں کو فروغ ادب میں رکاوٹ خیال کرتے ہیں۔ کہنا ہے؛ یہ تخلیقات کے لیے مُضر ہیں۔ اردو ادب کے مستقبل سے زیادہ پُرامید نہیں کہ نہ تو رسالے نکل رہے ہیں، نہ ہی نشستیں ہورہی ہیں۔ پھر حکومت بھی ادھر توجہ نہیں دیتی۔

زندگی میں خوشیاں کم، دُکھ زیادہ آئے۔ قلق ہے کہ اِس ریاست کے باسیوں نے نہ تو کبھی خود کو پاکستانی کہا، نہ ہی سمجھا۔ علاقائیت کی بنیاد پر سب تقسیم ہیں۔ نوجوانوں کی بابت زیادہ پُرامید نہیں کہ وہ خود اپنے مستقبل سے بے پروا نظر آتے ہیں۔ فکشن میں منٹو اور بیدی کے مداح۔ گائیکی میں مہدی حسن کو سراہتے ہیں۔ 69ء میں شادی ہوئی۔ پسند کی شادی تھی۔ بیگم نے زندگی کے ہر موڑ پر ساتھ دیا۔

دو ہجرتوں کا کرب

پورا نام؛ زین الدین احمد صدیقی۔ پیدایش؛ 22 جولائی 1939، قصبہ بھتری، ضلع غازی پور، یوپی۔ والد کا نام؛ مولوی عبدالستار۔ یافت کا ذریعہ زمیں داری۔ جب شعور کی آنکھ کھولی، خاندان کو معاشی مسائل کے روبرو پایا۔کھیت رہن رکھے جاچکے تھے، سفید پوشی کا بھرم رکھنا مشکل تر ہوتا جارہا تھا۔

تین بہن، دو بھائیوں میں وہ سب سے چھوٹے۔ اردگرد دیہی ماحول۔ پسندیدہ کھیل؛ گلی ڈنڈا۔ باغ بانی کا شوق۔ خاندان مذہبی سوچ کا حامل۔ مسلم لیگ کو ووٹ دیا، پر بٹوارے کے فوری بعد ہجرت نہیں کی۔ ابتدائی تعلیم مڈل اسکول، دیوکلی، ضلع غازی پور سے حاصل کی۔

کم سنی میں والدہ کے انتقال کا کرب سہنا پڑا۔ اس سانحے نے گہری یاسیت طاری کر دی، جس سے نکالنے کے لیے بڑے بھائی 51ء میں اپنے ساتھ مشرقی پاکستان لے گئے۔ یہ پہلی ہجرت تھی۔

52ء میں نواب پور گورنمنٹ ہائی اسکول، ڈھاکا میں داخلہ لیا۔ نئی زمین، نئے لوگ۔ انتہائی کٹھن دور تھا۔ کبھی کبھی جی چاہتا کہ سب چھوڑ کر بھاگ جائیں۔ میٹرک کے بعد مالی وسائل آڑے آئے، تو دوستوں نے تعاون کیا۔ قائداعظم کالج، ڈھاکا کا حصہ بن گئے۔ ڈھاکا الیکٹرک سپلائی کمپنی سے 60 روپے ماہ وار پر پیشہ ورانہ سفر کا آغاز کیا۔ ملازمت اور پڑھائی ساتھ ساتھ چلتے رہے۔ صبح سات بجے گھر سے نکلتے، تو گیارہ بجے لوٹتے۔ تین برس بعد اُنھوں نے مقابلے کا امتحان دیا، اور پاکستان ٹیلی گراف اینڈ ٹیلی فون ڈیپارٹمنٹ، ڈھاکا سے منسلک ہوگئے۔ 65ء میں ڈھاکا یونیورسٹی سے اردو میں ماسٹرز کیا۔

سقوط ڈھاکا کے متعلق موقف ہے؛ 70ء کے فوجی آپریشن نے بنگالیوں کو مشتعل کر دیا تھا، اُن پر بہت ظلم ہوا، جس کا نتیجہ قتل و غارت گری پر منتج ہوا۔ بگڑتے حالات کے پیش نظر سقوط سے کچھ ماہ قبل ہی پاکستان آگئے۔ دوسری بار ہجرت کا کرب سہنا سہل نہیں تھا۔ زندگی ازسرنور ترتیب دینی پڑی۔ تنکا تنکا چُن کر آشیانہ بنایا۔ 76ء میں جامعہ کراچی سے انگریزی میں پرائیویٹ امیدوار کی حیثیت سے ماسٹرز کیا۔ ٹی اینڈ ٹی ڈیپارٹمنٹ سے 98ء میں، بہ حیثیت اکاؤنٹس آفیسر ’’گولڈن ہینڈ شیک‘‘ لے کر سبک دوش ہوئے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔